جھوٹ زبان کی بدترین گناہوں میں سے ایک دینی ومعاشرتی
برائی ، لامتناہی خرابیوں کاسبب ، نقاق کا جزء اور ایمان کے فقدان کا سبب
ہے اسکےانسان اورمعاشرےپر بےشمار نقصانات کی وجہ سےشریعت اسلامیہ نے کبیرہ
گناہوں کےذمرےمیں رکھاہے۔ اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے اس سےمتعلق چند
وضاحتیں ضروری ہیں :
جھوٹ کو عربی میں کذب کہاجاتاہے جو صدق کی ضد ہے ، جس کی تعریف ہے :" الكذب
: هو مخالفة الكلام للواقع" "یعنی حقیقت کے خلاف کلام کرنےکو جھوٹ
کہاجاتاہے" ۔
جھوٹ بولنے کے چند اسباب ہیں جیسے : انسان عادۃً جھوٹ بولتاہے ، یا پھرطمع
ولالچ کے سبب یا پھربغض وحسد اور عداوت (دشمنی) کی وجہ سے جھوٹ بولتا ہے ۔
جھوٹ کی بنیادی طورپر دو اقسام ہیں : قولی اور عملی ۔ اور ان کی ذیلی تین
قسمیں ہیں : اللہ اور رسول پرجھوٹ ۔ جس کی سب سے قبیج صورت ہے ان چیزوں کو
حلال قراردینا جنہیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حرام
قرار دیا ہے اور ان چیزوں کوحرام قراردینا جنہیں اللہ اور اسکے رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال قرار دیا ہے، اللہ تعالی فرماتاہے : " وَمَنْ
أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِه)(اس
شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پرجھوٹ باندھے یا اس کی آیات کوجھٹلائے)
نیزفرمایا:(وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ
وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ) (قیامت کےروزان لوگو ں کوجنہوں نے اللہ پرجھوٹ
باندھا دیکھوگے کہ ان چہرہ کالا پڑجائےگا ) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : من كذب عليَّ متعمدًا فليتبوَّأ مقعده من النار"
(متفق عليه ) "جس نے میرے اوپرجھوٹ باندھا وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے
"
اور دوسری قسم ہے : عام لوگو ں سےان کی عزت ودولت سے متعلق جھوٹ بولنا جس
کے چندواضح مظاہرمیں سےکچھ یہ ہیں :
پہلا : شہادۃ الزور یعنی جھوٹی گواہی ۔ جھوٹ کی اس قسم کو اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے ساتھ شرک اور والدین کی نافرمانی کے ساتھ
ذکرکرتے ہوئے اکبرالکبائر قراردیاہے ۔(اس روایت کو امام بخاری اور امام
مسلم نے اپنی صحیح کے اندرذکرکیاہے)۔
دوسرا : جھوٹی گواہی پرقسم کھانا : یہ جھوٹ شہادۃ الزور کی قسم میں سے ہے ،
اس کےاندرجھوٹا اپنی جھوٹ کے ساتھ جھوٹی قسم ملاتاہے ، چنانچہ یہ پہلے والے
سے سخت جرم اور زیادہ گناہ والاہے ۔بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "قیامت کے دن ایسا شخص اللہ سے اس
حال میں ملےگا کہ وہ اس پہ غضناہک ہوگا" ۔
تیسرا : خریدوفروخت میں جھوٹ بولنا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : «اليمين الكاذبة مُنفقة للسلعة مُمحقة للكسب"(متفق عليه) "
یعنی قسم کھانے سے سامانِ تجارت کا تو فروغ ہوتا ہے، لیکن قسم سے برکت اٹھا
لی جاتی ہے"۔ ابو ذر رضی الله عنہ رسول اکرم صلى الله عليہ وسلم سے روايت
كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا : "تین شخص ایسے ہیں، جن سے قیامت کے دن اللہ
تعالی نہ بات کرےگا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھےگا، اور نہ انہیں
گناہوں سے پاک کرےگا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے, ٹخنوں سے نیچے اپنا
تہبند گھسیٹ کر چلنے والا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامانِ
تجارت کو فروغ دینے والا۔) اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت
کیاہے )۔
چوتھا : مذا ق وسخریہ کے مقصد سے جھوٹ بولنا : یہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے
ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ويل للذي يُحدِّث
فيكذب ليُضحك به القوم،ويلٌ له ويلٌ له" "تباہی ہے اس آدمی کے لئے جولوگوں
کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتاہے ، تباہی ہے اس کے لئے ، تباہی ہے اس کے لئے
" ( اسے احمد ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیاہے اور امام ابن باز رحمہ اللہ
نےاسےجید قراردیاہے )۔
پانچواں : لوگوں کے درمیان بگاڑ وفساد پیداکرنے کے لئے جھوٹ بولنا ۔
جھوٹ کی تیسری قسم ہے : عام لوگوں سے ان چیزوں میں جھوٹ بولنا جو ان کی عزت
ودولت سے متعلق نہ ہو ، جھوٹ کی یہ قسم گرچہ پہلے والے سے اخف ہے لیکن
نہایت ہی مذموم ہے ، جیسے آدمی اپنی بڑائی جتانے کے لئے ایسی چیزکا دعوی
کرے جو اس کے اندرنہیں ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا :" " مَنِ ادَّعَى مَالَيْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّاوَلْيَتَبَوَّأْ
مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"(رواه ابن ماجة والبيهقي وصححه الشيخ
الألباني)"جس کسی نے ایسی چیزکا دعوی کیا جو اس کا نہیں ہے وہ ہم میں سے
نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے " ۔
اسی طرح جھوٹے خواب بیان کرنےوالے کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : "جس نے ایساخواب بیان کیا جو اس نے نہیں دیکھاتو
اسےقیامت کے روز دو جو کے درمیان گانٹھ لگانے کے لئے کہاجائے گا جب کہ وہ
اسے ہرگز انجام نہیں دے سکتا"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے ) ۔:
جھوٹے شخص پر فرشتوں کی لعنت
رسولِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: « اِنَّ الْمُوٴْمِنَ
اِذَاکَذِبَ بِغَیْرِ عُذْرٍ لَعَنَہ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ وَخَرَجَ
مِنْ قِلْبِہ نَتِنُ حتّٰی یَبْلُغَ الْعَرْش وَکَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ
بِتْلِکَ الْکِذْبَةِسَبْعِیْنَ زِنْیَةً اَھْوَنُھَا کَمَنْ زَنیٰ؛ مومن
جب بغیر کسی عذر کے جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستّر ہزار فرشتے لعنت بھیجتے
ہیں اور اس کے دِل سے ایسی سخت بدبو اٹھتی ہے جو عرش تک پہنچتی ہے اور اس
ایک جھوٹ کے سبب خدا اس کے لئے ستّر مرتبہ زنا کرنے کے برابر کا گناہ لکھ
دیتا ہے اور وہ بھی ایسے زنا جن میں سے معمولی ترین زنا، ماں کے ساتھ (نعوذ
بالله)ہو»
حسین بن محمد تقی نوری، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسہ آل
البیت(علیہم السلام)، قم،ج۹، ص۸۶، ۱۴۰۸۔۔
جھوٹ شراب سے بدتر
امام محمد باقر(علیہ السلام) کا ارشاد ہے: «اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ لِشَرِّ
اَقْفَالاً وَجَعَلَ مَفَاتِیْحِ تِلک َالاَقْفَال الشَرَابُ، وَالْکِذْبُ
شَرُّ مِّنَ الشَّرابِ؛ بیشک خدا نے تمام برائیوں کے کچھ نہ کچھ تالے بنائے
ہیں اور ان تالوں کی چابی شراب ہے اور جھوٹ شراب سے بدتر ہے»
محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ،
ج۶۹، ص۲۳۷، ۱۴۰۳ق.۔
جھوٹ بولنے والا سب سے بڑا گنہگار
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: «مِنْ اَعْظَمِ
الْخَطَیَا اَللَّسَّانُ الْکذُوْبُ؛ سب سے بڑا گنہگار جھوٹا شخص ہے»۔
گذشتہ حوالہ، ج۷۴، ص۱۳۳۔
جھوٹ ہلاکت کا سبب
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں : « اِجْتَنِبُوا لْکِذْبُ
وَاِنْ رَأَیْتُمْ فِیْہِ النَّجَاةَ فَاِنَّ فِیْہِ الْھَلَکَةَ؛ جھوٹ سے
پرہیز کرو، اگرچہ تمھیں اس میں نجات نظر آرہی ہو، در حقیقت اس میں ہلاکت
ہوتی ہے»۔
مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج۲، ص۱۲۱۔
جھوٹے شخص سے دوستی نہ کرنا
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: « یَنبَغیْ لِلرَّجُلِ الْمُسْلِمِ اَنْ
یَّجْتَنِبَ مُوٴَاخَاةَ الْکَذَّابِ اِنَّہ یُکَدَّبُ حَتَّی یَجِیْ َ بِا
لصِّدْقِ فَلَا یُصَدَّقُ؛ ہر مسلمان آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت جھوٹے آدمی
کے ساتھ دوستی اور برادری کا رشتہ نہ باندھے اس لئے کے جھوٹے سے دوستی کرنے
والے شخص کو بھی جھوٹا سمجھا جائے گا اگرچہ وہ سچ بات بھی کہیگا تو سچ نہیں
مانا جائے گا»۔
محمد ابن یعقوب کلینی، الکافی، دارالکتاب الاسلامیہ، تھران، ج۲، ص۳۴۱،
۱۴۰۷۔
جھوٹے شخص سے بچو
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: « لَا یَحَجِدُ عَبْدُ طَعْمَ
الْاِیْمَانِ حَتَّی یَتْرُکَ الْکِذْبُ جِدَّہ وَھَزْلَہ؛ کوئی بندہ اس
وقت تک ایمان کا ذائقہ چکھ نہیں سکتا جب تک وہ جھوٹ سے پرہیز نہ کرے، خواہ
وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں ہو »۔
محمد ابن یعقوب کلینی، الکافی، دارالکتاب الاسلامیہ، تھران ، ج۲ ،ص۵۸۔
نتیجہ:
رسولِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت ابوذر سے وصیت کرتے ہوئے
فرمایا: "اے ابوذر جو شخص کسی جگہ لوگوں کو ہنسانے کے لئے ایک جھوٹی بات
کہے گا تو وہی جھوٹی بات اس کو جہنّم کی طرف لے جائے گی، اے ابوذر! وائے ہو
اس پر جو بات کرتا ہو تو جھوٹ بولتا ہو تاکہ لوگوں کو ہنسا سکے وائے ہو اس
پر وائے ہواس پر! اے ابوذر! جو خاموش رہا نجات پا گیا۔ پس جھوٹ بولنے کی
بنسبت خاموشی تمھارا فریضہ ہے اور تمھارے منہ سے کبھی بھی ایک چھوٹا سا
جھوٹ بھی نہیں نکلنا چاہیئے۔
حضرت ابوذر کہتے ہیں: یا رسول الله! جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والے شخص کی
توبہ کس طرح ہوگی؟
حضرت نے فرمایا: استغفار اور پانچوں وقت باقاعدہ نماز کے ذریعہ اس کی توبہ
قبول ہوجائیگی۔ بحار الانوار، ج۷۴، ص۸۹۔
خدا ہم سب کو اس گناہ سے محفوظ رکھے۔
|