معاف کرنا! مجھ سے پہچاننے میں ذرا غلطی ہو گئی

image


چہرے پہچاننے والی 'فیشل ریکوگنیشن' ٹیکنالوجی کا استعمال دنیا بھر میں اتنا عام ہو رہا ہے کہ اب یہ اسمارٹ فونز میں بھی عمومی طور پر شامل کی جانے لگی ہے۔ لیکن کیا یہ ٹیکنالوجی 100 فی صد قابلِ بھروسہ بھی ہے؟

ٹیکنالوجی کو پرکھنے اور اس پر تحقیق کرنے والے امریکہ کے سرکاری ادارے 'نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی (نِسٹ)' کی حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چہرے پہچاننے والی ٹیکنالوجی نے بہت سے غلط نتائج دیے ہیں جس کی وجہ سے اسے مکمل طور پر قابل بھروسہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق دورانِ تحقیق اس ٹیکنالوجی نے لوگوں کو پہچاننے میں کئی فاش غلطیاں کیں۔ بالخصوص غیر سفید فام افراد کو پہچاننے میں زیادہ غلطیاں سامنے آئیں۔

تحقیق کے دوران معلوم ہوا ہے کہ ایشیائی اور افریقی امریکیوں کو پہچاننے میں اس ٹیکنالوجی نے سفید فام امریکیوں کی پہچان کی نسبت 100 گنا زیادہ غلطیاں کیں۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا جب فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی نے جنس بھی غلط پہچانی۔

نِسٹ کی تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کسی شخص کی غلط پہچان کے علاوہ اس ٹیکنالوجی میں یہ خامی بھی ہے کہ یہ کئی مرتبہ ڈیٹا بیس میں موجود شخص کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتی ہے۔
 

image


ٹیکنالوجی کو پرکھنے اور اس پر تحقیق کرنے والے امریکہ کے سرکاری ادارے 'نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی (نِسٹ)' کی حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چہرے پہچاننے والی ٹیکنالوجی نے بہت سے غلط نتائج دیے ہیں جس کی وجہ سے اسے مکمل طور پر قابل بھروسہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق دورانِ تحقیق اس ٹیکنالوجی نے لوگوں کو پہچاننے میں کئی فاش غلطیاں کیں۔ بالخصوص غیر سفید فام افراد کو پہچاننے میں زیادہ غلطیاں سامنے آئیں۔

تحقیق کے دوران معلوم ہوا ہے کہ ایشیائی اور افریقی امریکیوں کو پہچاننے میں اس ٹیکنالوجی نے سفید فام امریکیوں کی پہچان کی نسبت 100 گنا زیادہ غلطیاں کیں۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا جب فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی نے جنس بھی غلط پہچانی۔

نِسٹ کی تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کسی شخص کی غلط پہچان کے علاوہ اس ٹیکنالوجی میں یہ خامی بھی ہے کہ یہ کئی مرتبہ ڈیٹا بیس میں موجود شخص کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتی ہے۔

اس ریسرچ کی سربراہی کرنے والے سائنسدان پیٹرک گروتھر نے کہا ہے کہ پہچاننے سے انکار والا معاملہ تو پھر بھی حل ہو سکتا ہے۔ مثلاً آپ کا اسمارٹ فون کسی وجہ سے آپ کا چہرہ نہیں پہچان رہا تو دوسری یا تیسری کوشش میں پہچان سکتا ہے۔

لیکن کسی شخص کو دوسرے شخص سے ملا دینے کا معاملہ توجہ طلب ہے اور مزید جانچ پڑتال کا متقاضی ہے۔

یہ تحقیق ایسے وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ایئرپورٹس، سرحدوں، بینکوں، کاروباری مراکز، اسکولوں اور اسمارٹ فونز میں بھی یہ ٹیکنالوجی عام استعمال ہو رہی ہے۔

تاہم تحقیق کے بعد اب جہاں اس کے قابل بھروسہ ہونے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ وہیں آرٹیفیشل انٹیلجی جنس یا مصنوعی ذہانت سے متعلق بھی کئی خدشات جنم لے رہے ہیں۔

بعض سماجی کارکنان اور محققین یہ تنقید بھی کر رہے ہیں کہ فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی میں غلطی کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا یہ کسی بے گناہ کو جیل بھجوانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

ذرا سوچیے آپ کے موبائل فون کا لاک اگر اس ٹیکنالوجی کی غلطی سے کوئی غیر متعلقہ شخص اپنا چہرہ دکھا کر کھول لے تو فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی یہ کہہ کر معذرت بھی نہیں کر سکتی کہ معاف کرنا! مجھ سے پہچاننے میں ذرا غلطی ہو گئی۔


Partner Content: VOA
YOU MAY ALSO LIKE: