طارق مسعود (مرحوم) کی زبانی تاریخی واقعات قسط نمبر1

میں21مارچ1938کو جموں شہرمیں پیدا ہوا۔ڈوگرہ حکومت میں بکرمی سال چلتا تھا۔9 چیٹھ دو ہزار کچھ تھا،اس کو عیسوی سال میں تبدیل کرنے کا ایک فارمولہ موجود ہے،جب ہم وہاں سے پاکستان گجرات آئے تو وہاں میں سکول داخل ہونے گیا تو یہاں کسی کو بکرمی سال کا پتہ نہیں تھا،ہمارے ایک رشتہ دار نے اس کا حساب لگا کر میری تاریخ پیدائش 21مارچ کر دی جبکہ میرے مطابق یہ تاریخ 22مارچ تھی۔ میرے والد ڈاکٹر رحمت اللہ ، جموں و کشمیر کی ڈوگرہ حکومت میں میڈیکل آفیسر تھے۔ جب میں پیدا ہوا تو ان کی جموں میں ہی پوسٹنگ تھی۔ میرے ہوش میں جو پوسٹنگ رہی ہیں ان کی اس میں وہ پہلگام رہے، راجوری رہے،کشتواڑ رہے،آخر کار اودھم پور ڈسٹرکٹ میں رہے۔

ڈوگرہ دور میں ٹریولنگ ڈسپنسری ہوتی تھی۔مہاراجہ نے عوام کے لئے یہ اچھی سہولت فراہم کی تھی۔اتنے ڈاکٹر تھے نہیں کہ ہر جگہ ڈاکٹر مہیا ہو سکیں ۔ ٹریولنگ ڈسپنسری کا ایک پورا سیٹ اپ تھا ایک جموں صوبے میں اور ایک کشمیر صوبے میں ۔ وہ پہلے اپنا پروگرام دیتے تھے اور پھر اس کے مطابق سفر کرتے ۔ تحصیلدار،سرکاری اہلکاران کو ان کے آنے کی پوری معلومات ہوتی تھی کہ ڈاکٹر نے کس سٹیشن میں دس دن رہنا ہے،آگے کس مقام پر پندرہ دن رہنا ہے۔ نمبر دار ، چوکیدار کے ذریعے لوگوں کو اطلاع ہوتی تھی کہ وہ کب اور کہاں ڈاکٹر کے پاس جا سکتے ہیں۔ یہاں آزاد کشمیر میں ، بھیڑی ، تائو بٹ کی طرح کے دور افتادہ علاقوں میں اب بھی لوگوں کے باقاعدہ علاج کے لئے یہ طریقہ کار رائج ہو سکتا ہے۔اگر باقی جگہوں پر ڈاکٹر ہیں لیکن سپیشلسٹ،لیڈر ڈاکٹرز مہیا نہیں ہیں، لیڈی ڈاکٹر ،سپیشلسٹ ایسے علاقوں میں دو دو دن کے لئے دورہ کر یں۔علاقے کی خواتین،لوگوں کو ان کے آنے کی اطلاع ہو۔

میرے والد صاحب کی آخری پوسٹنگ اودھم پور ڈسٹرکٹ میں ٹریولنگ ڈسپنسری میں تھی،یہ جون ،جولائی1947کی بات ہے،اس وقت میرے والد کو ہائیر ڈگری،ڈپلومہ ان پبلک ہیلتھ(ڈی پی ایچ) کے لئے حکومت کی طرف سے کلکتہ بھیجا گیا۔اس وقت ہمیں چھٹیاں تھیں ،ہم اس وقت پہلگام میں تھے،ہم پہلگام رہ رہے تھے اور والد صاحب کلکتہ چلے گئے۔ان کا کورس مکمل نہیں ہوا ،کلکتہ میں سب سے پہلے فسادات شروع ہوئے،ہندومسلم فسادات ہوئے، کلکتہ خالی ہو گیا،جو باہر کے افراد کلکتہ تھے ،وہ واپس اپنے علاقوں میں چلے گئے۔والد صاحب واپس آئے تو ان کو پوسٹنگ نہیں ملی۔انہیں کہا گیا کہ جگہ خالی ہونے کی وجہ سے ابھی پوسٹنگ نہیں مل سکتی،تم تین مہینے کے لئے چھٹی لے لو۔والد صاحب نے پہلگام میں ایک جگہ لی اور پھر ہم وہاں رہے۔ 14اگست1947کو ہم پہلگام میں تھے۔ہم سے مراد میں اور میرا بڑا بھائی پروفیسر خالد محمود( نیشن اخبار کے ایڈیٹر ہیں،مسلم اخبار میں بھی انہوں نے کام کیا ہے)،ہم دونوں وہاں والد صاحب کے ساتھ تھے۔

14اگت1947ء کو ہم نے، اس وقت میری عمر نو،ساڑھے نو سال تھی،میرا بھائی ڈھائی سال مجھ سے بڑا تھا۔ہم نے کپڑا اکٹھا کر کے،کانے وغیرہ لیکر جھنڈے تیار کئے تھے،کہ 14اگست کو پاکستان کا جھنڈا لہرائیں گے،جو ہم نے لہرایا۔پہلگام ٹورسٹ علاقہ تھا،وہاں مستقل رہنے والے دور دور رہتے تھے،پہلگام میں ایک بازار ہی تھا،ہمارا واحد ایک گھر تھا جس گھر پہ پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔شام کر ہم باہر نکلے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ پہلگام کے پوسٹ آفس پہ پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا ہے۔ہم بہت حیران ہوئے کہ یہ پوسٹ آفس پہ کیسے لگ گیا۔بعد میں معلوم ہوا کہ کسی سرکاری اہلکار نے پوسٹ آفس پر پاکستان کے جھنڈا لگانے سے متعلق استفسار کیا تو پوسٹ ماسٹر نے جواب دیا کہ مہاراجہ کشمیر کا حکومت پاکستان اور انڈین حکومت سے جو سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ہوا ہے،اس میں پوسٹل سروس کی ذمہ داری پاکستان کی ہے۔پوسٹ ماسٹر نے کہا کہ یہ میں نے نہیں بلکہ یہ فیصلہ اعلی سطح پر ہوا ہے،لہذا یہ ان کی نگرانی میں ہے تو میں نے جھنڈا لگا دیا۔دراصل وہ پوسٹ ماسٹر پاکستانی دماغ کا تھا ،اس نے بہانہ یہ کیا،کشمیری بہانہ بنانے میں بہت زبردست ہے،اس کی دلیل کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کے مطابق یہ پاکستان کی ذمہ داری تھی ۔

اب ہم واپس جموں آتے ہیں۔1947میں، اس وقت کے سینسس(مردم شماری) کے مطابق جموں شہر کی کل آبادی پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی،جموں شہر کی اس پچاس ہزار آبادی میں مسلمانوں کی تعدادبیس فیصد سے زیادہ نہیں تھی( یعنی دس ہزار)،اسی فیصد ہندو،سکھ تھے،ارد گرد کو علاقہ ،جسے'' ڈگر'' کہتے ہیں،تین ڈسٹرکٹ ہندو اکثریت کے تھے،اودھمپور،کٹھوعہ اور جموں۔جموں کے مسلمان بہت سہمے ہوئے تھے،ساتھ ادھر یہ بھی تھا کہ راولپنڈی ،گجرات سے پارٹیشن کے نتیجے کے طور پر بہت سارے ریفیوجی گئے ہوئے تھے،اور ان ریفیوجیز کے ساتھ یہاں بھی تو کوئی نیک سلوک تو نہیں ہوا تھا،چناچہ انہوں نے وہاں جا کر اپنی داستانیں سنا کرجذبات کو مزید ابھارا، صورتحال نہایت کشیدہ تھی۔

ہماری فیملی نے سوچا کہ کیا کرنا ہے،گجرات جانے کافیصلہ ہوا ،گجرات پہلے سے ہمارے کچھ رشتہ دار رہتے تھے۔میرے والد اور والدہ فرسٹ کزن تھے،چچا زاد اور تایا زاد،اور جموں کے ہی رہنے والے تھے۔میرے دادا جموں میں دفن نہیں تھے،وہ پرہیز گار قسم کے آدمی تھے،ان کو مہاراجہ کی حکومت کی کئی چیزیں پسند نہیں تھیں،مثلا وہاں رواج تھا کہ مہاراجہ کی حکومت کا کوئی بندہ مر گیا ہے تو اس کے نزدیکی افراد کے سر کے بال مونڈھ دیئے جاتے تھے۔یہ رواج تھا اس وقت اور مسلمانوں پر بھی لاگو تھا،مسجد کے سامنے ڈھول ،باجے بجانے پر کوئی پابندی نہ تھی،تو ان باتوں سے وہ نالاں تھے،وہ کہتے تھے کہ یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں، ان کی بیوی گجرات کی رہنے والی تھی،وہ چالیس سال کی عمر میں گجرات چلے گئے اور وہیں قیام پذیر ہوئے،انہوں نے زیادہ کوئی کام نہیں کیا زیادہ نماز ،مسجد میں وقت مشغول رہے،وہیں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔ان کا چھاٹا بھائی ،میرے نانا جموں میں تھے،میرے دادا کا والد بھی جموں میں تھا۔جب دادا گجرات گئے تو ان کے والد اس وقت زندہ تھے۔

اپنی ذات کے بارے میں سوال پر طارق مسعود نے کہا کہ اگر مجھ سے پوچھیں تو کوئی کاسٹ نہیں ،یہ فضول بات ہے،لیکن کیونکہ اکثر یہ بات پوچھی جاتی ہے ،میرے نانا کہا کرتے تھے کہ ہم'' سندر راجپوت'' ہیں،ہیں نہیں ہیں ،میں اس بات کو قطعی کوئی اہمیت نہیں دیتا،اس لئے کیونکہ کاسٹ سسٹم کی اہمیت دیہی علاقوں میں ہے،جہاں پرزمینوں کے معاملات ہوتے ہیںکہ اس گائوں میں اعوان کتنے ہیں،گوجر کتنے ہیں،شہروں میں کوئی نہیں پوچھتا،ہم شہری لوگوں میں اس کی کبھی کوئی اہمیت رہی نہیں۔میرے چچا چودھری فضل الحق کسٹم سروس میں تھے،پولیس،ریوینیو اور کسٹم تینوں اعلی سروسز سمجھی جاتی تھیں،بڑی دبنگ سروسز،وہ ریاست اور پنجاب کے باڈر علاقے کا دورہ کرتے تھے،ایک مرتبہ انہوں نے نارووال ڈسٹرکٹ اور ادھر سے کٹھوعہ ڈسٹرکٹ، انہوں نے بتایا کہ دورے کے موقع پر ایک رات پڑائو تھا،ہم سوئے ہوئے تھے،علاقے کے معززین موجود تھے،حقہ چل رہا تھا،ذاتوں کی بات چھڑ گئی،انہوں نے کہا کہ میری ذات سندر راجپوت ہے،تو وہاں کے مقامی کھڑبینچ جو تھے،انہوں نے کہا کہ ڈپٹی صاحب یہ سندر راجپوت نہیں ہوتے،سندر تو برہمن ہوتے ہیں۔انہوں نے گھر آ کر یہ بات بتائی،میرے تایا ،جو فیملی کے ہیڈ تھے ،نے کہا کہ برہمن وغیرہ کچھ نہیں ،ہمیں اپنے بزرگوں نے یہی بتایا تھا کہ ہم سندر راجپوت ہیں۔

باقی اس کی کبھی ضرور ت نہیں پڑی ،ایک مرتبہ ضرورت پڑی تھی ،جب نوکری میں آئے تو وہاں ایک کالم تھا ،وہ کالم فل کرنا تھا تو لکھ دیا،میرا نہیں خیال کہ آج کل کوئی کالم ہے یا نہیں ہے،ہے یا نہیں ہے یہ ایک بیوقوفی کی چیز ہے اور ہر ایک کو اس کی حوصلہ شکنی کرنا چاہئے۔جو کشمیری ہیں ان میں کوئی کاسٹ سسٹم نہیں ہے،اس سینس میں نہیں ہے جو یہاں ہے،وہاں اور طرح کا ہے،کشمیر صوبہ جو ہے وہ society more elegeterian ہے،برابری ہے،چھوٹے بڑے میں برابری ہے،اکٹھے بیٹھتے ہیں ،اکٹھے کھاتے ہیں،ہمارے ہاں میر پور اور بھمبر میں جاٹ اور راجپوت کے درمیان بہت فرق،فاصلہ ہے،راجے جٹوں کو بندہ ہی نہیں سمجھتے تھے،پھر اس طرح ہوا کہ جٹ چلے گئے انگلینڈ،تو بن گئے کروڑ ُپتی،راجوں کے پاس پیسے نہیں تھے ،انہوں نے اپنی زمینیں بیچیں،جاٹوں نے خریدیں ،اپنی کوٹھیاں بنائیں،اس وقت راجوں کو ہوش آئی کہ ہماری زمینیں بھی گئیں اور مکان بھی گئے،آہستہ آہستہ یہ بات ختم ہو رہی ہے۔ (جاری)
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612605 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More