ظفر وال سے ہم ٹانگے پر چونڈہ آئے،وہاں سے میرے لئے جوتے
خریدے گئے،وہاں سے پنجاب گورنمنٹ کی بسیں چلتی تھیں جو مہاجرین کو بغیر
پیسوں کے سیالکوٹ تک لیجاتی تھیں۔ان بسوں پر ہم سیالکوٹ آگئے۔سیالکوٹ میں
پوچھ پوچھ کر ہم نے ایک رشتہ دار تلاش کیا اور اس کے پاس وہاں رات
گزاری،اور اگلی صبح ہم گجرات کے لئے روانہ ہو گئے،گجرات میں ، میرے تایا
،جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے،جو چار بھائی جموں رہ گئے تھے وہ سب پڑھے
لکھے ،سرکاری ملازم تھے،جو دو گجرات تھے وہ کوئی زیادہ پڑھے لکھے نہیں
تھے،وہ کاروباری تھے،انہوں نے چھوٹے سے کاروبار سے شروع کیا اور کاروبار
میں خوب ترقی کی۔انہوں نے دو منزلہ حویلی بنائی تھی۔تیس پینتیس افراد مہاجر
ہو کر ان کے پاس پہنچے۔انہوں نے سب خاندانوں کو الگ الگ کمرے دیئے،صاف
بسترے دیئے اور بہت کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔ہمارے تعلقات کوئی بہت اچھے
نہیں تھے۔تعلقات اس لئے اچھے نہیں تھے کہ جموں والے چار بھائی کٹر مسلم
لیگی تھے۔جو دو بھائی گجرات میں تھے،وہ احرار اسلام کے تھے۔میرے ایک تایا
کا بیٹاانجمن احرار اسلام کا سپہ سالار اعظم تھا اور عطاء اللہ شاہ بخاری
صاحب کا بہت قریبی آدمی تھا۔انہوں نے اپنے گھر کے اوپر احرار کا سرخ جھنڈا
لگایا ہوا تھا۔ہم کہتے تھے کہ یہ کیا اب تو پاکستان بن گیا ہے۔انہوں نے
جھنڈا ذرا اندر، نیچے کر لیا تھا۔ تعلقات اچھے نہ ہونے کے باوجود انہوں نے
ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہمارے لئے جو ہو سکتا تھا وہ انہوں نے کیا۔ مہینہ ،
ڈیڑھ مہینہ تو انہوں نے ہمیں رکھا۔
میرے والد لاہور گئے اور اپنے پرانے ساتھیوں سے ملے۔وہ وہاں سے اسسٹنٹ
ہیلتھ افسر گجرات کی تقرری کااپائمنٹ لیٹر لے کر آگئے۔ان کو اپنی چوائس کا
سٹیشن مل گیا۔انہوں نے چارج لیا،ایک مکان کرائے پہ لیا جہاں ہم منتقل ہو
گئے۔دوسرے چچا فضل الحق ،اکیلے تھے، ان کی بیوی سرینگر تھی۔انہوں نے کسٹم
میں کام شروع کر دیا اور بعد میں کلکٹر کسٹم ہو گئے۔تیسرا چچا پی ڈبلیو ڈی
میں تھا،ابھی حکومت کے پاس فنڈز نہ تھے لہذا ان پی ڈبلیو ڈی کا کوئی کام ہی
نہ تھا۔
میں زمیندارہ ہائی سکول گجرات داخل ہوا۔ ہم نے ایک سال وہاں گزارا۔سال بعد
میرے والد آزاد کشمیر میں ہیلتھ افسر لگ گئے۔ہم راولپنڈی آ کر رہنے لگے اور
والد صاحب کی پوسٹنگ پلندری ہو گئی۔میں نے ڈینیز ہائی سکول سے میٹرک کیا
اور پھر پانچ سال گورڈن کالج پڑھا۔ سردار سکندر حیات بھی میرے کالج فیلو
تھے،وہ مجھ سے ایک سال سنیئر تھے۔بہت سے نامور افراد میرے کلاس فیلو
رہے۔جسٹس قاضی فرخ ،فرنٹیئر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس،سپریم کورٹ اور پھر چیف
الیکشن کمشنر،کئی جرنیل ۔گورڈن کالج اس علاقے کا بہت مشہور کالج تھا۔جنرل
عارف بنگش اور دوسرے بہت سے۔ میرے والد بطور ہیلتھ افسر پلندری چلے گئے۔ہم
راولپنڈی میں ایک خالہ کے پاس چٹیاں ہٹیاں کے علاقے میں رہے ،انہوں نے ہمیں
رہنے کو جگہ دی۔خالہ کو جو گھر ملا تھا اس میں بہت سا سامان بستر وغیرہ پڑے
ہوئے تھے۔جو بھی آتا خالہ اسے اس سامان میں سے کچھ نا کچھ دے دیتیں۔خالہ کو
لوگوں کو سامان دے کر بہت خوشی اور اطمینان ملتا تھا۔اس گھر سے خالہ کو جو
کچھ ملا،انہوں نے وہ لوگوں میں بانٹ دیا۔بعد میں اللہ نے انہیں بہت
دیا۔راولپنڈی اورکالج میں بہت اچھا وقت گزرا۔کالج کی غیر نصابی سرگرمیوںمیں
بھی حصہ لیتا رہا۔گورڈن کالج کے بعد میں لاء کالج لاہور گیا۔دو سال وہاں
پڑھا۔دریں اثناء میرے والد کی پوسٹنگ پلندری سے مظفر آباداور پھر میر پور
ہوگئی۔میں لاء کی ڈگری لے کر آیا اور میر پور میں پریکٹس شروع کی۔جسٹس یوسف
صراف اس وقت مشہور وکیل تھے۔ان کے ساتھ میں نے جونیئر کے طور پر کام شروع
کیا۔
اسی دوران آزاد کشمیر سول سروس کے امتحان کا اعلان ہو ا تو میں نے امتحان
دیا اور اس میں پاس ہو گیا۔پہلے تین افراد میں کامیاب ہو گیا۔یہ1960کی بات
ہے ۔یہ پہلا باقاعدہ تحریری امتحان تھا۔ایم زیڈ کیانی چیف ایڈوائیزر
تھے،چیف جسٹس تھا جسٹس فیاض حسین شاہ۔چیف سکرٹری اس وقت ایس ایچ قریشی
تھے۔اس وقت سفارش کا بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ سفارش بھی کوئی چیز ہوتی ہے
اور نہ ہی کوئی'' آئوٹ آف دی وے'' بات،امتحان آیا ،پرچے دیئے اور رزلٹ آ
گیا۔ ہم تین ، میں، خلیل قریشی اور حافظ محمد اسلم، حافظ محمد اسلم امرتسر
کا مہاجر تھا کشمیری۔ ہم تین سلیکٹ ہوئے۔ہمارے بعد جو ہمارے بہت قریب رہ
گئے ان میں خالد نظامی تھا، رشید کیانی تھے۔
بہر حال ہم سلیکٹ ہو گئے اور سول سروس اکیڈمی لاہور چلے گئے۔نو مہینے سول
سروس اکیڈمی لاہور،پھر نو مہینے ڈسٹرکٹ ٹریننگ۔ ڈسٹرکٹ ٹریننگ کے لئے میں
جہلم گیا۔پھر اس کے بعد نو ماہ پریکٹیکل لینڈ سیٹلمنٹ،بندوبست آراضی کے لئے
ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک رہا۔درمیان میں آرمی کے ساتھ اٹیچمنٹ،وہ میں نے
دھارووال میں آرمی پلٹن کے ساتھ کی،اور پشاور اکیڈمی۔ ڈھائی سال کی ٹریننگ
کے بعد جنوری1964کو میں ایس ڈی ایم کوٹلی لگ گیا۔وہاں جا کر سردار سکندر
حیات سے زیادہ دوستی ہوئی۔وہ وکالت کرتے تھے،میں ایس ڈی ایم تھا۔صبح وہ
میری عدالت میں پیش ہوتے تھے اور شام کو ہم کلب میں گپ لگاتے تھے،تاش
کھیلتے تھے۔میں کوٹلی میں تین سال رہا۔
میں کوٹلی میں تھا کہ جب1965کی جنگ ہوئی۔اور وہ میرے کیرئیر میں ایک بہت
بڑا معاملہ تھا۔جنگ سے پہلے سے ہی میں نے آرمی کے ساتھ بہت قریبی طور پر
کام کیا۔میرا کام تھا کہ آرمی کی مدد کرنا۔ مشلا آرمی کی خچریں گر گئیں، ان
کو بچانا،سڑک بنانی،دسیوں کام تھے جو سول ایڈ منسٹریشن کے بغیر نہیں ہوتے
تھے۔ہم نے یہ کام صبح شام مل کر کئے۔ایوب خان کے زمانے میں مجھے اس کاوش پر
ایوارڈ بھی دیا گیا۔میں آزاد کشمیر کا پہلا افسر ہوں جسے حکومت پاکستان نے
ایوارڈ دیا گیا۔
میں ایس ڈی ایم کوٹلی کی حیثیت سے لوکل آرمی کے بہت قریب تھا۔یہ مجھے بعد
میں پتہ چلا کہ مجھے بھی انہوں نے استعمال کرنا تھا،ایک سٹیج ایسی آنی تھی
کہ شاید اندر مقبوضہ کشمیر میں ایک گورنمنٹ قائم ہونی تھی،راجوری میں یا
مینڈھر میں،تو اس میں میں بھی حصہ تھا،مجھے شاید راجوری جانا تھا۔وہاں جو
مشہور ہوئی وہ ہے ایک جبرالٹر فورس اور ایک نصرت فورس۔ایک تیسری فورس بھی
تھی لیکن آپ اسے چھوڑ دیں۔جبرالٹر فورس جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ طارق
بن زیاد کشتیاں جلا کر گیا تھا،جبرالٹر فورس میں شامل افراد سیز فائر لائین
سے کئی میل اندر چلے گئے تھے،ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا،وہ اپنے خود
ذمہ دار تھے۔نصرت فورس باڈر کے قریب تھے اور انہیں امداد بھی مل سکتی
تھی۔جبرالٹر فورس کے واقعات آپ کو کئی جگہ کتابوں میں ملیں گے۔میں ایک آدمی
کا واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں،بریگیڈئر ،اس وقت کیپٹن شیر احمد خان،ڈبل
ستارہ جرات۔مجھے بڑا افسوس ہو اکہ اتنے سال بعد اس سے بات کی تو اسے
پہچاننے میں بڑی دیر لگی،وہ مجھے پہچانے ہی نہ۔شیر احمد کی راجوری میں ذمہ
داری لگی تھی۔راجوری کے قریب اس نے اپنا ہیڈ کواٹر بنایا اور وہاں اس کا
نام ہی مشہور ہو گیا کہ' شیر آیا شیر آیا'۔اس کا بڑا موثر کردار تھا ،اس کے
ساتھی آج بھی ہوں گے ،ان میں ایک شاہین تھے۔اس کے نام سے انڈین فوجی اور
دوسرے بھی کانپتے تھے۔منشا خان جبرالٹر میں تھے جو سرینگر چلے گئے
تھے،بریگیڈیئر شفیع،اس وقت کیپٹن شفیع گجر ۔چالیس پچاس میل اندر جا کر
بیٹھنا اور یہ پتہ بھی نہ ہو کہ پیچھے سے کوئی امداد ملے گی یا نہیں ملے
گی،یہ وہ لوگ ہیں جن کے کام بڑے قابل قدر ہیں،میں نے ان میں سے تین چار کے
نام لئے ہیں۔ گورنمنٹ آزاد کشمیر کی اس میں کوئی انوالمنٹ نہیں تھی۔ (جاری)
|