جب اے پی ایس کے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی

5 سال قبل بزدل دہشتگردوں نے معصوم بچوں کے خون سے ایسی ہولی کھیلی کہ پوری دنیا کے دل چھلنی ہو گئے۔اس سانحے میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں سمیت 144 افراد شہید ہو گئے۔ معصوم جنت کے پھولوں کی یاد میں ملک بھر میں ہر سال باقاعدگی سے سرکاری و نجی سطح پر یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اس اندوہناک سانحے نے پورے پاکستان کو آہوں اور سسکیوں میں ڈبو دیا تھا اور سکیورٹی فورسز کی کاروائی میں ساتوں دہشتگرد مارے گئے اور حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی تھی۔واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 ء7 دہشت گرد ایف سی کے لباس میں ملبوس ہو کر اسکول کے پچھلی طرف سے داخل ہوئے اور اسکول کے مرکزی ہال میں ابتدائی طبّی امداد کی تربیت لیتے نویں اور دسویں جماعت کے طالب علموں پر فائر کھول دیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کی پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا اور 21 ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جن کے ذریعے دہشتگردوں کو پھانسیاں دی گئیں۔جب بھی دسمبر آتا ہے ہمیں دل گرفتہ و غمزدہ کردیتا ہے۔سقوط ڈھاکہ کانام آتے ہی بھرے ہوئے زخم تازہ ہوجاتے ہیں تو سانحہ آرمی پبلک سکول کی یاد دل کو رلا دیتی ہے ۔آرمی پبلک اسکول پشاور میں چلنے والی گولیوں سے اٹھارہ کروڑ عوام کا سینہ چھلنی کرنے کا دن، لہو سے فتح کے چراغ روشن کرنے کا دن، بزدل دشمن کو نیست و نابود کرنے کا دن، وہ دن جو 144 خاندانوں پر ہمیشہ کیلئے قیامت برپا کرگیا۔دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے اور گولیوں سے پھولولوں جیسے بچوں کو چھلنی کرتے گئے۔پاک فوج کے جوان مستقبل کے ان معماروں کی جان بچانے کے لیے پہنچے تو بزدل اور سفاک دہشت گردوں نے ان بچوں کو ڈھال بنا لیا۔خودکش جیکٹس اور جدید اسلحہ سے لیس حملہ ٓاوروں نے قوم کے ان نونہالوں کے ، خون سے سکول کو نہلادیا۔گولیوں کی تڑاہٹ اور دھماکوں سے ہرطرف ان معصوموں کی لاشیں بکھر گئیں تھیں ۔ تاریخ اس اندوہناک واقعے پر ہمیشہ ماتم کرتی رہے گی۔ دسمبر 1971ء وہ دن تھا۔ جب بھارت کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی بے وفائی سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک پاکستان دو لخت ہو گیا۔ ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے بھارت کی قید میں طویل مدت گزاری۔45برس گزر گئے۔ مگر آج بھی اس دن کی تکلیف اور اذیت روز اول کی طرح تڑپا دیتی ہے۔سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین ہوا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔فلک ناز کے دو بیٹے نور اﷲ درانی اور سیف اﷲ درانی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔دونوں بھائیوں کو ماں نے نازوں سے پالا ماں گھر سے باہر جاتی تو گھر کو تالہ لگا کر بچوں کو اندر چھوڑ جاتی تو انہیں گرم ہوا تک لگنے نہیں دی مگر جب فرشتہ اجل پہنچا تو ایک ساتھ دونوں کو ماں کی آغوش سے چھین لیا۔نور اﷲ نے آرمی پبلک سکول کو چھوڑ کر او لیول میں داخلہ لیا مگر جب او لیول میں اس کے دوست شاہ فہد کو داخلہ نہیں ملا تو اسی سکول واپس آگئے سانحہ اے پی ایس میں وہ اپنے دوست شاہ فہد اور بھائی سیف اﷲ کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے نور اﷲ اور سیف اﷲ کی بہنیں ڈاکٹر بن کر اپنے بھائیوں کے نام پر ہسپتال بنانے کی متمنی ہے ْگھر میں پڑی سیف اﷲ کی پتنگ اور نور اﷲ کا سکول بیگ دیکھ دیکھ کر والدین کے آنسو نہیں تھمتے ۔ فلک ناز کی تین بیٹیاں ابھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ فلک ناز کہتی ہیں کہ انہوں نے اب اپنی تمام توجہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر مرکوز رکھی ہے، اس واقعے کے بعد میرے شوہر گہرے صدمے سے نہیں نکل سکے ہیں اور اب وہ بس گھر پر ہی رہتے ہیں۔ ماں کا دکھ زیادہ ہوتا ہے لیکن میں نے ماں کے ساتھ جڑی پرانی باتوں کی بجائے اپنی توجہ اپنی بیٹیوں اور گھر کا ماحول اچھا رکھنے پر مرکوز کی ہوئی ہے۔شاہانہ اجون اپنے بیٹے اسفندیار کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کا بستر دیکھتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ہر وقت ان کی آنکھیں دروازے پر لگی ہوتی ہیں کہ ابھی اسفند گھر میں داخل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی جانتی ہیں کہ ان کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ گل شہزاد خٹک ایک ریٹائرڈ استاد ہیں۔ ان کی جوان بیٹی سعدیہ گل آرمی پبلک سکول میں انگریزی کی استانی تھیں جو حملہ آوروں کا نشانہ بنی تھیں۔گل شہزاد خٹک کے مطابق آج بھی میں اپنی بیٹی کو آواز دیتا ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اس کی آواز آئے گی جی ابو جی لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔اسی طرح واقعے میں زخمی ہونے والا ایک اور 16 سالہ بچہ شاہ رخ خان جو موت کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیاتھا۔ شاہ رخ نے بتایا: ’’میں اپنے دوستوں کے ساتھ اسکول کے آڈیٹوریم میں کیریئر کونسلنگ سیشن میں موجود تھا کہ اچانک 4 مسلح افراد پیرا ملٹری یونیفارم پہنے اندر داخل ہوئے اور اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے فائرنگ شروع کردی۔ ایک دہشت گرد چلایا کہ دیکھو ڈیسک کے نیچے بہت سے بچے چھپے ہوئے ہیں ان کو نکالو اور مارو۔ اس کے بعد بچوں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں اور میں سمجھ گیا کہ دہشت گردوں نے بچوں کو مارنا شروع کردیا ہے۔ دہشت گردوں نے میری ٹانگ میں 2 گولیاں ماریں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ موت میرے سامنے کھڑی ہے۔ میں نے فوری فیصلہ کیا کہ مرنے کی اداکاری کرتا ہوں اس طرح شاید بچ جاؤں۔ میں نے اپنی ٹائی کھولی اور اپنے منہ پر باندھ لی تاکہ میرے کراہنے کی آواز نہ نکل سکے۔ شاہ رخ خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس دوران میں نے دیکھا کہ دہشت گرد شہید ہوجانے والے بچوں کی موت کا یقین کرنے کے لیے ان کے جسموں میں گولیاں ماررہے تھے۔ ایک دہشت گرد کو میں نے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تو میں نے آنکھیں بند کرلیں جب کہ میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ موت میرے سر پر پہنچ چکی ہے۔ خوش قسمتی سے وہ دہشت گرد کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور ہال سے باہر چلا گیا جب کہ میں کچھ دیر اسی حالت میں زمین پر لیٹا رہا۔ چند لمحوں بعد میں نے اٹھنے کی کوشش لیکن شدید زخمی ہونے کی وجہ سے زمین پر گرگیا اور بے ہوش ہوگیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں موجود تھا۔طالب علم ملک حسن طاہر بھی آڈیٹوریم میں موجود تھے وہ خود تو بچ گئے لیکن ان کے بھائی اسامہ دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے تھے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم اکھٹے بیٹھتے ہیں تو اس دن کا منظر سامنے آجاتا ہے ہم پرانی باتیں کرتے ہیں توکچھ دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہیں لیکن پھر وہی کہ زندگی نے تو آگے بڑھنا ہے ۔یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے ملک حسن طاہر کی آواز گلو گیر ہو جاتی ہے۔
 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 96485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.