کچھ دن قبل سناکہ حکومت ملک بھرمیں پولیومہم شروع کررہی
ہے جس کی و جہ سے خوشی ہوئی کہ اب ہمارے بچے اس موذی مرض سے بچ جائیں گے
مگرحیران کن طورپرضلع مظفرگڑھ میں بھٹہ مزدورکی بچی جس کی عمر7ماہ ہے اسے
پولیو مرض ہوگیاہے ذرائع سے پتہ چلاہے کہ ان سات ماہ میں ایک بار بھی
پولیوڈراپس نہیں پلائے گئے جس وجہ سے اس بچی کوپولیوہوگیاحکومت جوپولیومہم
شروع کررہی ہے اس میں بچوں کومختلف بیماریوں سے بچاؤ ،قوت مدافعت کیلئے
وٹامن اے کے کیپسول بھی دیے جائیں گے دسمبر2019پولیومہم کی 50ہزارسے
زائدٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جس سے پنجاب بھرمیں 1کروڑ 99لاکھ سے
زائدبچوں کوپولیوسے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے یہ ویکسین نہ پلانے کی وجہ
سے مظفرگڑھ میں سات ماہ کی بچی کوپولیوکامرض لگاہے اورلکی مروت میں دوبچوں
کوپولیووائرس ہواہے جس سے رواں سال 111کیس سامنے آئے ہیں یہ آج کی بات نہیں
۔یادرہے مظفرگڑھ میں آخری کیس 2011میں سامنے آیاتھا۔جب تک ہم حکومت کاساتھ
نہیں دیں گے یہ مرض ہمیں کھوکھلاکردے گاآئے روز سننے کوملتا ہے کہ فلاں جگہ
پولیوٹیم کوتشددکانشانہ بنایاجارہاہے کئی جگہ توپولیوٹیم کے اہلکاروں کوقتل
کی کوشش توکسی جگہ چھریوں کے وارکرکے بھگایاجاتاہے۔آج تک لوگوں کوپولیوکے
بارے میں پتہ نہیں کہ یہ کیاآفت ہے جس کیلئے حکومت اتنازوردے رہی ہے
اوراتنی زیادہ رقم اس پرخرچ کیاجارہاہے صرف دوقطروں کی خاطر2لاکھ 62ہزارسے
زائدورکرزپولیو خلاف جنگ میں اپنااپنافرض اداکررہے ہیں اورحکومت کی طرف سے
نئے منصوبے کے مطابق 3کروڑ 80لاکھ بچوں کوپولیوسے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں
گے ۔ ہمیں پولیوکے متعلق جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آتے
ہیں پولیوکی تین اقسام ہیں جوانسانی جسم میں منہ کے ذریعے آنتوں میں
جاکراپنی تعدادبڑھاتے ہیں اورخون میں شامل ہوکرپٹھوں کوکنٹرول کرنے والے
اعصابی خلیوں میں پہنچ کراعصاب کے زیرکنٹرول پٹھوں کوبے کارکردیتے ہیں جس
کی وجہ سے انسان چل نہیں سکتامعذورہوجاتاہے ۔اس بیماری کوپولیومائل کہتے
ہیں جوایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتی ہے اوریہ کچھ اس طرح سے منتقل
ہوتی ہے کہ ایک شخص پاخانہ کرے اوراچھی طرح سے ہاتھ نہ دھوئے توپانی آلودہ
ہونے کے سبب یہ وائرس دوسرے لوگوں میں منتقل ہوجائے گاان تمام باتوں کاپتہ
نہ رکھنے والے لوگ اس کے خلاف اپنی طرف سے من گھڑت مفروضے قائم کرتے رہتے
ہیں اوراسکے ساتھ کچھ نہ سمجھ ان مفروضوں کوہوادیتے رہتے ہیں ۔آج تک اس
بیماری کاکوئی علاج ممکن نہیں ہے یہ زیادہ تر15سال سے کم عمرکے بچوں میں
پائی جاتی ہے مگریہ وائرس بچوں اوربڑوں میں یکساں طورپرداخل ہوسکتاہے
اورپھلنے پھولنے کیلئے ان کے جسم میں موجودرہتاہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق
1950دہائی میں امریکہ میں سالانہ 2000کیسز سامنے آتے تھے اوریہ وبااتنی
پھیلی کہ سالانہ 9800کیسزسالانہ بڑھ گئے جس پرکنٹرول پانے کیلئے امریکہ نے
1955میں پولیوسے بچاؤ کی پہلی ویکسین لاونچ کی جسے Jass Salik نے بنائی تھی
اوریہ انجیکشن کے ذریعے دی جاتی تھی اس کے استعمال کی وجہ سے 1955سے1957کے
دوران پولیو کیسز کی تعداد35000 سے گرکر5600رہ گئی ۔اس کے بعد1966میں
پولیوویکسن قطروں کے ذریعے پلائی جانے لگی اسکے بعد2000تک امریکہ میں
پولیووائرس کانشان تک نہ رہا۔حالانکہ 2000سے پہلے دنیاکے کئی ممالک میں
پولیووائرس پایاجاتاتھامگردوسرے ممالک نے اس پرکنٹرول کرکے اپنے ملک اس
وائرس سے پاک کرلیے 2011میں بھارت کوبھی پولیوفری قراردیاجس کے بعد2014میں
نائجیریامیں بھی پولیووائرس ختم ہوچکااب صرف پاکستان اورافغانستان میں
پولیووائرس باقی ہے میں اپنے قارائین کوبتاتاچلوں سال 2019کے پہلے پانچ
مہینوں کی بات کریں تو50کے قریب پولیوکیسز سامنے آئے ہیں ان کیسز کی
تعدادبڑھ رہی ہے اوراس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کے خلاف لوگ غلط افواہ
پھیلارہے ہیں جس کیلئے حکومت بہت زیادہ تیزی دیکھارہی ہے اوراس کے متعلق
آئے روز آگاہی بینرزاوراشتہارات دیکھنے کوملتے ہیں اگران افواہوں میں کمی
نہ آنے کے ذمہ دارپولیوورکرز کی غفلت کوکہیں توغلط نہ ہوگاگزشتہ سال
2018میں پاکستان میں 12پولیو کیسز سامنے آئے ۔اب تک پاکستان میں پولیوٹیم
کوپولیس اہلکارسیکورٹی دیتے تھے مگرکئی باران پرجان لیواحملہ ہونے کی وجہ
سے اب پاک فوج اس کام میں ملک کواس ناسورسے آزادکروانے کیلئے اپنے فرائض
انجام دے گی۔سینکڑوں والدین کواپنے بچوں کوپولیوکے قطرے نہ پلاکرصحت عامہ
کوخطرے میں ڈالنے کی بناپرگرفتاربھی کیاگیاہے۔یادرہے پانچ سال سے کم
عمربچوں کوسال میں تین سے چاربارپولیوسے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں ۔عالمی
ادارہ صحت نے پاکستان کوپولیوویکسینیشن لازمی قراردیاہے ۔پاکستان میں
پولیوکسیز کی تعدا2014میں 306سال 2015میں 52سال 2016میں 20سال 2017میں
صرف01تھی مگرکچھ ماہ کے بعد2018کی رپورٹ میں پولیوکیسز کی تعدادپھر30ہوگئی
اوراس کے ان کیسز کی تعدادبڑھتی گئی کیونکہ اس دوران لوگوں کے زہن میں
بٹھایاگیاکہ یہ ویکسین بناجانچ کے بچوں کوپلائی جارہی ہے اس کے کوئی ٹیسٹ
وغیرہ نہیں کیے جاتے جن کیوجہ سے ہم اپنے بچوں کوخود پولیوکاشکاربنارہے ہیں
اس کے بعدلوگوں نے بچوں کوپولیوسے بچاؤ کے قطرے پلاناتودورپولیوٹیم پرکئی
باروحشیانہ حملے کیے مگربین الااقوامی اداروں کے تمام ترتوجہ بچوں کوقطرے
پلانے کے بجائے اس بات کویقینی بنانے پرمرکوز کی کہ کوئی بچہ اس حفاطتی
قطروں سے رہ نہ جائے ۔اب اپنی قوم کوپولیودشمن سے بچانے کیلئے پاک فوج شانہ
بشانہ کھڑی ہے اوراس میں 2لاکھ 50ہزارصحت محافظون پرمشتمل پرعزم اورتربیت
یافتہ ٹیم افرادی قوت کے ساتھ جاری اس جنگ میں اہم کردارہے ۔صحت محافظوں
کوان کے ہی علاقے میں ڈیوٹی پرلگایاجاتاہے کیونکہ ہرکوئی جتنااپنے
گھرکوجانتاہے اتناغیرنہیں جان سکتا اب ہمیں اس موضی امراض سے چھٹکارالینا
ہوگاتب ہی ہماراملک پولیوفری ممالک میں شامل ہوسکے گا۔اب گردیکھاجائے
توہرسال سے پولیوکامرض بڑھ رہاہے جس کیلئے ہمیں اپنی نسلوں کوبچانے کیلئے
حکومت کاساتھ دیناہوگااورپولیوجیسی موضی مرض سے چھٹکاراحاصل کرناہوگا۔
|