|
اس سے پہلے کہ ہم یہ پوچھ پاتے کہ آخر کس کا انتظار کیا جا رہا ہے، گیمنگ
مرکز کے مالک نے تمام حاضرین کو رستہ صاف کرنے کو کہا اور تسلی بھی دی کہ
’فکر نہ کرو سب کو تصویر بنوانے کا موقع ملے گا۔‘
ایک نوجوان لڑکے نے اپنی دائیں جانب کھڑے شخص سے مخاطب ہو کر کہا یہ ’نی‘
ہمیں اور کتنا انتظار کروائے گا؟ اس نی نامی شخص نے ہمیں اور گیمنگ مرکز
میں موجود متجسس افراد کو دس منٹ مزید انتظار کروایا۔
اس دوران چند لوگوں سے پوچھنے پر یہ معلوم ہوا کہ جنوبی کوریا سے تعلق
رکھنے والے ٹیکن گیم کے معروف کھلاڑی ہولی نی پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
گیمنگ مرکز میں داخل ہوتے وقت ہولی نی کو ملنے والے پرتپاک استقبال یہ ظاہر
کرتا تھا کہ یہ گیم کھیلنے والے مقامی شائقین میں ان کی حیثیت ایک ہیرو کی
سی ہے۔
گیمنگ کی دنیا میں فائٹنگ گیموں کا معروف بین الاقوامی مقابلے ایو کو دو
مرتبہ جیتنے والے ہولی نی نے ٹیکن 7 کا جاپان ماسٹرز اور ٹیکن کے ٹیگ
ٹورنامنٹ میں بھی کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ ہولی سنہ 2012 سے گیمنگ کے
عالمی مقابلوں میں فتوحات سمیٹ رہے ہیں۔
البتہ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکن کی دنیا کے اس منجھے ہوئے کھلاڑی کو
آخر پاکستان آنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
ارسلان صدیقی، جنھیں گیمنگ کی دنیا میں ارسلان ایش کے نام سے جانا جاتا ہے،
پہلے پاکستانی کھلاڑی تھے جنھوں نے نہ صرف ہولی نی کو شکست دی بلکہ بین
الاقوامی ایو مقابلہ بھی جیتا۔
ارسلان نے بعد ازاں ہولی نی کو لگاتار دو مرتبہ مات دی، حیران کُن طور پر
رواں سال عاطف بٹ اور اویس ہنی نامی گیمرز نے بھی بین الاقوامی مقابلے جیت
کر گیمنگ کمیونٹی کی توجہ پاکستان کی جانب مبذول کروائی۔
ٹیکن کے سب سے کٹھن اور اعصاب شکن مقابلہ ٹیکن ورلڈ ٹور فائنل میں حصہ لینے
سے قبل ہولی نی گیمنگ کا پاکستانی انداز سیکھنے اور مقامی کھلاڑیوں کے ساتھ
پریکٹس کرنے کے ارادے سے یہاں آئے تھے۔ انھوں نے چند دن لاہور میں قیام کیا
جہاں انھوں نے کئی مقامی کھلاڑیوں سے بھی مقابلہ کیا۔
|
|
ہولی نی کا پاکستان آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ملک میں گیمنگ کا کلچر
تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور متعدد کھلاڑیوں کا فتوحات سمیٹنا بھی
نوجوانوں کی ’ٹیکن گیم‘ میں بڑھتے لگاؤ کی ایک علامت ہے۔
’میرا بھی وقت آئے گا‘
پاکستان میں گیمنگ کے جدید طرز کے محدود مراکز ہونے کے باوجود بھی ایسے
کھلاڑی ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جو دنیائے گیمنگ کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کو
شکست دے رہے ہیں۔ ٹیکن کے عالمی مقابلے جیتنے والے متعدد کھلاڑی اس کامیابی
کا سہرا ارسلان ایش کے سر باندھ رہے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے گیمر اویس ہنی کے مطابق ارسلان ایش کی بدولت دنیا
بھر میں آگاہی بڑھی کہ پاکستان میں بھی مہارت رکھنے والے کھلاڑی پائے جاتے
ہیں۔
حال ہی میں دبئی ٹیکن ماسٹرز کے فاتح اویس کا کہنا ہے کہ ’اس شہرت کی
بنیادی وجہ ارسلان ہی ہے جس نے پاکستان کی جانب سے پہلی بار ٹیکن کے کسی
بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا۔‘
گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے عاطف بٹ نے سنہ 2009 میں گیمنگ شروع کی۔ بی
بی سی سے خُصوصی گفتگو میں عاطف نے بتایا کہ دیگر گیمز میں سے انھوں نے
فائٹنگ گیم کا انتخاب کیا جس میں ٹیکن تھری اور ٹیکن فائیو شامل ہیں۔
|
|
عاطف بٹ کا کہنا تھا کہ ’جب ارسلان نے سنہ 2018 میں پاکستان کا نام روشن
کیا تو میں نے بھی سوچا کہ اب میرا بھی وقت آئے گا۔‘
ارسلان ایش نے مداحوں اور دیگر کھلاڑیوں سے ملنے والی پذیرائی پر بات کرتے
ہوئے کہا کہ ’بہت فخر محسوس ہوتا ہے، گلی محلوں میں جاتا ہوں یا کسی شاپنگ
مال میں تو وہاں بچے تصویریں لیتے ہیں اوروہ مجھے جانتے ہیں۔‘
لاہور کے علاقے داروغے والے سے تعلق رکھنے والے ارسلان کا مزید کہنا تھا کہ
’بہت خوشی ہوتی ہے کہ میری بدولت بہت سے پاکستانی اس شعبے میں ترقی کر رہے
ہیں۔‘
’نشہ تھا گیم کا‘
پاکستان میں گیمنگ کے شوقین ہر اُس نوجوان کی طرح عاطف بٹ نے بھی گیمنگ کا
آغاز ٹوکن والی ویڈیو گیمز کی دکانوں سے کیا مگر رواں برس ٹوکیو ٹیکن
ماسٹرز میں کامیابی تک کا ان کا سفر اتنا آسان نہ تھا۔
آٹھویں جماعت میں سکول چھوڑنے والے عاطف بٹ کا کہنا تھا کہ ’سکول سے دو بجے
چھٹی ہوتی تھی اور اس کے بعد سے ہی میں گیم کھیلنے لگ جاتا تھا، سمجھو نشہ
تھا گیم کا۔‘
|
|
عمومی طور پر والدین بچوں کو گیمنگ جیسے مشاغل سے دور رہنے اور پڑھائی کو
ترجیح دینے پر زور دیتے ہیں اور ایسے ہی دباؤ کا سامنا عاطف کو بھی کرنا
پڑا۔
’والدین تو اس گیمنگ کو برا بھلا کہیں گے، ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو کہیں
گے کہ اس میں فائدہ نہیں مگر اس کو آپ نوکری ہی سمجھیں اب اس کا ایک مستقبل
ہے جو پہلے نہیں تھا۔‘
عاطف کا کہنا تھا کہ اب اس شعبے میں محنت کی جائے تو نہ صرف نام بنتا ہے
بلکہ سپانسرز کی بدولت گیمنگ ایک ذریعہ معاش بھی بن سکتا ہے۔
’ہم نے محنت ہی اتنی کی ہے کہ جیتنا ہمارا
حق بنتا ہے‘
عاطف بٹ سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں ایسی کیا خصوصیت ہے
کہ وہ اتنی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے محنت ہی
اتنی کی ہے کہ ہمارا حق بنتا ہے جیتنا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے اتنی پریکٹیس کی کہ ہماری خواہش تھی کہ ہم
باہر کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلیں مگر پاکستان میں ایسا کوئی نہیں ملا جو
ہماری مالی معاونت کرے۔‘
|
|
اکتوبر میں ہونے والے ٹوکیو ٹیکن ماسٹرز میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے
اویس ہنی اور عاطف بٹ نے تمام شرکا کو مات دے کر گرینڈ فائنلز میں جگہ
بنائی اور عاطف نے گرینڈ فائنلز میں اویس کو ہرا کر ٹورنامنٹ اپنے نام کیا۔
اویس نے ٹوکیو ٹیکن ماسٹرز مقابلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی امید
نہیں کر رہا تھا کہ پاکستان سے دو ہی کھلاڑیوں نے شرکت کی اور وہی گرینڈ
فائنلز میں پہنچ جائیں گے۔‘
’لوگوں نے ہماری بہت پذیرائی کی اور اب تو سارے کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان
کی ٹیکن کمیونٹی دنیا بھر میں سب سے اچھی ہے۔‘
نوجوانوں کی ٹیکن میں دلچسپی کیوں بڑھ رہی
ہے؟
ٹیکن کے کھیل میں کھلاڑی افسانوی کرداروں کی مدد سے لڑائی کرتے ہیں۔ ارسلان
ایش کے مطابق بہت سے نوجوان اس گیم کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
’ٹیکن تھری شروع کرنا اور اس میں مہارت حاصل کرنا آسان نہیں تھا مگر اب
ٹیکن سیون جیسی گیم اس لیے ڈیزائن کی جا رہی ہے کہ پہلی دفعہ کھیلنے والوں
کے لیے آسان ہو۔‘
|
|
گزشتہ سال لوگوں نے گیمنگ مراکز کھولنا بند کر دیے تھے مگر ارسلان کے مطابق
ان فتوحات کہ بعد بہت سے سپانسرز آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آسٹریلیا
اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے سپانسرز پاکستانی کھلاڑیوں کو بہت سے مواقع
دے رہے ہیں اور نئے مراکز قائم کیے جا رہے ہیں جو بہت خوش آئند ہے۔‘
عاطف بٹ نے ملک میں گیمنگ کے ارتقائی عمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
’اب مستقبل گیمنگ زونز کا ہے ٹوکن والی ویڈیو گیمز کی دکانیں ختم ہو گئی
ہیں شاید اب بھی ان کے لیے ہیں جو گیم کھیلنا شروع کر رہے ہیں۔‘
ٹیکن کے بڑھتے رجحان کی جیتی جاگتی مثال اویس کی ہی ہے جنھوں نے صرف ڈھائی
سال قبل گیم کی مقبولیت دیکھتے ہوئے اس گیم کا انتخاب کیا۔ اس سے قبل وہ
کنگ آف فائٹرز میں دلچسپی رکھتے تھے۔
کیا ہر کوئی پروفیشنل گیمنگ کی جانب جا
سکتا ہے؟
ٹیکن گیم کھیلنے کے لیے مخصوص ساز و سامان درکار نہیں مگر پیشہ ورانہ طور
پر گیمر بننے کے لیے ایک خصوصی ’سٹک‘ درکار ہوتی ہے جس پر جوائے سٹک سمیت
دیگر بٹن موجود ہوتے ہیں جس سے گیم کھیلی جاتی ہے۔
|
|
دنیا بھر میں پروفیشنل ٹیکن کے کھلاڑی اس سٹک کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان
میں گیمنگ کے حوالے سے جدید طرز کے مراکز کم تعداد میں پائے جاتے اور اسی
وجہ سے کوئی مقامی کمپنی ان گیمنگ سٹکس بنانے کا کاروبار نہیں کرتی۔
اویس ہنی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’جو پروفیشنل سٹکس استعمال ہوتی ہیں
وہ اتنی مہنگی نہیں ہیں مگر یہاں وہ بنائی نہیں جاتی اس لیے ہمیں بیرون ملک
سے یہ درآمد کروانی پڑتی ہیں جس کے باعث کسٹم کی مد میں دی جانی والی رقم
بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔‘
پاکستان میں اویس کے مطابق ایسے بہت سے کھلاڑی ہیں جو پروفیشنل سٹکس نہیں
خرید پاتے اور عالمی سطح پر مقابلہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
البتہ گذشتہ سال ایک کورین کمپنی نے پاکستان میں گیمنگ کا رجحان دیکھتے
ہوئے لاہور کے ایک نجی گیمنگ مرکز میں جدید ساز و سامان کو لانے کے لیے
سپانسرشپ فراہم کی۔
اویس ہنی کافی پُر امید ہیں کہ مستقبل میں مزید مالی معاونت ملنے سے بہت سے
نوجوانوں کو عالمی سطح پر اپنا لوہا منوانے کا موقعہ ملے گا۔
|