جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی تعلیمی و تدریسی،
اصلاحی و انقلابی اور ہمہ گیر و ہمہ جہت خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں
ہیں۔ لیکن ضرورت تھی کہ جامعہ کے اساتذہ و فضلا کی خدمات کو تحریری شکل میں
پیش کیا جاتا، زیر نظر کتاب ’’علمائے بنوری ٹاؤن اور ان کی تصنیفی و تالیفی
خدمات‘‘ اس موضوع پر پہلی کوشش ہے، جسے بنوری ٹاؤن کے فاضل مولانا سیّد
محمد زین العابدین نے مرتب کیا ہے، اور المنہل پبلشرز، جمشید روڈ کراچی نے
اسے 790صفحات پر عمدہ طباعت و کتابت کے ساتھ شائع کیا ہے۔کتاب کاآغازجامعہ
بنوری ٹاؤن کے بانی مبانی محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے
تعارف سے ہوتا ہے،جس میں جامعہ بنوری ٹاؤن کی تاریخ اور یہاں تصنیفی شعبے
کے قیام کی ابتدائی روداد اور اس کے مقاصد و اہداف پر بھی روشنی ڈالی گئی
ہے۔علامہ بنوریؒ کی سولہ (16) کتب کا تعارف کرایا گیا ہے۔ ۔اس کے علاوہ
حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھیؒاوران کی چھے کتابوں،مفتی اعظم پاکستان حضرت
مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکیؒ اوران کی سات کتابوں،حضرت مولانا محمد
عبدالرشید نعمانی اور ان کی گیارہ کتابوں اور حضرت مولانا مفتی احمد
الرحمنؒ اور ان کی دو کتابوں مقالاتِ رحمانی اور نورِ نبوت کا تعارف کرایا
گیا ہے۔
شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کا ہے، ان کا تعارف بھی کافی
تفصیل سے قلم بند کیا گیا ہے، ان کی چونتیس کتب کا تعارف اور ان پر تبصرہ
اس کتاب میں آگیا ہے۔ ان کے علاوہ حضرت مولانا سید مصباح اﷲ شاہؒ اوران کی
کتاب ’’مصباح الطحاوی‘‘ ،حضرت مولانا عبدالقیوم چترالی ؒ اور ان کی’’ درسی
تقریر خاصیاتِ ابواب، فصول اکبری‘‘ کا تعارف بھی کرایا گیا ہے۔جامعہ بنوری
ٹاؤن کے مہتمم وشیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہ کی اٹھارہ
کتابوں پر تعارف و تبصرہ،حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اﷲ مختار شہیدؒ کی
بہتر(72) کتب کا تعارف،حضرت مولانا محمد طاسین اور ان کی دس کتب کا تعارف
کرایا گیا ہے، جن میں اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات، اسلامی اقتصاد کے
چند پوشیدہ گوشے اور متبادل سودی نظام کے دعوے قابلِ ذکر ہیں۔حضرت مولانا
محمد اسحق سندیلویؒ ،حضرت مولانا محمد امین اورکزئی،حضرت مولانا مفتی
عبدالسمیع شہید، امام المجاہدین حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزئی
شہید،حضرت مولانا مفتی محمدولی درویش اوران کی متعددکتب کا تعارف بھی کتاب
میں موجود ہے ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کی چھے قلمی کاوشوں کا تذکرہ اس کتاب
میں آگیا ہے، ساتھ ہی فاضل مؤلف نے ’’اقراء‘‘ کے منتظمین کو مشورہ دیا ہے
کہ وہ شہید ختم نبوت کے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں بکھرے ہزاروں
مضامین کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی ترتیب بنائیں۔ ہمارا وجدان کہتا ہے
کہ یہ سعادت بھی جواں ہمت مولانا سید محمد زین العابدین کے مقدر میں لکھی
جائے گی۔ ان شاء اﷲ! باقی تو جس طرف نظر دوڑائیے اندھیرا ہے!
مؤلف کو حضرت مولاناسعید احمد جلا ل پوریؒ سے دلی محبت ہے، وہ ان کی کئی
کتب مرتب بھی کرچکے ہیں، ان پر ملک بھر کے جرائد و اخبارات میں تبصرے بھی
شائع کراتے رہتے ہیں۔ شہیدؒ کی سولہ کتب میں متنوع تبصرے ان کے حسنِ انتخاب
کی واضح دلیل ہیں۔
حضرت مولانا ڈاکٹرمحمد عبدالحلیم چشتی اور ان کی کتب،مولانا مفتی عبدالسلام
چاٹگامی اور ان کی کتب ،حضرت مولانا محمد انور بدخشانی اور ان کی تیس عربی،
اردو، فارسی کتب،مولانافضل محمد یوسف زئی اور ان کی تیس(30)کتابوں کاتعارف
اس کتاب میں موجود ہے۔اس کے علاوہ جن حضرات کا تعارف اور ان کی تصنیفات
وتالیفات کا تذکرہ اور ان پر معاصرمبصرین کے تذکرے نقل کیے گئے ہیں،ان میں
حضرت مولانا مفتی رضاء الحق، حضرت مولانا مفتی عبدالرؤف غزنوی،مفتی صالح
محمدکاروڑی ؒ ،مولانا امداد اﷲ،مولانا عمران عیسیٰ ، مفتی شعیب عالم،مولانا
محمد شفیع چترالی،ولانا سید سلیمان بنوری، مولانا محمد اعجاز مصطفی ،
مولانا قاری زبیر احمد چترالی،مولانا محمد عمر انور بدخشانی،مولانا اکرام
اﷲ خان،مولانا قاری سلطان روم ،مولانا محمد زکریا کے ساتھ ساتھ جامعہ کے
نوجوان فضلا مولانا محمد شفیق الرحمن،مولانا محمد عمران ممتاز اور مولانا
محمد بلال ابراہیم بربری شامل ہیں۔
حضرت مولانا مفتی محمد انعام الحق قاسمی کے تعارف کے ساتھ ساتھ ُان کی مرتب
کردہ نو (9) انسائیکلوپیڈیاز (مسائلِ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج و عمرہ، وضو و
غسل، سفر، قربانی، میت، تراویح) کا بھی تعارف کرایا گیا ہے۔ آخر میں
’’جامعہ کے اساتذہ کی مشترکہ کاوشیں‘‘ کے عنوان سے نو (9) ان کتابوں کا
تعارف ہے جو جامعہ بنوری ٹاؤن سے تعلیم بالغان،تربیت وتذکیہ،اور عصری ودینی
اداروں کے طلبہ کے شارٹ کورسز کے لیے بطور ِنصاب لکھی گئیں۔
چالیس قدیم وجدید علمائے کرام کا تعارف، ان کی تین سو سے زائد کتب کا تعارف
اور ان پر مختلف اخبارات،رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے تبصروں کو جمع
کرنا کس قدر محنت طلب کام ہے،اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں،جن کو قلم
وقرطاس اور تصنیف وتالیف سے سابقہ پڑا ہو۔یہ مولانا سید محمد زین العابدین
ہی کا خاصہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسی کتاب مختصر عرصے میں ترتیب دی ہے،جو
اپنے موضوع پر حاوی ہے اور ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔’’المنہل
پبلشرز ‘‘نے رنگین ودیدہ زیب طباعت کا اہتمام کرکے ان کی محنت کو اور زیادہ
نکھاراہے،اس پر’’ المنہل‘‘ کے مالکان وعملے کی تحسین نہ کرنا ناانصافی وبے
مروتی ہوگی۔
اس کتاب کے تعارف کے توسط سے ہم دو پیغام بھی دیناچاہتے ہیں:ایک تو یہ کہ
دیگر جامعاتِ دینیہ کے اربابِ علم و قلم کو بھی اس طرز کی پیروی کرکے اپنے
علما، فضلا، بانیان اور متعلقین کی تحریری مساعی کی تاریخ محفوظ و مرتب
کرنی چاہیے ۔اوردوسرا یہ کہ: ناشرینِ کتب کوبھی ایسی کتب سے راہ نمائی حاصل
کرتے ہوئے مارکیٹ سے غائب یا نایاب کتب کا سراغ لگا کر ان کی ازسر ِنو
طباعت و اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
|