والدین

میری میز پر سجے گلدان میں سورج مکھی کے چند پھول، جو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔۔ یوں لگتا ہئ کہ جیسے باہر برسنے والی برسات کا نظارہ کر رہے ہوں اور برسات کی ساری ٹھنڈک اپنے اندر اتار لینا چاہتے ہوں۔۔ نزدیک ہی ایک دیا رکھا ہے جس کی لو کو ہوائیں بجھانا چاہتی بھی تو نا بجھا پاتیں ، وہ ایک قندیل میں بند جو ہے۔۔۔ اس قندیل میں اس کی روشنی اور بھی چمک اٹھی ہے جس نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔۔پورا کمرہ اس کی روشنی سے جگمگا رہا ہے۔۔۔یہ ننھا دیا قید ہونے کے باوجود کس قدر روشن ہے ،بالکل اس قیدی کی طرح جو اپنی قید کے لمحات میں جی اٹھتے ہیں اور یہ ننھا دیا بھی اسی طرح پوری آب و تاب سے جی اٹھا ہے۔۔ مانو! جیسے اس قید میں اسے وہ سرور میسر آگیا ہے جس سے پہلے یہ ناآشنا تھا ۔۔۔یہ قیدِ محبت ۔۔۔جس کا سرور اس دیے پر واضح کر چکا ہے کہ یہ قید نہیں میرا حفاظتی قلعہ ہے ،جس نے اسکو بے رحم ہواؤں سے بچا لیا ہے۔۔ دیے کے پاس ہی رکھی چند کتابیں اس منظر کو خوب سے خوب تر بنا رہی ہیں۔۔قریب ہی ایک قلم دوات میں رکھا ہوا ہے اور ایک کاغذ ہے جس پر الفاظ بکھرے ہوئے ہیں، اس ننھے دیے کی روشنی کی طرح ۔۔سوچتی ہوں زندگی میں کچھ محبتیں بھی اسی قندیل کی مانند ہوتی ہیں جس کا احساس ہمارے چاروں طرف ایک حفاظتی بند کی مانند ہوتے ہیں، ماں باپ ہی تو وہ حفاظتی بند ہیں اور ان کی محبت اس قندیل کی مانند ہیں جس کے سائے میں اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے، خاص طور پر بیٹیاں۔۔۔ اللہ تبارک و تعالی اور اسکے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد والدین کی محبت ہی ہمیں نکھار دیتی ہے۔۔۔۔ اور انکی محبت میں اطاعت نہ کرنے والوں کی زندگی ایک بھانپ بن کر رہ جاتی ہے ، جیسے اس وقت میری چائے سے اڑتی ہوئی یہ بھانپ ۔۔۔ بس چند لمحوں کے لیے ظاہر ہوکر ختم ہوجانے والی۔۔۔
✍ رابعہ فاطمہ
 

Aalima Rabia Fatima
About the Author: Aalima Rabia Fatima Read More Articles by Aalima Rabia Fatima: 48 Articles with 86667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.