طارق مسعود (مرحوم) کی زبانی تاریخی واقعات قسط نمبر4

1965کے آپریشن کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس کا سول گورنمنٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔لوگوں کو بغیر کسی واقفیت کے،بغیر کسی اطلاع کے ، ایک دم ان کے سر پہ پہنچ گئے۔یہ شفیع بر گیڈیئر سرینگر چلا گیا،یہ اس بیج میں تھے جو آپریشن میں تھے،وہ گوجر تھے،وہ مولانا مسعودی کے پاس پہنچ گئے،بر گیڈیئر شفیع گوجر لباس میں کمبل اوڑھ کر مولانا مسعودی کے پاس پہنچ گئے اور ان سے کہا کہ میں کیپٹن شفیع ہوں ،پاکستان آرمی کا ہوں،مولانا مسعودی ان کی یہ بات سن کر حیران و پریشان رہ گئے کیونکہ انہیں اس آپریشن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔اس وقت کسی پولیٹکل لیڈر یا گروپ کواس آپریشن کے بارے میں نہیں بتایا گیا،ان کا جو موقف تھاوہ بھی اپنی جگہ درست تھا کہ آپ اس آپریشن میں کس کس کو انوالو کر سکتے ہیں،آپ ایک کو انوالو کریں گے تو ایک سے دس،دس سے سو کو معلوم ہو جاتا اور آپریشن کو کانفیڈینشل نہیں رکھا جا سکتا تھا۔

میں کوٹلی میں اس معاملے میں بہت کلوز تھا،عبدالعلی مرحوم کا بڑا بھائی جنرل اختر ملک،مشہور جنرل تھے،جو ترکی میں ایکسیڈنٹ میںمر گئے تھے،ٹین ڈیو کے کمانڈر تھے۔1965کا آپریشن جس کی ''سپر ویژن'' میں سب ہوا، وہ کوٹلی آئے ، برج کھیلنے کے بڑے شوقین تھے،کھیلتے ہوئے رات کے دو ،تین بج گئے اور وہ بدستور برج کھیلنے میں مصروف تھے، پانچ بجے صبح ہی وہ شیو کرکے،نہا کر ،وردی پہنے تیار تھے، وہ ہفتے میں ایک دو دفعہ آتے تھے،اعلی افسران کے ساتھ میٹنگز ہوتی تھیں جن میں میں بھی شریک ہوتا تھا، ان میٹنگز میں میں نے کبھی کوئی سوال نہیں کیا، اتنا تو میں سمجھ گیا تھا کہ کچھ ہو رہاہے، وہ کوئی بھی بات کہتے تو بھی میں کوئی سوال نہیں کرتا تھا کہ اس معاملے میں کوئی سوال نہیں کرنا چاہئے، اور نہ ہی انہوں نے ایک خاص حد سے زیادہ مجھے بتایا، ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ طارق مین اور تم تو گھوڑے پہ ہوں گے ناں۔

میں آزاد کشمیر سے نکلنا چاہتا تھا۔امان اللہ خان سیکرٹری تھے،کشمیر امور کے ، ان تک بات پہنچائی کہ مجھے یہاں سے نکالیں، انہوں نے میری پوسٹنگ کر دی اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ گلگت ۔ میں خوش تھا بڑا ۔ گلگت میں پارٹیاں چل رہی تھیں۔ اسی دوران چیف سیکرٹری گلگت آیا تو بریگیڈ کمانڈر انہیںایک طر ف لے گیا اور انہیں کچھ کہا۔ پتہ چلا کہ میری پوسٹنگ کینسل ہو گئی ہے۔ بریگیڈ کمانڈر نے کہا کہ اس کی پوسٹنگ منسوخ کریں۔ میری پوسٹنگ کینسل ہو گئی۔ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کانفیڈینشل باتوں کا یہ معیار ہے، جو اس طرح کے آپریشن میں کرنا پڑتا ہے۔

اب میں ایسے افراد کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جن کا کوٹلی میں عام تاثر یہ تھا کہ وہ شام کو بیٹھتے ہیں،شراب پیتے ہیں،جوا کھیلتے ہیں ، جب ضرورت پڑی تو وہ ہماری مدد کو آئے۔ ایک جگہ خچریں مر گئیں، بائو یوسف کالا کو میں نے کہا کہ یہ مسئلہ ہے ،انہوں نے کہا کہ کچھ وقت دیں ، وہ راٹھورٹرانسپورٹ میں تھا، ڈرائیور ، کنڈیکٹر سب اس کے ساتھ تھے ، صبح نو بجے اس نے مجھے اٹھا یا کہ باہر آئیں ، باہر آ کر میں نے دیکھا تو وہاں چالیس گاڑیاں کھڑی تھیں،بندے بھرے ہوئے، اپنی اپنی کھدالیں وغیرہ ساتھ لئے، سڑک بنانے روانہ ہوئے، بائو یوسف کالا، یہ وہ لوگ تھے جوایسے موقعوں پر کام آئے اور بڑے محبتی۔

جب سیالکوٹ پر حملہ ہو گیا، لاہو ر پر حملہ ہو گیا، مجھے اتنا پتہ ہے کہ وہاں یونائیٹڈ نیشن کے آبزرور گروپ بھی اسی بریگیڈ میں ہوتا تھا۔ اس منصوبے کے بارے میں آبزرور گروپ کی رائے تھی کہ پلان بھی کمال کا تھا اور اچھے طریقے سے اس عمل کیا گیا۔ہمارے جو لوگ اندر گئے تھے ، ان کے ساتھ جو مقبوضہ کشمیر کے سویلین تھے، ان کے ساتھ انہوں نے(انڈین فوج نے) جو کیا ، ان کی پٹائی کی گئی،ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔اس آپریشن سے پہلے یہ تھا کہ سیز فائر لائین سے باراتیں بھی آ رپار جاتی تھیں،کوئی پابندی ہی نہیں تھی، ایک لحاظ سے۔

انڈیا نے وہاں کے مقامیوں کے ساتھ بہت ظلم کیا،ان کی عورتوں کو بھی مارا۔ تین چار لاکھ ریفیوجی آگئے، اور زیادہ ریفیوجی کوٹلی میں آئے تھے۔ میں ایس ڈی ایم تھا۔ نکیال،کھوئی رٹہ کے راستے مہاجر آ رہے تھے۔ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے ہمیں کوئی ہدایت نہیں تھی کہ ریفیوجی آ رہے ہیں تو ہمیں کیا کرنا ہے؟ کسی سے پوچھیں تو کہتا کہ '' پش دیم بیک '' یہ ادھر کیا کر رہے ہیں؟ کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ ۔ ہم نے ، کوٹلی کے سرکردہ لوگ جو وکیل بھی تھے، منظور ، ملک یوسف، قیوم خلیق ، سردار سکندر حیات ، ہم نے کہا کہ یہ معاملہ ہمیں اپنے ہاتھ میں لینا پڑے گا،ہمیں خود ہی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہم نے بیٹھ کر بات کی اور اس حوالے سے '' رولز '' بنائے ، پیسے کہاں سے آئیں گے، پیسے ہم نے لوگوں سے اکٹھے کئے ،رولز بنائے کہ طریقہ کار کیا ہو گا، کپڑے ،بستر، آباد کاری، اس سب بارے تمام تفصیلات سے متعلق رولز بنائے گئے، ہم نے کام شروع کر دیا اور رولز کی کاپیاں بھیجیں،حکومت ،چیف سیکرٹری کو ، کہ آپ نے ہمیں کوئی ہدایات نہیں دیں، ڈیڑھ لاکھ مہاجر یہاں آگیا ہے،ہم ان کو لوگوں کے تعاون سے کھانا وغیرہ مہیا کر رہے ہیں، ان سے متعلق کرنے کے کاموں کے بارے میں آپ کو یہ رولز بنا کر بھیج رہے ہیں،اگر آپ درست سمجھتے ہیں تو ہمیں'' یس '' کریں، کوئی غلطی،اضافہ وغیرہ ہو تو اسے تبدیل،اضافہ کریں، لیکن اس کا کوئی جواب نہ آیا۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سنبھالنا مشکل کام تھا، ہم نے مہاجرین کو اچھے طریقے سے سیٹ کیا، اس بات پہ مجھے پاکستان حکومت کی طرف سے ایوارڈ ملا، اس وقت آزاد کشمیر کے صدر خان عبدالحمید خان تھے ، سویلین میں پہلا بندہ تھا کرنل رحمت اللہ خان سدھن، میں تھا، لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے حوالے سے ، جب کوئی نیشنل ایمرجنسی آتی ہے تو چوری،ڈاکے کم ہو جاتے ہیں، مہاجرین کی دیکھ بھال کے لئے ہماری ٹیم میں بڑے اچھے افسر تھے،کوٹلی میں جو افسر تھے ،مختلف محکموں کے۔

پاکستان کے ذمے جو انٹرنیشنل ذمہ داری ہے، یو این ریزولیشن کی امپلی ٹیشن ، وہ کیا ہے، اس بارے پوری تیاری ہونی چاہئے کہ جب اس بارے کسی سے بات کی جائے تو ، دونوں آپشنز کے علاوہ بھی بات ہونی چاہئے ،ورنہ اس کا اثر نہیں رہ جاتا، ان سوالوں کے جواب ہونے چاہئیں،کیا کشمیری کی رائے پاکستان یا بھارت میں محدود ہے؟ وہ اس سے آگے نہیں جا سکتا؟ ورنہ آپ کی بات میں اثر کوئی نہیں رہتا۔ان سوالوں کے جواب ہونے چاہئیں آپ کے پاس۔آپ نے آئین کا حصہ بنا دیا کہ پاکستان کے الحاق پر بات کرنے والا مجرم۔ ایک طرف آپ کے ذمے ہیں کہ یو این کی ریزولیشنز ،عوام کی آزادانہ رائے ہے اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ ،، ان امور پر بیٹھ کر بات ہونی چاہئے کہ ان سوالات کے کیا جواب ہیں۔آج کا نوجواب بہت ہوشیار ہے،وہ دلیل کی بات سنتا ہے،یہ نہیںہے کہ آپ ڈنڈے سے اپنی بات کر یں گے،

مہاجرین کی آباد کاری کا پراسیس شروع ہو گیا،مہاجرین کا گزارہ الائونس شروع ہو گیا،مہاجرین کو کپڑے،بستر بانٹنے کا طریقہ کا ر بن گیا، اس میں فوج نے ہماری بہت امداد کی،ہمارے پاس وسائل اتنے نہیں ہوتے تھے،میں اس بریگیڈ کمانڈر کانام لینا چاہتا ہوں، بریگیڈیئر قاضی عبدالواحد نے کہا کہ تم جو اتنا کام کرتے ہو،رات کو سوتے نہیں،تو اس کی ایپریسیشن بھی لینی چاہئے،سوتے بچے کو پیار کیا تو کس نے دیکھا، امدادی سامان کے ساتھ تقریب کا نعقاد وغیرہ،یہ سب باتیں ضروری ہیں، یہ نہ ہو گا تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا کہ تم نے یہ سب کام کئے ہیں، کمبل،رضائیاں، امدادی سامان ترتیب سے رکھا ہوا ہو،چونے کی لائینیں لگی ہوئی ہیں،سٹیج لگا ہے،سٹیج پہ سائیبان نصب ہے،سٹیج پہ مہمان بیٹھے ہیں،مائیکروفون لگا ہوا ہے،سویلین لباس میں دوں گا، فوجی جوان بھی جو چیزوں کو ترتیب سے رکھیں گے،یہ سب باتیں ضروری ہیں، یہ نہ ہو گا تو کوئی اعتراف نہ کرے گا کہ تم نے کچھ کیا ہے۔اس طرح کی باتیں کسی حد تک ضروری ہوتی ہیں ورنہ کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔

اوپر کی سطح پرفیصلہ ہوا کہ مہاجرین کی مستقل آباد کاری کے لئے ان کے اپنے مکان ہونے چاہئیں،ان کے لئے زمینوں،مکانات کا بندوبست کیا جائے، دوسرے مرحلے میں مہاجرین کے لئے مکانات کاکام شروع کیا گیا،میں اس وقت پلندری میں تھا، بہت سے میرے ذمے آئے،کچھ خلیل قریشی صاحب جو کوٹلی میں تھے،ان کے ذمے آئے، ان کے لئے زمینیں ایکوائر کی گئیں،مشینیں لگا کر زمین تیار کی گئی، مہاجرین کو الاٹمنٹ کی گئیں، رشتہ دار مہاجرین کو ایک ساتھ آباد کرنے کا خیال رکھا گیا، پھر مکان بنانے کے لئے پیسے دیئے جانے کا سسٹم، مکان کی تعمیر کے لئے مرحلہ وار پیسے دیئے جانے کا طریقہ کار شروع کیا گیا۔65ء ، 71 ء کے مہاجرین کو حکومت پاکستان نے زمینیں دیں،جھنگ میں زمینیں دیں،چھمب میں زمینیں دیں، چھمب اور جھنگ میں زمینیں ایوارڈ کرنے کے لئے بھی مجھے متعین کیا گیا،پنجاب حکومت سے زمینیںلینی اور مہاجرین کو دینے کا کام کیا ۔ہمارے ریاست کے کئی لوگ جھنگ کی زمینوں پہ رہ رہے ہیں، آزاد کشمیراسمبلی کے ووٹر بھی ہیں۔ (جاری)
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 766 Articles with 604422 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More