'بھارت کے مسلمان اب پرانے کاغذات تلاش کر رہے ہیں'

image


اس وقت بھارت کے بیشتر عوام کے جذبات مشتعل ہیں۔ لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

لوگ کیوں بے چین ہیں؟ کیوں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ کس چیز کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں؟ اگر ایسے سوالات کیے جائیں تو ہر طرف ایک ہی آواز آئے گی کہ ہم شہریت قانون کے خلاف ہیں۔ ہم اسے ملک میں نافذ نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کو اسے واپس ہی لینا ہوگا۔

شہریت قانون کیا ہے اور لوگ اس قانون پر کیوں مشتعل ہیں؟ دراصل یہ قانون مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا اعلان کرتا ہے۔ مسلمان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اس کی زد پر ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمان ہیں۔

یہ قانون گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو چکا ہے۔ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا جس پر احتجاج ہو رہا ہے۔

شہریت قانون کا ایک پہلو تو پورے ملک کے مسلمانوں سے وابستہ ہے تو دوسرا پہلو شمال مشرقی ریاستوں سے متعلق ہے۔

آسام اور تریپورہ کے لوگوں کو اس قانون پر شدید تحفظات ہیں۔ اُن کا مؤقف ہے کہ اس قانون کے تحت وہاں موجود لاکھوں بنگالیوں اور ہندوؤں کو شہریت مل جائے گی جس کی وجہ سے آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور وہاں کی ثقافت بھی متاثر ہو جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ اس قانون کے خلاف سب سے پہلی آگ شمال مشرقی علاقوں میں ہی بھڑکی۔ اس کے خلاف احتجاج کے دوران کئی افراد کو اپنی جانیں تک گنوانا پڑیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر اس قانون کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

آئین و قانون کے ماہرین، انسانی حقوق کے کارکن اور حزب اختلاف کے سیاست دان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس قانون کے درپردہ خطرناک عزائم پوشیدہ ہیں۔
 

image


شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے الزام عائد کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت عملاً ہندو احیا پسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی حکومت ہے جو ہندو ہندوستان کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے اور ہندوستان کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کر دینے کے لیے کوشاں ہے۔

شہریت قانون کا دوسرا رُخ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) سے جا کر ملتا ہے۔ یہ ایکٹ این آر سی کو مزید خطرناک بناتا ہے۔ اس کی مدد سے آسام کے ان 13 لاکھ ہندوؤں کو جو کہ این آر سی سے باہر رہ گئے تھے۔ شرنارتھی (پناہ گزین) کہہ کر شہریت دے دی جائے گی مگر باہر رہ جانے والے لاکھوں مسلمانوں کو غیر ملکی درانداز کہہ کر نکالنے یا حراستی مراکز میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔

وزیر داخلہ امت شاہ اعلان کر چکے ہیں کہ اب پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا جائے گا۔

این آر سی کے نفاذ کی صورت میں ہر شہری کو کم از کم 50 سال کا ریکارڈ پیش کرنا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اسی ملک کا شہری ہے۔

بہت سے ماہرین اسے ہندوستانی شہریوں کی توہین و تذلیل قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جن لوگوں کا ملک کی جدوجہد آزادی میں کوئی کردار نہیں تھا وہ آج سب سے بڑے محب وطن بن گئے ہیں۔ اور وہی دوسروں سے ان کی حب الوطنی اور شہریت کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔

بھارت کے مختلف حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ایسے افراد جن کے پاس اپنا اور اپنے آباؤ اجداد کا کوئی ریکارڈ نہیں ہو گا تو کیا حکومت ان تمام لوگوں کو غیر ملکی قرار دے دے گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔

سیاسی و سماجی ماہرین اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اس صورت میں شہریت ترمیمی ایکٹ کا ناجائز استعمال ہو گا۔ جو ہندو اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہیں گے انہیں اس ایکٹ کی آڑ میں شہریت دے دی جائے گی اور جو مسلمان ناکام رہیں گے انہیں حراستی مراکز میں بھیجنے کی کوشش کی جائے گی۔

میں سوچتا ہوں کہ خدا نہ کرے اگر واقعی ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟ اس قسم کے اندیشے میں گرفتار ہونے والا میں واحد شخص نہیں ہوں۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو مستقبل کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف مقامات پر مسجدوں اور دیگر مراکز سے ایک مہم شروع کی گئی ہے اور وہ مہم یہ ہے کہ خود کو کاغذات اور دستاویزات سے لیس کر لو۔ جو لڑائی آگے لڑنی ہے وہ انہی کاغذ کے ہتھیاروں سے لڑی جائے گی۔‘
 

image


بنگلور میں تو متعدد مساجد کو باقاعدہ تربیتی مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں رضاکار عام شہریوں اور بالخصوص مسلمانوں کو اس سلسلے میں بیدار کر رہے ہیں۔

لاکھوں کی تعداد میں لٹریچر اور پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیے جا رہے ہیں اور معاملے کی سنگینی سے بے خبر مسلمانوں کو عملی تربیت دی جا رہی ہے۔

آج مسلمانوں کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں اپنے آباؤ اجداد کے کاغذات خواہ وہ زمین کے ہوں یا مکان کے، تعلیمی اسناد ہوں یا ملازمتوں کے ثبوت، کھنگالنے اور اکٹھا کرنے کی کوشش نہ کی جا رہی ہوں۔

آج لاکھوں افراد اس مہم میں شریک ہیں اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔

کیا ان کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
 


Partner Content: VOA
YOU MAY ALSO LIKE: