دنیا میں ایمان اور کفر کے لحاظ
سے تین گروہ پائے جاتے ہیں ۔ اول وہ طبقہ جو دل وجان سے ایمان پر قائم ہے
یہ مخلص مومنین کاطبقہ ہے ۔دوم وہ طبقہ جو دل وجان سے کفر پر قائم ہے اور
ظاہروباطن میں اس کاکفر عیاں ہے یہ خالص کافروں کاطبقہ ہے ۔سوم وہ طبقہ جو
دل میں کفر رکھتا ہے اور دل میں اسی پر راضی ہے مگر کسی بھی مفاد وغرض کی
وجہ سے ظاہری طور پر ایمان کا دعویٰ رکھتا ہے یہ طبقہ منافقین کہلاتا ہے
اور یہ طبقہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ مبغوض شمار ہوتا ہے اور قرآن
کریم کی تصریح کے مطابق جہنم کے سب سے نچلے سخت عذاب والے حصے میں یہی طبقہ
عذاب دیا جائے گا۔یہ نفاق خالص کفر ہوتا ہے ،اہل علم کی اصطلاح میں اسے
”اعتقادی نفاق “ کا نام دیا جاتا ہے ۔ایسا منافق کفار کی طرح ہمیشہ سزائے
جہنم میں مبتلا رہے گا۔ان منافقین کا دل چونکہ کفر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اس
لئے ان کے ظاہری کردار وگفتار میں بھی بہت سی ایسی خصلتیں نمایاں ہوتی ہیں
جو اس کے اہل ایمان سے دور ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں اور چونکہ یہ منافق
ظاہری طور سے خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور مسلمانوں میں گُھل مل کر
رہتے ہیں اس لیے بسا اوقات بعض مخلص مگر سادہ اہل ایمان ان کی ظاہری بری
خصلتوں کا اثر قبول کرلیتے ہیں اور اِن میں بھی اُن منافقانہ خصلتوں کا کسی
نہ کسی درجے ظہور ہونے لگتا ہے اور اس درجے کو ” عملی نفاق “ کہا جاتا ہے
اب اگر وہ مومن بروقت متنبہ ہوکر ان خصلتوں کو اپنے اندر سرایت ہونے سے روک
لے اور خود کو اُن سے بچا لے تو ایمان وعمل سلامت رہتا ہے اور اگر اس نازک
موقع پر سُستی کا مظاہرہ کیا جائے اور ان بری خصلتوں پر قابو نہ پایا جائے
تو بڑا خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ اثر اعتقادی نفاق تک نہ پہنچا دے جس سے
ایمان بالکل ختم ہوجاتا ہے ۔یہ نفاق بہت خاموشی سے اہل ایمان میں سرایت
کرتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اُن بری خصلتوں کو جانا جائے تاکہ ان سے بچنا
آسان ہو ۔قرآن کریم اور احایث نبویہ علی صاحبہا الصلوة والتسلیم نے ان
علامات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔
عالَم عرب کے ایک نامور اسلامی سکالر الاستاذ عائض عبداللہ القرنی مد ظلہ
نے قرآن کریم کی روشنی میں منافقین کی تیس علامتوں کواپنی کتاب ”ثلاثون
علامة للمنافقین “میں بڑی عمدگی اور موثر پیرائے میں پیش کیا ہے ۔چونکہ دور
نبوت سے دوری کی وجہ سے روز بروز مسلم معاشروں میں نفاق اپنی جڑیں مضبوط کر
رہا ہے اس لئے اس سے بچاؤ اور اس کی پہچان کے لئے درج بالا کتاب سے استفادہ
کرتے ہوئے ان علامات کو ذکر کیا جاتا ہے ۔تاکہ ہر مسلمان ان سے دور رہے اور
ہر شخص کے لئے اپنا محاسبہ آسان ہو۔
(۱) جھوٹ بولنا:
امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں کہ جھوٹ کفر کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ اور
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں کہیں نفاق کا ذکر کیا ہے اس کے ساتھ ہی
جھوٹ کا ذکر کیا ہے اور جب جھوٹ کا تذکرہ کیا تو اس کے ساتھ نفاق کو ذکرکیا
ہے۔ مثلاً ایک مقام پراﷲ تعالیٰ نے فرمایا:” وہ (منافق )اﷲ اور ایمان لانے
والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں مگر دراصل وہ خود اپنے آپ کو گھیرے
میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری
ہے جسے اﷲ نے اور بڑھا دیا اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کے
لئے دردناک سزا ہے۔(البقرہ: ۸۔۰۱)
اور سورت المنافقون میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” اﷲ گواہی دیتا ہے کہ
یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں۔“( المنافقون:۱)
یہاں منافقوں کے تذکرے کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے کذب(جھوٹ) کا خاص تذکرہ کیا
ہے۔جھوٹ کو نفاق کی علامت و نشانی قرارد یتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا: ”منافق کی
تین نشانیاں ہیں: (اُن میں سے ایک یہ ہے کہ )جب بات کرے تو جھوٹ بولے....
الخ“
چاہے اس نے مذاق میں جھوٹ بولا، یا سنجیدگی سے جھوٹ بولا، کسی ضرورت کے تحت
جھوٹ بولا یا چکر دینے کے لئے جھوٹ بولا۔ بہرحال اس میں نفاق کا حصہ شامل
ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دل میں موجود نفاق کی وجہ سے ہی اس نے جھوٹ بولا۔یہ
جھوٹ ایک واضح اور روشن نشانی ہے جو جھوٹے کے بارے میں نفاق کی گواہی دے
رہی ہے۔یاد رہے کہ مذاق مذاق میں جھوٹ بولنے کا بھی یہی حکم ہے اگرچہ کچھ
لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:” اُس آدمی کے
لئے تباہی ہے جو باتوں باتوں میں اس لئے جھوٹ بولتا ہے تاکہ لوگوں کو
ہنسائے، اِس کے لئے ہلاکت ہے، اِس کے لئے تباہی ہے۔“(مسند امام احمد)
(۲) دھوکہ دینا:
دھوکہ یعنی وعدہ کر کے توڑ دینا ،نفاق کی نشانی ہے اور اس کی دلیل حضور
اکرمﷺ کا یہ فرمان ہے:” اور (منافق )جب معاہدہ کرتا ہے تو دھوکہ دے جاتا
ہے۔“(صحیح بخاری)
اس لئے جس نے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ یا کسی مسلمان کے ساتھ معاہدہ کیا،
حتیٰ کہ جنگ میں کسی کافر کے ساتھ معاہدہ کیا اور پھر دھوکہ دیا، اس نے خود
پر نفاق کی گواہی،اپنے کردار سے ثبت کر دی۔ اس کی دلیل حضرت بریدةؓ سے مروی
حدیث ہے، حضور اکرمﷺ جب کسی کو امیر لشکر مقرر کر کے روانہ کرتے تو یہ
ہدایت ضرور کرتے کہ: ”اور جب تم سے اہل قلعہ اﷲ تعالیٰ کے فیصلے پر اترنے
کی درخواست کریں تو تم اُ نہیں اپنے ذاتی فیصلے پر اترنے پر آمادہ کرنا، اس
لئے کہ اگر تم اپنی ذمہ داری کو توڑ دو تو یہ اس کے مقابلے میں کہیں آسان
اور ہلکا معاملہ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ کی ذمہ داری کو تار تار کردو۔“( صحیح
مسلم)
چنانچہ جس نے کسی آدمی سے، اپنی بیوی سے، اپنے بچے سے، اپنے ساتھی یا دوست
سے یا کسی صاحبِ سلطنت سے معاہدہ کرنے کے بعد کسی شرعی عذر کے بغیر خیانت
کی یا اس کی خلاف ورزی کی تو یہ نفاق کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے اور
نفاق ہی کی ایک علامت ہے۔
(۳) لڑائی جھگڑے میں بیہودہ گوئی کرنا،گالی دینا۔یہ بہت عام بیماری ہے ،اب
تو مسلم معاشروں میں بہت سے مقامات پر لڑائی جھگڑوں کے بغیر عام گفتگو میں
بھی گالم گلوچ سے گریز نہیں کیا جاتا۔در اصل مومن تو بے حد شریف النفس اور
باحیاء ہوتا ہے جبکہ گالم گلوچ بے حیائی کا ثمرہ ہے جو نفاق کاایک شعبہ ہے۔
اس کی دلیل حضورﷺ کا یہ فرمان ہے: ” اور(منافق) جب جھگڑا کرتا ہے تو گالی
بکتاہے۔“(صحیح بخاری)
اہل علم کہتے ہیں جس نے کسی مسلمان سے جھگڑاکیا پھر دوران جھگڑا گالی بکی
تو گویا اُس نے اﷲ تعالیٰ کو اپنے دل میں موجود کیفیت پر گواہ بنا لیا کہ
وہ فاجر اور منافق ہے۔
(۴) عبادات میں سستی کا مظاہرہ کرنا:
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ” اور(یہ منافق ) جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو
کسمساتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔“(النسائ:۲۴۱)
اسی لیے اہل علم فرماتے ہیں کہ جب تم کسی انسان کو دیکھو کہ وہ نماز سے،
پہلی صف سے، ذکر الہیٰ سے ، دعوتِ دین سے ، علم سے یا نیکی کی محفلوں اور
دینی مجالس سے سُستی کرتا ہے تو یقین جانو کہ اس کے دل میں شیطانی وسوسہ
موجود ہے اور شیطان اس کے دل میں انڈے بچے دینا چاہتا ہے، لہٰذا ایسے شخص
کو خبردارو ہوشیار ہوجانا چاہئے۔نیز اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جو نماز پڑھ
لے بس وہ نفاق سے پاک ہوگیا، کیونکہ منافق بھی رسول اﷲﷺ کے ساتھ نماز ادا
کیا کرتے تھے۔ لیکن منافقوں والی نماز کی نشانی کسل وسستی ہے۔ وہ سستی کے
ساتھ اور بوجھل قدموں سے نماز کے لئے اٹھتے ہیں، وہ چستی اور نشاط سے خالی
ہوتے ہیں، جبکہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ” اے یحییٰ! کتاب الہیٰ کو
مضبوطی سے تھام لے“۔(مریم:۲۱)
ادھر منافقوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ گھسٹتے پاؤں اور بوجھ دل کے ساتھ مسجد
جاتے ہیں گویا کہ ان کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں اور بیڑیوں کے بوجھ سمیت قدموں
کو بمشکل ہی گھسیٹ رہے ہیں۔ تم انہیں صف کے کونے میں یا مسجد کے آخر میں
دیکھو گے۔ انہیں کچھ خبر نہیں کہ امام نے کیا پڑھا ہے، نہ ہی وہ اس پر غور
کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی سمجھ میں کچھ آتا ہے کیوں کہ یہ لوگ دل کے
اخلاص کے ساتھ حاضر ہی نہیں ہوتے۔حضرت اسود بن یزید العراقیؒ بیان کرتے ہیں
کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ حضور اکرمﷺ تہجد کے لئے کس وقت
اٹھتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے بتلایا:” جب مرغ اذان دیتا تو آپﷺ بیدار ہو جاتے۔“
مزید فرمایا:” آپﷺ اُچھل کر اٹھتے تھے“ (صحیح مسلم) آپﷺ کا اس طرح اٹھنا
حوصلے،ہمت، چستی، حرارت ایمانی اور قوت ارادہ کی ترجمانی کرتا ہے۔ آپﷺ
عبادت کے لئے ہمیشہ قوت ایمانی اور جذبہ اطاعت کے ساتھ تشریف لاتے اور یہی
ہمت ،حوصلہ اورحرارت ایمانی اہل ایمان سے مطلوب ہے جو انہیں منافقین سے
ممتاز کرتی ہے ۔حضرت امام احمدؒ نے حضرت عدی بن حاتمؒ کے بارے میں لکھا ہے
وہ فرماتے ہیں کہ”اللہ کی قسم“ نماز کا وقت ہونے سے پہلے ہی میں بصد شوق
تیار بیٹھا ہوتا ہوں۔“(کتاب الزھد) حضرت سعید بن مسیبؒ اپنے بارے میں بیان
کرتے ہیں کہ:”چالیس سال تک معاملہ یہ رہا ہے کہ جب مؤذن اذان دیتا تو میں
اس وقت مسجد نبوی میں موجود ہوتا۔“(کتاب الزھد)
جی ہاں! ایمان اسی کیفیت وشوق عمل کا نام ہے۔ جب تم کسی کو پہلی صف اور
بالخصوص امام کے قریب والی جگہ پر دیکھو تو اس کے حق میں ایمان کی گواہی دو۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ”جس آدمی کو تم مسجد میں(بکثرت ) آتا جاتا دیکھو اس
کے ایمان کی گواہی دے دو۔“(سنن الترمذی) |