ہم ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں، سائنس کی اس ایجاد نے ہر
گھر اورگھر کے ہر فرد کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیا ہے کہ یہ زندگی کا لازمی
جذو بن گیا ہے۔ جاگتی آنکھیں اس کے بغیر بے چین و مضطرب رہتی ہیں، ایک جانب
یہ بہت کام کی شہ ہے تو دوسری جانب اس کے نقصانات بھی بے شمار ہیں۔ گھر،
دکان، دفتر، سفر ہوائی ہو یا ریل کا، بس کا ہویا اپنی گاڑی کا، موٹر بائیک
چلاتا ہوا شخص ہو یا سائیکل سوار، یہاں تک کہ پیادہ بھی اپنے کان اور
کندھےshoulder کے بیچ موبائل دبائے یا ہیڈفون لگائے گفتگو میں مصروف دکھائی
دیتا ہے۔ بچے کو سوتے سے جگانا تو موبائل، بچے کو مصروف یا اپنے سے دور
کرنا ہو تو موبائل، بچوں کو خاموش کرنا ہو توموبائل الغرض موبائل نے معاشرہ
کو اپنا عاشقِ مہجور بناکر رکھ دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو سننے والے
ریڈیو کے عاشق تھے، ریڈیو ہی معلومات حاصل کرنے اور تفریح وطبع کا واحد
ذریعہ تھا لیکن ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل نے ریڈیو کو بڑی حد تک پیچھے
چھوڑ دیا ہے ان سب باتوں کے باوجود ریڈیو کی اہمیت اپنی جگہ قائم ودائم ہے،
ریڈیو سناجاتا ہے۔آج بھی پاکستان کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں پر ریڈیو ہی
دنیاوی حالات ومعلوم اور تفریح کا ذریعہ ہے۔خاص طور پر دودراز کے میدانی
علاقوں، پہاڑوں اور سرحدوں پر جوکس بیٹھے وطن کے محافظوں کا سہارا ریڈیو ہی
ہے۔ شہروں میں بھی بعض احباب ریڈیو سے محبت رکھتے ہیں اور باقاعدگی سے
ریڈیو پر مختلف پروگرام سنتے ہیں۔ ہاٹ ایف ایم 105ریڈیو پر یوں تو بے شمار
پروگرام پیش ہوتے ہیں، اشتہارات بھی، ڈرامے اور خبریں لیکن اس ریڈیو پر
ہفتہ میں ایک دن پروگرام ”بولتی کتابیں“ کے عنوان سے سریلی، مَدھر
مَدھر،خوش گلو آواز والے عارف باحلیم یہ پروگرام پیش کرتے ہیں۔ یعنی کسی
بھی ایک کتاب کا تعارف، اس کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سناتے ہیں، مصنف اگر
کراچی میں ہوتو اسے بھی دعوت دیتے ہیں اس سے بھی گفتگو کرتے ہیں، اس طرح
کتاب اور تخلیق کار کا مختصر تعارف لائیو پیش کیا جاتا ہے۔ اس دوران عام
لوگوں کی ٹیلی فون کال بھی وصول کی جاتی ہیں۔ فیصل جوش بھی عارف با حلیم کے
ہمراہ ہوتے ہیں۔ لمحہ موجود جس میں مطالعہ اور کتاب سے دوری عام ہوچکی ہے،
پروگرام ’بولتی کتابیں‘ عوام الناس کو کتاب کے قریب لانے، مطالعہ کا شوق
پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
عارف با حلیم کئی خصوصیات کے حامل ہیں، بنیادی طور پر وائس آرٹسٹ ہیں، قدرت
نے نے ان کی آواز میں سِربَیانی،خوش گلوئی اور سُریلا پن عطا کیا ہے۔ شاعر
بدر بشیر کے بقول۔
خدا کی س کے گلے میں عجیب قدرت ہے
وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے
عارت با حلیم کی ایک خصوصیت مختلف شخصیات جیسے امیتابھ بچن، ضیاء محی الدین
اور طلعت حسین جیسے اداکاروں کی آواز میں ان کے ڈائیلاگ سنانا۔ بارہویں
اردو عالمی کانفرنس کے مزاح کے سیشن میں نصرت علی صاحب نے کئی معروف شعراء
جیسے دلاور فگار،سید ضمیر جعفری، حمایت علی شاعر اور دیگر شعراء کی آوا ز
میں ان کا کلام پیش کر کے خوب داد وصول کی تھی۔عارف باحلیم اداکاربھی ہیں
انہوں نے فلم ”ساون“ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور داد پا چکے
ہیں، انعام و اکرم سے بھی نوازے گئے۔ عارف باحلیم پس پردہ آواز کا جادو
جگاتے ہیں،اسکرین پر اشتہارات میں شخصیات چلتی پھرتی دکھائی دیتیں ہیں، پس
پردہ آواز عارف باحلیم کی ہوتی ہے، کئی قومی اور عالمی پروڈکٹ کے اشتہارات
میں پس پردہ خوبصور ت آواز عارف باحلیم کی ہے جیسے ڈریم ورلڈریسارٹ
Dreamworld Resort، کوکا کالا، کے اینڈ اینز، او بی ایس وغیرہ۔کسی شاعر نے
کیا خوب کہا۔
لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے
جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں
عارف باحلیم کا اہم ترین کارنامہ اردو زبان کے معروف مصنفین کی وہ کتابیں
ہیں جو ڈیجیٹل اشاعتی ادارے ”ایمیزون“ Amazon نے آڈیو کتبAudio Booksکے طور
پر تیار کیں اور وہ کتب ایمیزون کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ان میں قدرت
اللہ شہاب کی سرخ فیتہ اور یا خد، دلی تھا جس کا نام /انتظار حسین، ممتاز
مفتی کی ہندیاترا، رضا علی عابدی کی ریڈیو کے دِن، مزاحیہ خاکے/شوکت صدیقی،
جادو گر بن گیا بندر/شوکت ہاشمی، مزاحیہ خاکے/سید ضمیر جعفری،شفیق الرحمٰن
کی کرنیں، مدو جزرم پرواز، حماقتیں اور شگوفے، انور عباس کی لھو لھان، ابن
انشا ء کی نگری نگری پھرامسافراور چلتے ہو تو چین کو چلیے، کرنل محمد خان
کی بجنگ آمد، الہٰ دین اور جادو کا چراغ/ شوکت ہاشمی، جنت کا بھوت/عظیم بیگ
چغتائی، پطرس کے مضامین، ممتاز مفتی کی چراغ تلے، نیا قانون / سعادت حسن
منٹو، خیریت / محرم علی چشتی اور دیگر کتب شامل ہیں۔آڈیو بک ایک یونیک
تجربہ ہے، جو لوگ پڑھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، فارغ اوقات میں اپنی
آنکھوں کو آرام دیتے ہوئے آڈیو بک سن کر مطالعہ کی لذت سے فیض یاب ہو
کرسکتے ہیں۔ آڈیو بک بریل بک کا بھی نعمل البدل ہوسکتی ہیں۔ بریل بک کا
مطالعہ نابینا افراد کے لیے ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے، بریل بک عام طور
پر سائز میں بڑی ہوتی ہیں، ان کی تیار کرنا بھی ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔
پاکستان میں آڈیو بک کی روایت تاحال عام نہیں ہوسکی، ویب سائٹ جو علمی مواد
اپنی سائٹ پر فراہم کرتے ہیں انہیں اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ یعنی کتاب
پڑھنے کے بجائے کتاب سنی جائے اور کتاب سنانے کی مہارت رکھتے ہیں عارف
باحلیم۔ اس سلسلے میں ان کی خدمات حاصل کی سکتی ہیں۔ بقول شاعر۔
بولتے رہنا کیونکہ تمہاری باتوں سے
لفظوں کا یہ بہتا دریا اچھا لگتاہے
چند دن ہوئے سوشل میڈیا کی معروف شخصیت فیصل جوش سے رابطہ ہوا، انہوں نے
ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، راقم نے اپنے گھر کا پتہ بتادیا، کچھ ہی دیر
میں وہ آموجود ہوئے، دیکھ کر خوشی ہوئی، گفتگو سے تازگی ملی، باصلاحیت
نوجوان ہیں، بولڈ، نڈر، اور صاف گو، انہوں نے ہاٹ ایف ایم 105ریڈیو،
پروگرام بولتی کتابیں اور عارف باحلیم کا تعارف کرایا اور ان سے ملاقات
کرانے کا وعدہ کیا، کافی دیر، کھل کر، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ہم
انہیں کیا دے سکتے تھے، ہم کیا ہماری اوقات کیا، اپنی تازہ ترین کتاب جو
اسی دن پبلشر نے ہمیں پہنچائی تھی ہم نے فیصل کو اس کتاب کی پہلی کاپی تحفہ
میں دی، اس کے علاوہ باتوں سے انہیں بہلاپھسلا کے رخصت کیا۔ اس نشست میں ان
سے پھر سے ملاقات اور عارف باحلیم سے ملاقات طے ہوئی۔ ہفتہ14دسمبر 2019ء کو
انہوں نے ہاٹ ایف ایم 105ریڈیودفتر واقع شاہراہ فیصل ”حافظ پلازہ“ میں نشست
کی دعوت دی، ساتھ ہی فرمایا کہ چند تخلیق کار بھی ہوں گے،عارف با حلیم کے
علاوہ ان سے بھی تعارف اور گفتگو ہوگی۔
ہم طے شدہ پروگرام کے مطابق عارف صاحب کے دفتر پہنچ گئے، پہلی نظر عارف
باحلیم پر پڑی،انہوں نے والہانہ انداز سے ویلکم کیا، ان کی آواز مانوس سی
لگی، سنی سنائی، کہاں سنی، کب سنی، آواز میں ردھم ہے، ایک خاص قسم کی کشش
ہے، لے، سُراورتال کا تال میل ہم آھنگ ہوتے محسوس ہوتا ہے۔رفتہ رفتہ عقدہ
کھلا کہ عارف باحلیم نے اپنی آواز کا جادو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر چلا یا
ہوا ہے وہ، پردہ کے پیچھے رہتے ہوئے اپنی آواز کا جادو جگاتے ہیں۔تخلیق
کاروں کی اس بیٹھک میں سہ ماہی ادبی جریدہ’کولاش کے مدیر اقبال ظفر،شاعر و
ادیب فیروز ناطق خسرو،ناول نگار، صحافی، کالم نگار اور’تکون کی چوتھی جہت‘
کے تخلیق کار اقبال خورشید، فیصل جوش اور عارف با حلیم شامل تھے۔ کولاژ کا
تازہ شمارہ اقبال ظفر صاحب نے عنایت فرمایا، اقبال خورشید نے اپنی کتاب
تکون کی چوتھی جہت، فیصل قریشی نے ماہنامہ ندائے گُل کا سالنامہ 2019 اور
فیروز ناطق خسرو صاحب نے اپنی کتاب عنایت فرمائی۔ چند شاعروں اور ادیبوں کی
اس بیٹھک نے انجانوں کو ایک دوسرے کا شناسا بنا دیا۔ عارف با حلیم کی شخصیت
کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع میسر آیا۔ اس کا تمام تر سہرا فیصل
جوش کو جاتا ہے۔ معروف شاعر مومن خاں مومن کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا
ہوں۔
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سے لپک جائے ہے آواز تو دکھو
(24دسمبر 2019ء)
|