امی سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے

حامد سے شادی کے بعد لیلیٰ جب اپنے نئے گھر میں آئی تو یہاں اس کے ساس سسر کے علاوہ اس کا ایک دیور بھی تھا- اس کا نام ساجد تھا- وہ نیا نیا یونیورسٹی سے ڈگری لے کر نکلا تھا اور اب کسی جاب کی تلاش میں تھا- لیلیٰ کے سسر ریٹائر ہو کر گھر میں بیٹھ گئے تھے- اس کا شوہر حامد کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک اچھی پوسٹ پر تھا- یہ سب ہی بہت محبّت کرنے والے اور اچھے لوگ تھے-

لیلیٰ کے آجانے سے گھر میں کافی رونق آگئی تھی- اس کے ساس سسر تو بہت ہی خوش تھے- رات کو کھانے کے بعد وہ سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کافی یا چائے پیتے اور خوش گپیوں میں مصروف رہتے- یہ کمپنی لیلیٰ کو بہت اچھی لگتی تھی-

اس کا شوہر حامد اس سے بہت محبّت کرتا تھا- لیلیٰ ایک سمجھدار اور اچھی لڑکی تھی- اچھی بیویوں کی طرح وہ بھی اس بات پر خوش ہوتی تھی اور الله کا شکر ادا کرتی تھی کہ اس کا شوہر اس سے بے حد محبّت کرتا ہے- اس خوشی کا اظہار وہ اپنے اچھے اور بے لوث رویے سے کرتی تھی-

شادی سے پہلے لیلیٰ اپنے کام سے کام رکھنے والی ایک سیدھی سادھی لڑکی تھی- اس کی ساری توجہ اپنی پڑھائی کی طرف تھی- وہ جرنلزم میں ایم اے کر رہی تھی- شادی سے پہلے اس کا کسی سے کوئی افیئر نہیں تھا- اچھی شکل و صورت کی وجہ سے بہت سے لڑکے اس کی طرف متوجہ بھی ہوۓ، خاندان میں بھی اور کالج اور یونیورسٹی میں بھی، مگر اپنی پختہ سوچ کی وجہ سے وہ اسی فارمولے پر سختی سے کاربند رہی کہ محبّت ہر حال میں شادی کے بعد ہی کرنا چاہیے- شادی سے پہلے کی محبتیں بسا اوقات بہت بڑے بڑے ذہنی اور معاشرتی مسائل کھڑے کردیتی ہیں- یہ مسائل بہت گھمبیر اور تکلیف دہ ہوتے ہیں اور زندگی بھر چین نہیں لینے دیتے- شادی سے پہلے کی محبّت اگر واقعی خلوص بھری ہو تو کوئی بات بھی ہے- مگر اس زمانے میں ایسی محبتیں خال خال ہی نظر آتی ہیں-

اتفاق کی بات کہ ادھر لیلیٰ اس گھر میں آئی اور اس کے چند روز بعد ہی اس کے دیور ساجد کا کسی پرائیویٹ کمپنی سے ایک بہت اچھی پوسٹ کے لیے اپائنٹمنٹ لیٹر بھی آگیا- لیلیٰ کی ساس بہت خوش ہوئی اور اس نے بیٹے کی نوکری کو بہو کے آنے کی خوش بختی سے موسوم کردیا-

لیلیٰ نے محسوس کیا کہ ساجد کا شمار ان روایتی دیوروں میں ہوتا ہے جنہیں بھابی میں ماں کی مامتا اور بہن کی محبّت نظر آتی ہے- وہ اپنی بھابیوں کو اپنا حمایتی گردانتے ہیں اور ان سے اپنے دل کا حال بیان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے- ساجد اس سے کتابوں کی اور نئے اور پرانے ویڈیو گیمز کے بارے میں باتیں کرتا- یہ اس کے شوق کی چیزیں تھی، وہ بڑی دلچسپی سے ان کو سنا کرتی تھی-اس ٰ کا اپنا کوئی بھائی نہیں تھا- وہ ساجد سے چھوٹے بھائیوں جیسی اپنایت محسوس کرنے لگی تھی اور بڑی بہنوں کی طرح اس کی ذرا ذرا سی چیزوں کاخیال رکھتی تھی-

ساجد ایک بہت اچھا لڑکا تھا- اس موجودہ ماحول میں بھی اسے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا- چھٹی والے دن وہ ڈرائنگ روم میں ٹی وی پر ویڈیو گیم لگا کر بیٹھ جاتا- اس روز حامد کو ٹی وی دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ وہ تو ساجد گھیر کر بیٹھا ہوتا تھا-

ساجد کی نوکری لگے ایک سال ہوگیا تھا- لیلیٰ کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ ساجد بہت خوش رہنے لگا ہے- ایک روز وہ اس کے پاس آیا تو اس کے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے- لیلیٰ سمجھ گئی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے- اس کے بولنے سے پہلے ہی مسکرا کر بولی- "ساجد- ماشا الله تمہاری تعلیم بھی مکمل ہوگئی ہے - نوکری بھی لگ گئی ہے- اب تو گھر بھی بس جانا چاہیے"-

ساجد لمحہ بھر کو تو حیران رہ گیا کہ اس کے دل کی بات لیلیٰ نے کیسے بھانپ لی – پھر اس نے کہا- "بھابی- میرے دوست کی ایک بہن ہے- لائبہ- میں نے اسے دیکھا تو بہت دفعہ ہے مگر اس سے بات چیت کبھی نہیں ہوئی- میں چاہتا ہوں میری اس سے شادی ہوجائے- وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے"- ساجد نے یہ بات کچھ ایسی سادگی سے کہی تھی کہ لیلیٰ کو بنسی آگئی-

لیلیٰ نے ساجد کی یہ بات اپنی ساس کو بتائی- پھر ایک روز وہ لوگ لڑکی دیکھنے ان کے گھر پہنچ گئے- لڑکی کا بڑا بھائی ساجد کا کالج کے زمانے کا دوست تھا اور ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا- لیلیٰ اور اس کی ساس نے لائبہ کو دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کردیا اور پھر رشتے کی بات کی- لائبہ کی ماں اس رشتے پر خوش تھی مگر اس نے انھیں یہ بتایا کہ ان کی بیٹی شادی سے ہچکچا رہی ہے کیونکہ وہ مزید آگے پڑھنا چاہتی ہے-

اس کی ماں کی بات سن کر لیلیٰ نے کہا کہ لائبہ کو سمجھا دیجیے گا کہ وہ شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہے- پھر وہ لوگ اگلے ہفتے دوبارہ آنے کا کہہ کر چلے آئے-

لڑکی کی یہ بات کہ پڑھائی کے لیے شادی کو ملتوی کردیا جائے لائبہ کے باپ اور بھائی کو پسند نہیں آئی- اچھے رشتوں کا تو ویسے ہی کال پڑا ہوا ہے- انہوں نے تھوڑا زور دیا تو لائبہ نے ہتھیار ڈال دیے- پھر ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ لائبہ ساجد سے شادی کر کے اس گھر میں آگئی-

وہ نہایت خوب صورت تھی- اس کی عادتیں بھی بہت اچھی تھیں- لیلیٰ کو بھی اس کی معصوم سی شکل بہت پسند آئی تھی- وہ اس کا بہت خیال رکھتی- اس کے اچھے سلوک اور محبّت کی وجہ سے لائبہ بھی اس کے نزدیک آگئی تھی- وہ دونوں گھر کا ہر کام اکٹھے ہی کرتی تھیں اور اپنی ساس کو کسی کام میں ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھیں- لائبہ گھر کے تمام کاموں میں بڑی خوش دلی سے لیلیٰ کا ہاتھ بٹاتی تھی- لیلیٰ نے محسوس کیا تھا کہ لائبہ سے شادی کر کے ساجد بہت خوش تھا-

مگر لیلیٰ کو یہ بات بہت عجیب سی لگی تھی کہ دوسری نئی نویلی دلہنوں کی طرح لائبہ اپنے میکے جانے کا نام نہیں لیتی تھی- ساجد اس سے کہتا بھی تھا کہ اس کی امی کے گھر کا چکر لگا آئیں، مگر وہ کوئی بہانہ کرکے ٹال دیتی تھی- شادی کو تقریباً تین ماہ ہوگئے تھے مگر اس عرصے میں وہ پانچ چھ مرتبہ ہی ماں کے گھر گئی تھی- اکثرو بیشتر اس کے گھر والے خود ہی اس سے ملنے کے لیے آجاتے تھے- وہ وقت بے وقت اپنے گھر والوں کو فون بھی نہیں کرتی تھی- وہاں سے کسی کا فون آجاتا تو سن ضرور لیتی تھی مگر تفصیلی بات نہیں کرتی تھی- لیلیٰ کے ذہن میں یہ خیال آتا تھا کہ شائد شادی کی وجہ سے پڑھائی چْھٹ جانے کی وجہ سے وہ گھر والوں سے ناراض ہے-

دوپہر کو کھانے کے بعد وہ لائبہ کے ساتھ اپنے کمرے میں آجاتی- دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتیں پھر کچھ دیر کے لیے کمر سیدھی کرنے کے بہانے جھپکی بھی لے لیتیں-

ایک ایسی ہی دوپہر جب وہ ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھیں، لائبہ نے اچانک اس سے پوچھ لیا- "آپی- ماشااللہ- حامد بھائی آپ سے بہت پیار کرتے ہیں- کیا ان سے آپ کی محبّت کی شادی تھی؟"

اس کے اس سوال میں ایک عجیب سا تاثر تھا جسے لیلیٰ نے محسوس کرلیا تھا- وہ اس کے سوال پر ہنس پڑی اور بولی- "نہیں- ایسی تو کوئی بات نہیں تھی- حامد ہمارے دور کے رشتے دار تھے مگر شادی سے پہلے میری ان سے صرف ایک دو مرتبہ ہی بات ہوئی ہوگی- میری تو پڑھائی اور گھر کی مصروفیات اتنی تھیں کہ کسی دوسری طرف دھیان ہی نہیں جاتا تھا- اب جس طرح کا ماحول چل رہا ہے، میرا تو اپنا یہ خیال ہے لڑکیوں کا محبّت وغیرہ کے چکروں میں پڑنا ایک انتہائی بے وقوفی اور خود کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے"-

"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں- ہر لڑکی کو ان بکھیڑوں سے دور ہی رہنا چاہیے"- لائبہ نے دوسری طرف دیکھتے ہوۓ کہا-

"ہاں- بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت خود غرض ، چالاک اور بے رحم ہوگئی ہے- بھیڑ کی کھال اوڑھے جگہ جگہ بھیڑیے پھر رہے ہیں- یہ ایک ساتھ کئی کئی لڑکیوں سے دوستی کر لیتے ہیں- انہوں نے اس چیز کو اپنی ہابی بنا لیا ہے- ان لوگوں کا منشا صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکیوں سے دوستی کریں، اپنا وقت پاس کریں اور اپنے دوستوں پر رعب جمائیں کہ وہ ایسے گلفام ہیں کہ اتنی بہت سی لڑکیاں ان پر مرتی ہیں- دوستی اور محبّت میں زمین آسمان جتنا فرق ہے- انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی وجہ سے لڑکے لڑکیوں کی دوستی کا فیشن تیزی سے پھیل گیا ہے- بدقسمتی سے لڑکیوں کی اکثریت حد سے زیادہ سیدھی اور بیوقوف ہوتی ہے- وہ ان دھوکے بازوں کی چالاکیاں سمجھ ہی نہیں سکتی- اب رہی محبّت کی بات تو ایک سنجیدہ اور مخلص لڑکا اگر کسی لڑکی سے محبّت کرتا ہے تو پھر وہ زندگی بھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا - چاہے اس کی راہ میں کتنی ہی دشواریاں اور مشکلات آئیں- ایسا لڑکا ایک بہترین پلانر ہوتا ہے- وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ ایک خاندان کا بوجھ اٹھا سکے- پھر یہ کوشش کرتا ہے کہ ہر حال میں اسی لڑکی سے شادی ہو جس سے اس نے محبّت کی ہے- اگر اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے تو پھر وہ نہ تو اپنے گھر والوں کی پرواہ کرتا ہے اور نہ لڑکی کے گھر والوں کی- وہ نہ تو کسی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی کسی سے خوف کھاتا ہے- آخر اس لڑکی کو عزت سے پانے کے لیے وہ اپنی فہم اور ڈپلومیسی سے حالات سازگار بنا ہی لیتا ہے- شادی بیاہ میں لڑکی کی صرف رضا مندی شامل ہوتی ہے، اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی- باقی سارے کام لڑکے کو ہی کرنا پڑتے ہیں- یہ کام آسان نہیں ہوتے- ان کو کرنے کے لیے بہت زیادہ ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف ذمہ دار، مخلص اور باہمت لوگ ہی یہ کام کر سکتے ہیں- بزدل لوگ تو ان کو انجام دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے- آج کل جو نظر آرہا ہے اور جو سنائی دے رہا ہے، وہ تو محض وقت گزاری کا مشغلہ ہے- اکثر لڑکے کسی لڑکی کے ساتھ سال دو سال وقت گزارتے ہیں اور پھر کوئی بہانہ بنا کر یا کسی خود ساختہ شکایت کا سہارا لے کر لڑکی پر ہی اس کا الزام رکھ کر اس دوستی کو خیرآباد کہہ دیتے ہیں- جو سچی محبّت کرتے ہیں وہ تو مرتے دم تک ساتھ نبھاتے ہیں- مگر سچی محبّت کرنے والے بہت کم ہیں- اس ماحول میں یہ ہی بہتر ہے کہ لڑکیاں اپنی شادی بیاہ کے معاملات اپنے ماں باپ اور گھر والوں پر ہی چھوڑ دیں- اس سلسلے میں میں اپنی اور تمہاری مثال دوں گی- ہم نے ماں باپ کی مرضی کو مقدم رکھا اور دیکھ لو ہمیں کتنے اچھے شوہر ملے ہیں- محبّت کرنے والے ، عزت دینے والے اور ہر طرح سے خیال رکھنے والے"-

لیلیٰ کی بات سن کر لائبہ نے کچھ کہے بغیر دوسری طرف کروٹ بدل لی اور آنکھیں بند کر کے کچھ سوچنے لگی-

شام کو ساجد آفس سے گھر آیا تو لیلیٰ اور لائبہ ڈرائنگ روم میں تھیں- لائبہ گھر کے کپڑوں میں نہیں تھی، اس نے ایک قیمتی اور دیدہ زیب لباس زیب تن کر رکھا تھا- ساجد کو دیکھ کر وہ اٹھ کر اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا- ساجد نے مسکرا کر پوچھا- "لائبہ- کہاں کی تیاری ہے؟"

لائبہ نے بڑی ملائمت اور اپنائیت سے کہا- "پہلے آپ چائے پی لیں پھر مجھے گھر لے جائیے گا- امی سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے"-

پھر وہ چائے بنانے کے لیے کچن کی طرف چلی گئی- اس کی بات سن کر ساجد نے سر کھجا کر لیلیٰ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا- لیلیٰ کے ہونٹوں پر ایک شفقت بھری مسکراہٹ تھی-

(ختم شد)

 

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 122328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.