تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے

(والدـ کی وفات پر لکھی گئی ایک انمول تحریر)

میرے والد محمد دلشاد خاں لودھی جو 1928ء کو بھارت کے شہر کاسکو بیگو میں پیدا ہوئے اور 19جنوری 1994ء کی صبح پونے چار بجے 65 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ’’بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘
انہیں اوائل جوانی سے ہی پیشاب میں رکاوٹ کا مرض لاحق تھا جب ہم واں رادھا رام ریلوے کوارٹروں میں رہائش پذیر تھے تو وہاں بھی ان کی طبیعت اکثر خراب ہی رہتی تھی والدہ مولیوں کا پانی نچوڑ کر انہیں پلاتیں تو کچھ افاقہ ہوجاتا۔اس بیماری کے علاج کے لیے کئی مرتبہ وہ لاہور میں ریلوے کیرن ہسپتال میں داخل بھی رہے لیکن کوئی علاج کارگر ثابت نہ ہوسکا۔ اکثر اوقات وہ چند دیسی جڑی بوٹیاں بھی استعمال کرتے رہے ۔ پھر جب لاہور کینٹ تبدیل ہو کر آئے تو یہاں بھی اس بیماری نے پیچھا نہ چھوڑا۔
1980ء کے بعد لاہور میں انہیں ایک اور مرض نے گھیرا‘ جسم میں انگڑائی آتے ہی اتنا شدید بخار ہو جاتا کہ سردی سے بچانے کے لیے کئی رضائیاں ان کے اوپر دینی پڑتیں۔ اس دوران ان کا جسم اتنا درد کرتا کہ سارے گھر والے انہیں دباتے پھربھی ان کی تسلی نہیں ہوتی ۔ جب بھی عارف والہ یا ملتان عزیزوں کے ہاں جانے کا اتفاق ہوتا تو ایک آدھ بار انہیں وہاں بھی اس بیماری کا سامنا ضرورکرنا پڑتا۔ یقینا ان کی یہ بیماری میزبانوں اور مہمانوں دونوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی۔ میں کئی مرتبہ انہیں لے کر سپشلسٹ ڈاکٹر پروفیسر ممتاز حسن لے کر گیا۔ ان کے علاج سے بخار رفع ہو جاتا اور والد صاحب پھر پہلے کی طرح توانا ہوجاتے۔
پھر جب 1988ء کا زمانہ آیا تو ان کے جسم کے بائیں حصے پر فالج کا اٹیک ہوا۔ جسم کا بائیں حصہ سر سے پاؤں تک حرکت کے قابل نہ رہا۔ ان کی یہ کیفیت اور حالت میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔میں نے باہمی مشورہ کر کے انہیں سروسز ہسپتال میں داخل کروا دیا جہاں وہ دو تین دن زیر علاج رہے اس دوران ان کے جسم میں اتنی طاقت آ گئی کہ وہ بائیں ہاتھ سے کوئی بھی چیز مضبوطی سے پکڑ سکتے تھے۔ ہماری موجودگی میں ڈاکٹر اپنا ہاتھ ان کے بائیں ہاتھ میں دے کر کہتے کہ اسے دباؤ۔ جبکہ باقی جسم کی بھی یہی صورت حال تھی۔ پہلے پہل تو وہ کسی کے سہارے سے چلتے رہے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد بغیر سہارے بھی چلنے لگے۔ والد کو حقیقت میں خود چلتا پھرتا دیکھ کر ہمیں بے حد خوشی محسوس ہوئی۔
1990ء کے وسط میں بیک وقت تین بیماریوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ایک جانب پروسٹیٹ کا بڑھ جانا اور شدید درد کا احساس‘ دوسری جانب دونوں آنکھوں سے نظر آنا بند ہو گیا اور تیسری جانب شدید سردی سے بخار آنے لگا۔ جب تمام لوگ عید کی خوشیاں منا رہے تھے تو مجھے اپنے والد کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ اس وقت وہ باتھ روم میں تھے۔ ان کی کربناک آواز سن کر میری عید کی خوشیاں رفو چکر ہو گئیں۔ جونہی وہ باتھ روم سے باہر آئے تو میں نے تکلیف کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے رکاوٹ اب پیشاب میں خون بھی آنے لگا ہے۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ عید کے فوراً بعد انہیں سپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک کروا کر ان کا مناسب علاج کراؤں گا۔ اس مقصد کے لیے جب میں ڈاکٹر عباس عسکری (جو ایک ماہر سرجن تھے) کے پاس والد صاحب کو لے کر گیا تو الٹرا ساؤنڈ کے دوران انہیں پیشاب کی نالی کے بالکل سامنے ایک غدود نظر آئی جو ساری تکلیف کی جڑ تھی ۔ڈاکٹر نے فوراً آپریشن کروانے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی وقتی افاقہ کے لیے کچھ ادویات بھی لکھ دیں جن سے کچھ افاقہ ہوا بھی۔ گھر آ کر میں گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ پہلے والد صاحب کی آنکھوں کا آپریشن کرواں یا غدود کا۔ یہ فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل تھا کیونکہ میرا غلط فیصلہ والد صاحب کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے والدہ سے مشورہ کر کے باری باری آنکھوں کا آپریشن کروانے کا فیصلہ کر لیا اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ والد آپریشن کے مرحلے سے بآسانی گزر گئے۔ جن دنوں والد صاحب سروسز ہسپتال کے آئی وارڈ میں آپریشن کے لیے داخل تھے۔رات کو ان کے پاس رہنے کی ذمہ داری میں نے خود قبول کی۔ میں سرے شام ہی ان کے پاس چلا جاتا اور صبح تک وہیں رہتا رات کو جب سب مریض سو جاتے تو ننگے فرش پر کھیس بچھاکر میں بھی لیٹ جاتا۔جیسے ہی والد صاحب کروٹ بدلتے تو میں اٹھ کھڑا ہوتا ۔
کچھ مریض ایسے بھی تھے جو تکلیف کی وجہ سے رات بھر سو نہ سکتے تھے۔ ان کے کراہنے کی آوازیں ماحول کو مزید سوگوار کر جاتی ۔ ایک عورت کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے کہ جوانی اور تندرستی کی راتیں پلک جھپکنے میں گزر جاتی ہیں لیکن بیماری کی راتیں کٹتے نہیں کٹتیں۔ اس کی اس بات میں بڑا وزن تھا۔ نرم گداز بستر پر سوئے ہوئے میں نے کبھی احساس نہیں کیا تھا کہ ہسپتال کے فرش پر بھی کبھی سونا پڑے گا۔ جو سکون اور راحت‘ آرام دہ بستر پر میسر ہوتا ہے۔ اتنی ہی تکلیف اور بے سکونی ننگے فرش پر سونے سے ہوتی ہے۔ایک ایک کروٹ اذیت کا باعث بنتی ہے۔ چونکہ سونے کے لیے فرش پر بھی کھلی جگہ میسر نہ تھی اس لیے دو بیڈ کے درمیان میں( جہاں وزیٹر بینچ رکھا جاتا ہے ) ہی لیٹنا پڑتا۔ ایک مرتبہ رات کے تین بجے مجھے ٹویلٹ جانے کی حاجت محسوس ہوئی فراغت کے بعد جونہی میں نے پانی کا استعمال شروع کیا تو پانی اتنا گرم تھا کہ توبہ توبہ۔ میں انتہائی بے چینی کے عالم میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا تھا میں اس کا اظہار کسی اور سے بھی کر نہیں سکتا تھا ۔ لیکن میری ہی طرح کچھ اور لوگ بھی باتھ روم میں جا کر آگ کی طرح گرم پانی سے انجوائے کرتے رہے اور ہسپتال کے ان ملازمین کوبدعائیں دیتے رہے جنہوں نے گیزر سے پانی اتنا گرم کر دیا تھا کہ وہ ابلنے لگا۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہسپتال میں گزرنے والی ہر رات ایک الگ کہانی اپنے دامن میں سموئے ہے لیکن میں نے یہ سب کچھ صرف اور صرف اپنے والد کی تیمار داری کے لیے برداشت کیا۔بہرکیف کچھ عرصہ تو سیاہ عینکیں لگی رہیں پھر ڈاکٹر واصف محی الدین نے نمبر سیٹ کر کے نظر کی عینک لگا دی جوزندگی کے آخری دن تک لگی رہی اور خدا کا بڑا احسان ہے کہ آپریشن کے بعد والد صاحب کو آنکھوں کی جانب سے کوئی پریشانی نہ ہوئی بلکہ وہ گھر سے باہر نکل کر اسٹیشن کی جانب بھی چلے جاتے اور پرانے دوستوں سے گپ شپ کرکے گھر واپس آ جاتے۔ یہ امر ہم سب کے
لیے عافیت کا باعث تھا جبکہ بڑھے ہوئے پروسٹیٹ کا مسئلہ جوں کا توں چلتا رہا اور والد صاحب بھی وقتی شفاء پر ہی اکتفا کرتے رہے۔
1992ء میں ایک بار پھر پیشاب کی تکلیف نے شدت اختیار کرلی۔ میں انہیں لے کر ڈاکٹر فرخ (جو اس شعبے کے ماہر ڈاکٹر ہیں) کے پاس گیا۔ انہوں نے الٹرا ساؤنڈ کرنے کے بعد بتایا کہ ان کا مثانہ پیشاب سے مسلسل بھرا رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کے گردے ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے ان کا مثانہ خالی کرنا پڑے گا پھر علاج اور مرض کی تشخیص کا مرحلہ آئے گا۔ انہوں نے مثانہ خالی کرنے کے لیے پائپ لگوانے کی ہدایت کی۔ میں ڈاکٹر صفدر سیال کے پاس پائپ لگانے کے لیے لے گیا جس نے بہت کوشش کی لیکن غدود کی وجہ سے پائپ پیشاب کی نالی سے گزرتا ہی نہ تھا جبکہ اس عمل سے والد صاحب کو بہت تکلیف ہوئی ان کی خوفناک چیخیں ساتھ والے کمرے میں میں بھی سن رہا تھا ۔ لیکن یہ سب کچھ میں اس لیے برداشت کر رہا تھا کہ شاید پائپ لگنے سے تکلیف رفع ہو جائے۔ لیکن شدید درد نے والد صاحب کو جلد اس عمل سے بیزار کر دیا اور میں انہیں لے کر گھر آ گیا۔ دوسرے دن جب میں پھر ڈاکٹر فرخ کے پاس جانے لگا تو والد صاحب نے میرے ساتھ جانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ گھر پر ہی ٹھیک ہیں۔ کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ ان کے بقول پائپ ڈالنے کے عمل سے تکلیف میں اضافہ ہی ہوا ہے‘ کمی نہیں ہوئی۔ بہرکیف میں اکیلا ہی ڈاکٹر فرخ کے پاس گیا تو اس نے تمام رپورٹوں کا مطالعہ کر کے مجھے بتایا کہ ان کا فوری آپریشن ضروری ہے۔ ڈاکٹر سے یہ ہدایت لے کر میں گھر آ گیا اور اپنی والدہ کو آگاہ کر دیا لیکن والد کسی طرح بھی آپریشن کے لیے ہسپتال جانے کو تیار نہیں تھے ۔ان کا خیال تھا کہ زندگی کے جو دن باقی ہیں وہ میں ہسپتال میں کیوں گزاروں۔ وہ اپنے گھر میں رہنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ ان کا فیصلہ سن کر میں انہیں حکیم جگرانوی کے پاس لے گیا جس کی دوائی سے انہیں وقتی افاقہ بھی ہوا تھا ۔ یہ امر ہم سب کے لیے اطمینان بخش تھا۔ ڈیڑھ سال سکون سے گزر گیا اور کبھی بھی والد صاحب نے درد یاپیشاب میں زیادہ رکاوٹ کی شکایت نہیں کی۔ ایک مسئلہ ضرور تھا کہ پیشاب مسلسل آتا رہتا تھا جس کی بنا پر کپڑے صاف رکھنا بہت مشکل تھا۔ زیادہ تکلیف کے ڈر سے چھوٹی تکلیف کو گلے سے لگائے بیٹھے رہے۔
6 جنوری بدھ کے دن جب میں حسب معمول اپنے گھر پہنچا تو والدہ کے چہرے سے ہی میں نے پڑھ لیا کہ آج ضرور کوئی غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک بار پھروالد صاحب کو پیشاب کی بیماری نے آ گھیرا ہے اور وہ کافی تکلیف محسوس کررہے ہیں۔ میں نے پوچھاتو والد صاحب نے مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ میں ٹھیک ہوں۔ کسی قسم کی فکر نہ کرو لیکن تکلیف تو ان کے چہرے سے ہی عیاں تھی۔ اولاد ہونے کے ناطے میں کیسے ان کی تکلیف کو فراموش کر سکتا تھا۔ میں نے انہیں ہسپتال چلنے کے لیے کہا لیکن وہ تو ہسپتال جانے سے خاصے الرجک ہو چکے تھے۔ میری چھوٹی سالی ’’ثمینہ‘‘ کے نکاح میں شرکت کے لیے وہ ایک ہفتہ پہلے سے تیار تھے بلکہ نکاح میں شرکت کے لیے کئی پروگرام ترتیب دے رکھے تھے لیکن بیماری نے انہیں اتنا بے حال کر دیا کہ وہ ’’ثمینہ‘‘ کے نکاح میں خواہش رکھنے کے باوجود بھی شرکت نہ کر سکے۔ بہرکیف اس روزجب ثمینہ کا نکاح ہو رہا تھا ‘ میں حکیم جگرانوی سے ان کی لیے ہفتے بھر کی دوائی لے کر آیا۔ جسے کھانے سے کچھ تکلیف میں کمی واقع ہوئی لیکن جب 13جنوری بروز جمعرات کو حسب معمول شام کو گھر پہنچا تو والد تکلیف کی وجہ سے کافی پریشان نظر آئے۔ وہ واش روم میں رفع حاجت کے لیے بیٹھتے تو کمزوری کی بنا پر خود اٹھ نہ پاتے اور آواز دے کر کسی کو بلا لیتے۔ اب میں پہلے سے بھی زیادہ والدین کے گھر جانے لگا۔ شاید ہی کسی دن ناغہ ہوا ہو۔
منگل مورخہ 18جنوری 1994ء کی شام جب میں گھر پہنچا تو مجھے والد صاحب کی عدم موجودگی کا احساس ہوا۔والدہ سے پوچھا‘ انہوں نے بتایا کہ پیشاب کے ساتھ خون بھی آنے لگا تھا۔ اس لیے بڑا بھائی رمضان نے انہیں ریلوے کیرن ہسپتال میں داخل کروا دیا ہے ‘ جہاں پائپ کے ذریعے پیشاب کروا دیا گیا ہے۔ یہ جان کر ہم سب نے سکھ کا سانس لیا۔ والدہ سے مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ کل صبح ہسپتال جائیں گے۔ میں اپنے گھر آ گیا لیکن جب بھی فون کی گھنٹی بجتی تو میں خوفزدہ ہوجاتا۔ سونے کے باوجود انجانے سے خوف نے مجھے پریشان کیے رکھا۔
موت کی گھنٹی:
صبح ساڑھے پانچ بجے جب میں تہجد پڑھنے کے لیے مصلے پر ابھی کھڑا ہی ہوا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ گھر کے باقی تمام افراد گہری نیند سو رہے تھے۔ اس لیے مجھے ہی ٹیلی فون مجھے ہی اٹنڈ کرنا تھا ‘ ٹیلی فون کی گھنٹی سن کر میرے دل کی دھڑکنیں مزید تیز ہو گئیں اور کل شام والے خدشات ہی میرے دل میں ابھرنے لگے۔ جب ڈرتے ڈرتے ریسور اٹھایا تو دوسری جانب ایک اجنبی کی آواز سنائی دی جو میرا نام پکار رہا تھا جب میں نے اپنے نام کی تصدیق کی تو یکدم میرا چھوٹا بھائی ارشد فون پر آ گیا۔ تب میرے خدشات اور وسوسے یقین کی صورت اختیار کرنے لگے کہ اتنے میں ارشد کی گھبرائی ہوئی آواز آئی کہ بھائی جان! اباجی فوت ہو گئے ہیں۔ یہ الفاظ سنتے ہی مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی میرے دل پر چھریاں چلا رہا ہو۔ ریسور ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں بے ساختہ رونے لگا۔ میرے رونے کی آواز سن کر میری اہلیہ ’’عابدہ‘‘ بھی بیدار ہو گئی جب میں نے اسے بتایا کہ میں یتیم ہو گیا ہوں تو اس کی دلی کیفیت بھی مجھ سے جدا نہ تھی۔ تسلیم اور شاہد‘ زاہد ابھی بستروں میں سورہے تھے ۔ میں نے ہدایت کی کہ بچوں کو اس بارے میں کچھ نہ بتایا جائے تاکہ وہ ناشتہ وغیرہ کر لیں۔ میرا اور میری بیوی عابدہ کا والدین کے گھر فوری پہنچنا انتہائی ضروری تھا۔ اس لیے بچوں کو بردار نسبتی مشتاق کے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ بعد میں ان کے ساتھ ہی آ جائیں گے۔ عابدہ نے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرنا شروع کر دیا۔ فضا میں ابھی اندھیرا ہی تھا لیکن نماز فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ اتنے میں اشرف کا ٹیلی فون بھی آ گیا جسے میں نے کہا کہ ہم جلد ہی پہنچ رہے ہیں۔ بچے بہت حیران تھے کہ آج انہیں اتنی جلدی ناشتہ کیوں کرایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب میری دلی کیفیت عجیب و غریب صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ میں کوئی لمحہ بھی فروگزاشت نہیں کرنا چاہتا تھا اور جلد سے جلد والدین کے گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ ٹھیک ساڑھے چھ بجے میں اور عابدہ اپنے بچوں کو برادر نسبتی کے گھر چھوڑ کر والدین کے گھر جانے کے لیے چل پڑے۔ راستے میں طرح طرح کے خیال میرے
دل میں جنم لے رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ میں کس طرح چارپائی پر بے سدھ لیٹے ہوئے اپنے باپ کو دیکھ پاؤں گا۔ اس سے پہلے میں جب بھی اپنے والدین کے گھر جاتا تو سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے والد صاحب سے ہی میرا سامنا ہوتا جن کی آغوش میں کبھی سحرش کھیل رہی ہوتی اور کبھی ثاقب موجود ہوتا۔ جبکہ میری والدہ اس صوفے کے بالمقابل چارپائی پر بیٹھی ہوئی کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوتی یا محو آرام ہوتیں لیکن معلوم نہیں آج انہیں کیسی صورت حال کا سامنا ہوگا۔ راستے میں جب سنی فلور ملز کا قبرستان آیا تو اسے بڑی حسرت سے دیکھا کہ آج میرے والد کا آخری گھر بھی اسی قبرستان میں بننے والا ہے۔ ابھی سورج واضح طور پرنکل نہ پایا تھا کہ ہم دونوں‘ والدین کے گھر پہنچ گئے۔ باہر ہی اشرف‘ ارشد‘ ندیم مجھے مل گئے وہ مسلسل رو رہے تھے۔ میں کسی کو کیا حوصلہ دیتا میرا دل تو خود چکنا چور ہو چکا تھا۔ باپ کا وہ سایہ جو مسلسل چالیس سال تک میرے سر پر ایک سایہ دار درخت کی طرح موجود رہا آج وہ سایہ بھی اٹھ گیا تھااور میرا سر شفقت اور محبت کرنے والے باپ سے خالی ہوگیا۔
میں بھائی وسیم کو لے کر قبرستان گیا تاکہ اپنے شفیق والد کی آخری آرام گاہ کا انتخاب کر سکوں۔ پہلی ترجیح تو یہ تھی کہ میری دادی اور میرے نانا کے قریب جگہ مل جائے اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو پھر سڑک کے ساتھ دیوار کے قریب ہی قبر بنوالی جائے تاکہ صبح و شام آتے جاتے فاتحہ پڑھنے میں آسانی رہے۔ جب ہم دونوں قبرستان پہنچے تو آسمان پر بادل نہ ہونے کے باوجود بارش کی ہلکی سی پھوار ہونے لگی جسے میں رحمت خداوندی سمجھا۔ پھر دل میں یہ خیال بھی آیا کہ ایسا نہ ہو کہ بارش زیادہ ہونے کی بنا پر تمام انتظامات خراب ہو جائیں۔ لیکن یہ تو خدائے ذوالجلال اپنے نیک بندے کے استقبال کے لیے اپنی رحمت کے موتی برسا رہے تھے۔ گورگن کو خبر کر کے ہم قبرستان کے اس کونے میں پہنچ گئے جہاں پہلے ہی ہمارے خاندان کی دو قبریں موجود تھیں۔ لیکن وہاں قریب قریب کوئی خالی جگہ نظر نہ آئی تو میں نے سڑک کی جانب بنی ہوئی دیوار کی طرف آنا شروع کر دیا ۔ کئی جگہوں پر غور کیا پھر ایک بزرگ شخصیت حضرت داتا گنج رحمتہ اﷲ علیہ کے دیوان صاحب ’’بابا یٰسین خاں‘‘ کے مزار مبارک کے قدموں میں خالی جگہ نظر آ گئی جو دیوار سے تین چار قبروں کے فاصلے پر تھی۔ یہ جگہ مجھے اپنے والد کی آخری آرام گاہ کے لیے پسند آ گئی اور بھائی وسیم کے مشورے سے میں نے گورگن کو یہاں قبر کھودنے کے لیے کہہ دیا۔ سیمنٹ کی سیلوں سمیت اس گورگن نے چھ سو روپے طلب کیے جو ہم نے دینے قبول کر لیے یہاں سے فراغت کے بعد ہم سیدھے گھر پہنچے۔ میری جیب میں اس وقت زیادہ پیسے نہیں تھے اس لیے چیک لکھ کردوست عبدالرزاق کے ہاتھوں بنک سے اڑھائی ہزار روپے منگوا لیے تاکہ تجہیز و تکفین کے اخراجات احسن طریق سے پورے کیے جا سکیں۔
اتنے میں قصور شہر سے میری پھوپھی اور پھوپھی زاد بھائی امانت آ گئے جن کی آمد کے ساتھ ہی گھر میں ایک بار پھر کہرام مچ گیا۔ وہ اپنے حقیقی بھائی کو بستر مرگ پر دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں جبکہ ہم سب بھی باری باری ان سے چمٹ کر روتے رہے۔ اس کے بعد چچا رحمت جو میرے والد کا حقیقی چھوٹے بھائی ہیں‘ ساہیوال سے اپنی اہلیہ سمیت آ گئے انہیں دیکھتے ہی گھر کی فضا کو چیخوں نے گھیر لیا۔ میری والدہ کی حالت کچھ اچھی نہ تھی جیسے ہی گھر میں کوئی مہمان داخل ہوتا تو ایک بار پھر کہرام مچ جاتا۔
محلے کے دو بزرگوں نے غسل دینے کا وعدہ کر لیا چنانچہ ان کے ساتھ ہم بھی شامل ہو گئے اور غسل دینے کا کام شروع ہو گیا۔ اتنے میں بھائی مصطفی بھی آ گئے انہیں بھی غسل میں مددکے لیے بلا لیا گیا۔ والد صاحب کی چارپائی کو اٹھا کر صحن میں مغرب کی جانب رکھ دیا گیا تاکہ ان کے جسد خاکی کو لکڑی کے بنے ہوئے اس تختے پر لیٹا دیا جائے جہاں غسل شروع ہونا تھا دو چارپائیوں کوکھڑا کرکے ان پر چادریں ڈال دی گئیں۔ لکڑی کے تختے پر ایک کیل ابھرا ہوا تھا اسے اینٹ سے دبا دیا گیا۔ پھر چار پانچ افراد نے بڑی احتیاط سے جسد خاکی کو تختے پر لٹا دیا۔ پہلے ان کے جسم کے پہنے ہوئے کپڑوں کو قینچی کی مدد سے کاٹا گیا۔ پھر ان پر سفید کپڑا ڈال کر غسل دینے کا کام شروع کر دیا گیا۔ غسل دیتے وقت ان کا چہرہ اور باقی جسم ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ زندہ ہوں۔ ماشاء اﷲ ان کا چہرہ نور سے بھرا ہوا تھا جسے میں بار بار دیکھ کر ماضی کی یادوں میں کھو جاتا اور کبھی اپنی دلی کیفیت پر غور کرتا کہ میں تو وہ شخص ہوں جو ہمیشہ باپ کی انگلی پکڑ کر چلنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ دنیا سے ان کے جانے کے بعد میرا کیا بنے گا؟ کون مجھے اتنا پیار دے گا؟ کون صبح وشام میرا انتظار کرے گا؟ پھر میں کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر چلا گیا۔ مسجد کی چارپائی پر جب کفن کا سفید کپڑا میت کے لیے تیار رکھا گیا تو میری والدہ بول اٹھی کہ بیٹا اب یہی سفید کفن اپنے باپ کو پہناؤ گے۔ یہ الفاظ سن کر میری خشک آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو رواں ہو گئے۔ صبح سے اب تک رو رو کر آنکھیں بھی خشک ہو چکی تھیں اور چاہنے کے باوجود بھی رونا نہیں آرہا تھا لیکن جب بھی کوئی قریبی عزیز یا بزرگ شخصیت گھر میں داخل ہوتی تو خودبخود چیخیں نکل جاتیں۔
غسل سے پہلے جب پیر و مرشدحضرت مولانا محمد عنایت احمد میت کے قریب تشریف لائے تو جذبات کو قابو میں رکھنے کے باوجود بھی میری چیخیں نکل گئیں کیونکہ شدید بیماری کی حالت میں بھی والد صاحب پیرو مرشد کو ہمیشہ یاد کرتے رہتے تھے جب بھی میں والدین کے گھر جاتا تو سب سے پہلا سوال پیر و مرشد کے بارے میں کیا جاتا۔ دراصل میرے والد مجھ سے ملنے کے بعد یہ محسوس کرتے تھے جیسے وہ پیر و مرشد کو مل رہے ہیں کیونکہ خدا کے فضل وکرم سے مجھے یہ اعزاز حاصل تھا کہ میں ہر صبح اپنے پیر و مرشد کی قدم بوسی ضرور کرتا تھا اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب میں پیر و مرشد سے نہ ملا ہوں۔ اس لیے تو میرے والدین مجھ سے اپنے پیر و مرشد کی خوشبو حاصل کر لیتے تھے۔ دراصل وہ اپنے پیر و مرشد کے رنگ میں اس قدر رنگ چکے تھے کہ ہر وقت اور ہر لمحے انہی کا تصور اپنے ذہن میں محفوظ رکھتے۔ پیرو مرشد کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ کی افادیت کو سمجھتے اور ہر لحاظ سے ان کو پورا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے۔ حضرت صاحب کے کہنے پر ہی انہوں نے سوا لاکھ کلمہ طیبہ اور درود پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سفر آخرت کے لیے پڑھ کے محفوظ کر لیا تھا جس کی بنا پر روح نکلنے میں اس قدر آسانی ہوئی۔
اتنے میں غسل کا کام مکمل ہو گیا انہیں اٹھا کر چارپائی پر لیٹا دیا گیا‘ صرف چہرہ زیارت کے لیے کفن سے باہر رکھا گیا۔ تمام خواتین نے میت کے اردگرد کھڑے ہو کر بلند آواز میں کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔پنڈی سے مہمان بھی آ گئے لیکن ابھی عارف والا اور ملتان سے مہمانوں کی آمد متوقع تھی وقت بہت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا۔ نماز عصر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں اور جو لوگ صبح جاتے وقت کہہ کر گئے تھے کہ جنازے کے وقت آ جائیں گے ان کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ میں بھی نماز عصر کے لیے مسجد میں گیا اور وہاں
اعلان بھی کروا دیا اور یہ سوچتا ہوا مسجد سے باہر نکلا کہ نماز مغرب سے پہلے میرے والد اپنی آخری آرام گاہ میں جا کر ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکے ہوں گے۔ یہ مرحلہ حقیقت میں بہت پریشان کن دکھائی دے رہا تھا۔ سب سے بڑا بھائی رمضان جو اس وقت باپ کے فرائض سنبھالے ہوئے تھا گھر میں ہر کام ان کی اجازت اور مرضی سے ہو رہا تھا۔ وہ بھی ملتان کے مہمانوں کے دیر سے آنے پر متفکر تھے جب میں گھر پہنچا تو عارف والا سے میری خالائیں‘ میرے ماموں آ چکے تھے جبکہ ملتان سے بھی کچھ لوگ پہنچ گئیـ۔
چار بج چکے تھے‘ ساری گلی لوگوں سے بھرچکی تھی جبکہ باہر سڑک پر جم غفیر جمع ہو چکا تھا جو جنازہ اٹھنے کا منتظر تھا۔ گھر تک پہنچتے پہنچتے مجھے ایوان ادب‘ پی آئی ڈی بی اور مکہ کالونی کے خاصے لوگ ملے جبکہ میرے ذاتی دوستوں میں امتیاز‘ انور سعید‘ اشرف‘ اقبال‘ رزاق‘ توصیف‘ خالد‘ محی الدین بھی جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔ جب میں گھر میں داخل ہوا تو عورتوں کی بھاری تعداد اس چارپائی کو گھیرے کھڑی تھی جس پر والد اپنے آخری سفر پر روانگی کے لیے تیار تھے۔ چند دوست گھر میں داخل ہوئے جنہوں نے کلمہ شہادت کی آواز بلند کر کے جنازہ اٹھانے کی کوشش کی چنانچہ میں اور بھائی اکرم نے بھی چارپائی کو سہارا دے کر کندھوں پر اٹھا لیا۔ بھائی اکرم تو چوٹ کی بنا پر ساتھ چل نہ سکے بلکہ ان کی جانب سے کسی اور نے کندھا دے دیا۔ چارپائی کا اٹھنا ہی تھا کہ گھر کی تمام خواتین دھاڑیں مار کر رونے لگیں۔ کوئی چارپائی کو پکڑ رہا ہے‘ کوئی چارپائی اٹھانے والوں کے پاؤں کو پکڑ رہا ہے کہ خدا کے لیے انہیں نہ لے کر جاؤ۔ بھابھی ارشاد‘ بھابھی روقیہ‘ عابدہ‘ نسرین‘ میری پھوپھی‘ تمام خالائیں اور میری والدہ چیخیں مار رہی تھیں اور چارپائی کو اپنے جانب کھینچ رہی تھیں ۔ ہم نے بڑی مشکل سے چارپائی کو سنبھالا دیا کہ کہیں چارپائی ہی نہ ٹوٹ جائے۔ خود میری بھی حالت قابل رحم تھی جس کی جدائی کا ہم تصور بھی نہ کرتے تھے۔ آج خود اسے ایسی جگہ لے جا رہے تھے جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا کرتا۔ بہرکیف بہت مشکل سے چارپائی کو گھر سے باہر نکالا تو باہر کھڑے ہوئے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ جنازے کو اٹھا لیا اور کلمہ شہادت کا ورد کرنے لگے۔ دور و نزدیک سے آئے ہوئے تمام لوگ کندھا دینے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ بھائی اکرم بھی کسی کے ساتھ بائیک پر قبرستان پہنچ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب جنازہ بازار میں پہنچا تو جنازے کے پیچھے پیچھے دور دور تک لوگوں کا ہجوم تھا ۔ بازار میں موجود لوگ بڑی حیرت کے ساتھ جنازے کے ہجوم کی جانب دیکھ رہے تھے۔ کئی افراد نے واپسی پر ہم سے پوچھا کہ یہ جنازہ کس کا تھا؟ جب میت پیپسی کولا فیکٹری کے قریب پہنچی تو مکہ کالونی سے جو لوگ جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ وہ میت کو کندھا دینے کے لیے پہلے سے موجود نظر آئے اور انہوں نے بھی میت کو کندھا دینا شروع کر دیا۔ گورومانگٹ روڈ پر خلاف معمول تمام ٹریفک جنازے کے احترام پر رک چکی تھی بلکہ لوگ اپنی گاڑیوں سے اتر کر میت کو کندھا دینے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ سب اﷲ کی خاص رحمت ہی تو تھی۔
تقریباً پانچ بجنے کو تھے‘ جنازے میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد کو دیکھ کر قبرستان کی مخصوص جنازگاہ چھوٹی دکھائی دے رہی تھی۔ ادھر پیر و مرشد ٗ شاہ صاحب اور دیگر ساتھی جنازگاہ میں منتظر تھے۔ بزرگوں کے مشورے سے جنازے کا رخ کھلے میدان کی طرف کر دیا تاکہ تمام لوگ جنازے کی نماز میں آسانی سے شرکت کر سکیں۔ پیرو مرشد اور باقی لوگ بھی جنازگاہ سے نکل کر کھلے میدان کی طرف آگئے۔ میں نے آگے بڑھ کرپیر و مرشد کا ہاتھ چوما اور انہیں ساتھ لے کر کھلے میدان کی طرف چل دیا جہاں پہلے ہی ٹینٹ زمین پر بچھے ہوئے تھے اور انہی پر صفیں بنانی شروع کر دیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ اﷲ رب العزت کی شان دیکھو اس نے اپنے بندے کے لیے پہلے ہی قالین بچھا دیا ہے۔ خاصی لمبی پانچ قطاریں بنائی گئیں۔ جنازہ میرے والد کے مرشد پاک حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب نے خود پڑھایا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے والد کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی تھی کیونکہ پیر و مرشد وہی ہوتا ہے جو رشد و ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے بلکہ پہنچاتا بھی ہے۔ خود حضرت صاحب کے بقول کہ جتنا سرور انہیں میرے والد صاحب کا جنازہ پڑھاتے ہوئے آیا ہے پہلے کبھی نہیں آیا۔ ماشاء اﷲ ہمارے پیر و مرشد بڑی بزرگ ہستی ہیں اور انسان کا ظاہر و باطن پڑھنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں کیونکہ بقول صوفی زبیر صاحب کے اگر کسی نے زندہ ولی دیکھنا ہو تو حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کو دیکھ لے جبھی تو وہ خود مرید کرنے کی بجائے آپ کے پاس لوگوں کو بھیجا کرتے تھے۔ جنازہ پڑھنے سے پہلے میں نے اپنے استاد گرامی حضرت سید گلزار الحسن شاہ صاحب سے نماز جنازہ کی دعا دہرائی تاکہ میں اپنے والد سے دھوکہ نہ کر سکوں۔ حقیقت میں مجھے نماز جنازہ کی دعا نہیں آتی تھی۔ ایک دن میں نے سوچا کہ کیا میں اپنے والدین میں سے کسی ایک کے فوت ہونے پر ان سے دھوکہ کروں گا۔ میں کیوں نہ نماز جنازہ کی دعا یاد کر لوں تاکہ خدانخواستہ جب بھی ایسا وقت آئے تو میں اپنے والدین کی نماز جنازہ بالکل صحیح اور درست ادا کروں۔ بچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے لے کر بڑھاپے کی دہلیز تک انہوں نے مجھے بے پناہ شفقت سے نوازا۔ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ میں انہیں دین اسلام کے طریقے سے وداع کروں اور مجھے ان لوگوں سے نفرت ہے جو لوگ صرف رونے پر زور دیتے ہیں اور دینی فرائض ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں بلکہ اس جانب توجہ ہی نہیں کرتے اور رخصت ہونے والے والدین کے ساتھ بھی دھوکہ کر جاتے ہیں۔ بہرکیف جو تھوڑی بہت دعا بھولتی تھی وہ میں نے جلدی جلدی یاد کر لی اور نماز جنازہ میں قل ہوا ﷲ کی بجائے اصل دعا ہی پڑھی۔
جب نماز جنازہ ہو گیا تو کندھا دے کر جنازہ اٹھا لیا گیااور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے میت کوقبرستان پہنچا دیا۔ لحد کو خاصا گہرا کر دیا گیا تھا۔ تمام لوگ قبر کے اردگرد جمع تھے۔ میں نے قاری صاحب کو آواز دے کر کہا کہ بتائیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے کیونکہ اس سے پہلے قبر میں میت اتارتے دیکھا ضرور تھا لیکن آج ہمیں خود اس سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ چنانچہ منیر بٹ اور قاری صاحب قبر میں اتر گئے اور سب نے میرے والد کی میت کو اٹھا کر لحد کی طرف کر دیا تاکہ انہیں آرام سے قبر میں منتقل کیا جا سکے۔ منیر بٹ اور قاری صاحب نے بہت احتیاط کے ساتھ میت کو لحد میں رکھا اور چہرے کی جانب سے کفن کو کھول دیا گیا جبکہ پاؤں کی جانب سے بھی گرہ کو کھول دیا گیا اور کمر والی گرہ کو ڈھیلا کر دیا گیا۔ والد صاحب کے چہرے کا رخ خانہ کعبہ کی جانب کر کے لحد کے اوپر سلیبیں لگانی شروع کر دیں۔ اسی اثنا میں حضرت صاحب ‘ منظور داد خاں ‘ اور ایک دو احباب نے مٹی کو پڑھ کر میت کے ساتھ رکھنے کے لیے کہا جب سیلبیں مکمل لگا دی گئیں جن کے درمیانی فاصلے کو مٹی کے گاڑے سے پُر کر دیا گیا تاکہ سوکھی مٹی لحد میں نہ گرنے پائے۔ پھر مٹی ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ موقع پر موجود تمام احباب نے اپنے اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالی اور آخرکار جب نماز مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں تو اس مٹی نے مکمل قبر کی شکل اختیار کر لی۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ جب میت کو دفنا دیا جاتا ہے تب قبر پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی ہے تاکہ مرنے والا اذان کی آواز سن کر (اگر وہ دنیا میں نماز پڑھتا ہوگا) نماز پڑھنے لگے تو قبر کا حساب کتاب فرشتہ نہ لے سکے گا بلکہ فرشتہ یہ کہہ کر واپس چلا جائے گا کہ یہ تو اﷲ کا نیک بندہ ہے جس نے دنیا میں جا کر بھی اپنے رب اور دین کو نہیں بھولایا۔ اس وقت پورا شہر اذان کی صداؤں سے گونج رہا تھا اور ہر انسان کو فلاح اور نماز کے لیے بلایا جا رہا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے والد بھی قبر میں اﷲ کی یاد میں مشغول ہوں گے اور فرشتے حساب لیے بغیر ہی واپس چلے گئے ہوں گے۔ اسے میں انتہائی خوش قسمتی کہوں گا کہ میرے والد جب سے پیر طریقت حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کے مرید ہوئے ۔ انہوں نے نماز انتہائی پابندی سے پڑھنی شروع کر دی تھی بلکہ حضرت صاحب کے حکم کے مطابق سوا لاکھ کلمہ طیبہ اور درود پاک پڑھ کے اپنی مغفرت کے لیے رکھا ہوا تھا۔ والد فرمایا کرتے تھے کہ لمبے سفر پر جانا مقصود ہو تو جیب خرچ بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے تاکہ راستے میں یا منزل پر پہنچ کر کچھ خرچ کرنے کی ضرورت درپیش ہو تو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے اور یقینا قبر اور آخرت کے روز نیک اعمال اور اﷲ کے ذکر نے ہی کام آنا ہے۔ دنیا کی دولت دنیا میں ہی رہ جائے گی۔ مزید وہ فرماتے تھے کہ جہاں جانے کا ہر کسی کو یقین ہے اس کی تیاری کوئی نہیں کرتا اور جہاں رہنا غیریقینی ہے وہاں رہنے اور آسائشیں حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا جاتا ہے۔ خدا والد کو غریق رحمت کرے اور ان کو اپنے نیک اعمالوں کی بدولت قبر میں اور آخرت میں عافیت بخشے۔
فوتگی کے ٹھیک دو دن بعد بروز جمعہ مجھے خواب میں والد صاحب نظر آئے۔ وہ میرے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھے ہوئے کسی اجنبی شہر میں (جو بعد میں پتہ چلا کہ بغداد شریف کا شہر تھا۔) کسی کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے اچانک ایک بہت ہی خوبصورت گنبد نظر آیا جس کے نیچے کسی بزرگ کا دربار بھی تھا اس مزار سے ملحقہ ایک بڑا سا چبوترہ تھا۔ اس پر میں اور والد صاحب بیٹھ کر دھوپ سینکنے میں مصروف تھے۔ دوران گفتگو والد صاحب نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تمہارا بڑا بھائی بیمار ہے؟ میں نے کہا ہاں مجھے علم ہے ۔ پھر والد صاحب نے فرمایا کہ اس کا علاج کراؤ۔ میں نے کہا کہ علاج کراوا رہا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ صرف علاج ہی نہیں اس کا صدقہ بھی دو۔ میں نے کہا ابا جی میں صدقہ بھی دے دوں گا۔ اتنے واقعے کے بعد میرے خواب کا سین بدل گیا لیکن میرے خواب کا یہ حصہ مجھے خوشی و مسرت میں مبتلا کر گیا کہ میرے والد ماشاء اﷲ اپنے پیر و مرشد کے حوالے سے اپنے جد امجد حضرت غوث پاک کے پاس پہنچ گئے ہیں اور وہاں وہ ہر قسم کے تفکرات‘ بیماری اور مشکل سے بے نیاز ہیں۔
میں نے دوسری صبح حضرت صاحب اور اپنے گھر والوں سے بھی اس خواب کا ذکر کیا اور سب نے اس خواب کو نیک شگون ہی قرار دیا۔
پھر چار دن بعد بروز اتوار کو خواب میں ایک واقعہ دیکھا کہ والد میرے مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے دھوپ سینک رہے ہیں جبکہ ان کے اردگرد سحرش اور ثاقب کے علاوہ اور بھی بہت سے بچے کھیل رہے ہیں اور تمام بچے اتنے خوش ہیں کہ انہیں رونے کی بھی حاجت نہیں۔
مورخہ 25جنوری بروز منگل کی رات میرے والد اپنے پیرو مرشد پیر طریقت حضرت مولانا محمد عنایت احمد صاحب کے خواب میں آئے جس کا ذکر خود حضرت صاحب نے مجھ سے اگلی صبح کیا۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خواب میں ایک بہت بڑی محفل میلاد مصطفی منعقد ہے۔ تمام لوگ نعت خوانی اور ذکر وفکر میں مشغول ہیں۔ میرے والد سب سے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور اسی ذکر فکر میں مشغول ہیں جب محفل ختم ہوئی وہاں پر موجود لوگوں نے حضرت صاحب کے گلے میں ہار ڈالے حضرت صاحب نے میرے والد کو قریب بلا کر یہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیئے ۔ وہ پہلے تو ہچکچائے پھر انہوں نے ہار گلے میں ڈلوا لیے۔ حضرت صاحب نے پوچھا کہ یہاں تمہارا کیا حال ہے؟ تو والد صاحب نے جواب دیا کہ خدا کا شکر ہے اور آپ کی دعاؤں کے طفیل میں یہاں پر عافیت سے ہوں۔اس خواب کا ذکر میں نے خود حضرت صاحب کی زبانی سنا اور میری آنکھوں میں والد صاحب کی محبت اور چاہت کے آنسو نکل آئے لیکن دل میں ایک تسلی تو موجود تھی کہ وہ وہاں بالکل خیریت سے ہیں اور پیر ومرشد کے طفیل حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نگاہ خاص میں ہیں۔ایک ہفتے میں ہی میرے والد‘ گھر کے کئی افراد کے خواب میں آ چکے تھے اور اس بات کو نیک شگون ہی قرار دیا جا سکتا تھاـ۔
نوٹ:یہ مضمون مارچ 1994 میں لکھا گیا تھالیکن آج بھی جب میں اس مضمون کو پڑھتا ہوں تو ایک بار پھر پرانی یادیں اور پرانے زخم تازہ ہوجاتے ہیں اور زندگی کے بے ثباتی پر یقین پہلے سے زیادہ ہونے لگتا ہے ۔اس مضمون میں جن عزیز و اقارب کا ذکر آیا ہے ان میں سے آدھے تواس دنیا سے جاچکے ہیں جبکہ ہم خودموت کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں ۔بے شک میرے رب نے سچ فرمایا ہے کہ زندگی اور موت کا یہ کھیل ابد سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔دنیا میں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے ۔خوش نصیب لوگ وہ ہیں جو موت کافرشتہ نظر آنے پہلے اپنی آخرت سنوار لیتے ہیں ۔اﷲ ہم سب کو نیکی کی توفیق دے ۔آمین

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.