سات دہائیوں سے جاری بی بی سی اُردو سروس کو بند کرنے کا فیصلہ۔

گذشتہ دنوں بی بی سی کےمعروف سابقہ براڈکاسٹر جناب رضاعلی عابدی صاحب کا ایک تازہ شائع ہونے والا کالم پڑھ رہا تھا جو کراچی کے حوالے سے لکھا گیا تھا ۔ کالم کی آخری سطر میں انہوں نے لکھا تھا کہ " خوبیوں کو بچانا بعض حالات میں مشکل ہوتا ہے ، تبدیلیوں کو قبول کرنا کبھی کبھی مجبوری بن جاتی ہے" ۔ جب کالم کی آخری سطور پڑھ رہا تھا تو ایک دکھ اور مایوسی تھی میرے زہن میں وہ بہت سی رسم و رواج ، کھیل کود، تقریبات غرض بہت سی باتیں گردش کرنے لگیں کہ ہم نے کیا کیا کھودیا اور کیا کیا کھونے کو تیار کھڑے ہیں ۔ سچ ہی لکھا عابدی صاحب نے خوبیوں کو بچانا بعض حالات میں مشکل ہوتا ہے ۔

گزشتہ دنوں بی بی سی کےمعروف سابقہ براڈکاسٹر جناب رضاعلی عابدی صاحب کا ایک تازہ شائع ہونے والا کالم پڑھ رہا تھا جو کراچی کے حوالے سے لکھا گیا تھا ۔ کالم کی آخری سطر میں انہوں نے لکھا تھا کہ " خوبیوں کو بچانا بعض حالات میں مشکل ہوتا ہے ، تبدیلیوں کو قبول کرنا کبھی کبھی مجبوری بن جاتی ہے" ۔ جب کالم کی آخری سطور پڑھ رہا تھا تو ایک دکھ اور مایوسی تھی میرے زہن میں وہ بہت سی رسم و رواج ، کھیل کود، تقریبات غرض بہت سی باتیں گردش کرنے لگیں کہ ہم نے کیا کیا کھودیا اور کیا کیا کھونے کو تیار کھڑے ہیں ۔ سچ ہی لکھا عابدی صاحب نے خوبیوں کو بچانا بعض حالات میں مشکل ہوتا ہے ۔ ہم تو مشاعروں میں واہ واہ ، کیا کہنے ، بہت خوب ، اچھا کہا ، مکرر جیسے الفاظ بھی نہ بچاسکے جس کی جگہ اب مشاعرے میں تالیاں بجائی جاتی ہیں اور ونس مور ، ونس مور کہا جاتا ہے ۔

تمام ہی قارئین جانتے ہیں کہ عابدی صاحب بی بی سی کے حوالے سے کئی نسلوں میں مقبول رہے ہیں ، عجب اتفاق ہے کہ رضا علی عابدی صاحب کا کالم پڑھ کر ابھی فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک ایسی خبر ملی جو بی بی سی سے ہی متعلق تھی کہ بی بی سی نے اکتیس دسمبر سے ریڈیو فریکوئنسی پر اپنی اردو نشریات کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔ ہم جیسے ریڈیو سامعین جو گذشتہ کئی دہائیوں سے ریڈیو سن رہے ہیں ان کے لیئے یہ خبر انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ ایسا ہی ایک اعلان ریڈیو ڈوئیچے ویلے کولون دی وائس آف جرمنی سے اردو سروس بند کرنے کا ہوا تھا جس کے بعد سامعین میں اس قدر مایوسی پھیلی تھی کہ سینکڑوں سامعین نے ریڈیو سننے کے مشغلے کو ہی ترک کردیا۔ دس سال بعد بھی سامعین اس نشریات کو بھلا نہیں سکے ابھی وائس آف جرمنی اردو سروس بند ہونے کا زخم ہرا ہی تھا کہ صدائے روس کی جانب سے اردو نشریات بند کرنے کا اعلان کردیا گیا اور اب ایک اس ادارے نے اپنی اردو نشریات کو بند کرنے کا اعلان کردیا جس کے سامعین کی تعداد تمام نشریاتی اداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ایک تو نشریات بند ہونے کا دکھ پھر یہ کہ آخر ایسا زیادہ تر اردو زبان کی نشریات کے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے ۔

ماضی میں جن نشریاتی اداروں کی جانب سے اردو زبان میں نشریات بند کی گئیں انہوں نے اس قدم اٹھائے جانے کا جو جواز بتایا قریب ایسا ہی جواز اس وقت بی بی سی کی جانب سے اردو سروس کو ختم کرنے کا بتایا جارہا ہے ۔جو ریڈیو کے سننے والے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جواز درست نہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اردو سروس سننے والے سامعین کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لیئے ایسے اقدامات ضروری ہیں ۔نہ ہی جدید ٹیکنالوجی سے انکار ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے سے انکار ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جدید ٹیکنالوجی تمام سامعین کی دسترس میں نہیں ہے ۔ نشریات بذریعہ ریڈیو سننے والے سامعین کی آج بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو بہت شوق سے اپنے ریڈیو سیٹ پر پروگرام سماعت کرتےہیں ۔ وہ ریڈیو سامعین جو کئی دہائیوں سے مختلف نشریاتی اداروں کی نشریات سن رہے ہیں جنہوں نے نشریاتی کے دنیا کے عروج و زوال کو بہت قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ شارٹ ویو اور میڈیم ویو کی نشریات کی کیا اہمیت اور افادیت ہے ، ریڈیو سامعین تین درجوں میں دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں جن میں پہلے درجے میں وہ سامعین ہیں جو نہ صرف کئی مقامی اور بین الاقوامی نشریات سنتے ہیں بلکہ ان پروگراموں پر اداروں کو بھرپور تبصرے اور اپنی آرا بھی ارسال کرتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ نشریات موصول ہونے کی کیفیت سے بھی آگاہ کرتے ہیں جسے ریسیپشن رپورٹ کہا جاتا ہے اور اس ریسیپشن رپورٹ کئی نشریاتی ادارے تصدیق کرتے ہوئے سامعین کو کیو ایس ایل کارڈ جاری کرتے ہیں ۔ دوسرے درجے میں وہ ریڈیو سامعین آتے ہیں جو نشریات تو باقاعدگی سے سنتے ہیں لیکن اس حوالے سے کبھی نشریاتی اداروں سے رابطے نہیں کرتے انہیں ریڈیو سننے والے خاموش سامعین بھی کہا جاتا ہے اور ان میں بہت بڑی تعداد ناخواندہ سامعین کی ہوتی ہے ، ریڈیو سامعین کے تیسرے درجے میں وہ سامعین ہیں جو باعث مصروفیت ریڈیو پر پروگرام نہیں سنتے اور ہفتہ میں ایک بار انٹرنیٹ یا موبائیل ایپ پر ریڈیو نشریات سنتے ہیں۔ پہلے اور دوسرے درجے کے مقابلے میں تیسرے درجے میں سامعین کی تعداد نہ صرف دونوں درجوں کے مقابلے میں کم ہیں بلکہ ان میں نئے سامعین بھی آتے جاتے رہتے ہیں ۔

بہرحال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح کتب بینی کا شوق رکھنے والے لوگ جب تک دستی کتابیں نہ پڑھیں ان کو تسلی نہیں ہوتی ہزاروں کتابیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں لیکن جو مزہ دستی کتاب پڑھنے اور اسے سرہانے رکھنے کا مزہ ہے وہ کسی بھی دوسرے ذریعہ سے پڑھنے میں نہیں ، بالکل ایسا ہی کچھ ریڈیو سننے والوں کے ساتھ بھی ہے جب تک وہ ہلکے شور اور ریڈیو پر اپنے پسند کی نشریات کو تلاش کرکے نہ سن لیں ان کی تشنگی باقی رہتی ہے ۔ ادارے اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ اردو زبان سب سے زیادہ ہندوستان اور پاکستان میں سنی جاتی ہیں اور وہ یہاں کی شرح خواندگی سے بھی واقف ہیں ۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ریڈیو سامعین کے سینکڑوں کلب اور تنظیمیں قائم ہیں جو لوگوں میں ریڈیو سننے کے شوق کو اجاگر کرتے ہیں ۔

یہاں ایک امر اور قابل افسوس ہے کہ اب بہت سے ریڈیو نشریاتی اداروں نے انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیلیویژن طرز کی نشریات شروع کردی ہیں یوں کہہ لیں لائسنس حاصل کیا جاتا ہے ریڈیو پر نشریات کا اور نشریات پیش کی جاتی ہیں ٹیلیویژن پر۔ اس حوالے سے کوئی بھی قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے اس رجحان میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔اس حوالے سے ریڈیو سامعین کی جانب سے بارہا درخواست بھی سامنے آئی ہے کہ خدارا ریڈیو کو ریڈیو رہنے دیں اسے ٹیلیویژن میں تبدیل نہ کریں ۔


موجودہ حالات میں فریکوئنسی پر نشریات کی قدر و قیمت مقبوضہ کشمیر کے باسیوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے جہاں طویل ترین کرفیو اور اخبار ات ، ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ کی بندش ہے وہاں ان لوگوں کے لیئے دنیا کے حالات سے آگاہ رہنے کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی ہے اور اسی بات کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوہے بی بی سی اردو سروس کی جانب سے کشمیریوں کے لیئے خصوصی نشریات کا آغاز نیم روز پروگرام کے نام سے کیا تھا جس سے نہ صرف کشمیری دنیا کے حالات سے باخبر تھے بلکہ انہیں اسی نشریات کے ذریعے دوسرے علاقوں میں رہنے والے اپنے پیاروں کے احوال سے بھی آگاہی مل رہی تھی ۔ قدرتی حادثات اور جنگی حالات میں بھی ریڈیو بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

یاد رہے کہ پاکستان میں اکثر زیر سمندر انٹرنیٹ کیبل میں خرابی کی وجہ سے پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل ہوجاتی ہے اور کبھی کبھار اس کے بحال ہونے کا وقت بھی طویل ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورت میں آپ نہ انٹرنیٹ پر اور نہ ہی موبائیل ایپ پر ریڈیو سن سکتے ہیں اس صورتحال میں ریڈیو سننے کا واحد ذریعہ فریکوئنسی ریڈیو ہی ہوتا ہے۔اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں ریڈیو سننے والے سامعین کی نمائندہ تنظیم انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز آرگنائزیشن پاکستان نے عوام کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے گھروں میں ایک ریڈیو سیٹ لازمی رکھیں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال میں وہ باخبر رہیں ۔

برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ( بی بی سی ) کی اردو سروس سات دہائیوں سے نشر ہورہی ہے پاکستان میں اس سے انسیت دہائیوں پر محیط ہے اس بھلانا انتہائی تکلیف دہ اور مشکل کام ہوگا۔ بی بی سی کے دہائیوں سے مقبول پروگرام سیربین کئی نسلوں کا پسندیدہ نشریہ رہا ہے ۔ سیربین کی سگنیچر ٹیون آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے ۔ بی بی سی کی نشرگاہ میں بیٹھے میزبانوں کی آواز آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہے۔ ریڈیو سننے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو ان میزبانوں کو اپنے اساتذہ کا درجہ دیتے ہیں کیوں کہ وہ ایک استاد کی مانند نشرگاہ میں بیٹھ کر اپنے سننے والے شاگردوں کی تربیت کرتے تھے بے شمار لوگوں نے انہیں سن کر بولنا سیکھا کہ اردو بولی کس طرح جاتی ہے ۔ بی بی سی کی اردو نشریات جن دنوں صبح میں نشر ہوا کرتی تھیں تو دن کا آغاز ہی اس سے ہوتا تھا رات کو سیربین اور شب نامہ کا شدت سے انتظار رہتا تھا ۔ بچے اپنے سدھو بھائی اور عابدی صاحب کی گیت اور کہانیوں کے منتظر رہتے تھے ۔ پھر یوں ہوا کہ صبح کی نشریات بند کردی گئیں اس کے بعد نشریات کا دورانیہ کم کردیا گیا اور کچھ عرصہ پہلے سیربین کا دورانیہ مزید کم کردیا گیا اور اب یکسر اردو سروس کو ختم کرنے کا اعلان نے ریڈیو سامعین کو مایوس کردیا ۔

 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167570 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More