میں ایک عام سا مسلمان ہوں ۔الحمد اﷲ میر ا برسوں سے یہ
معمول رہا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد پہلے تفہیم القرآن کے ایک رکوع کی
تلاوت کرتا ہوں۔پھر اس رکوع کا پورا اُردو ترجمہ پڑھتا ہوں۔ پھر اس کے بعد
اس رکوع کی پوری تفسیر کا مطالعہ کرتا ہوں۔ حدیث کی کتاب کے دوصفحوں پر
جتنی بھی حدیثیں درج ہوتیں ہیں ان مطالعہ کرتا ہوں۔یہ اس لیے کہ قرآن اﷲ کا
کلام ہے اور حدیث ِرسولؐ اس کی تفسیر ہے۔بلکہ قرآن کریم کو اسلامی علوم میں
قلب اور حدیث ِنبوی ؐ کو شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک کالم نگار ہونے کی
حیثیت سے، میری یہ بھی عادت رہی ہے کہ جب بھی صاح ستہ کی کسی کتاب کا
مطالعہ مکمل ہوتا ہے ۔اس پر ایک عدد کالم لکھتا ہوں تاکہ عام لوگوں کو بھی
دعوت دوں کہ وہ بھی قرآن کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ حدیث کی کتابوں کے مطالعہ
کاشوق پیداکریں۔ اس سے قبل بخاری ، مسلم ،سنن ابن ماجہ،سنن ابوؤد ،اورجامع
ترمذی کے مطالعہ کے بعد اپنے کالم لکھ چکا ہوں۔ اپنے پچھلے پانچ کالموں میں
قارئین سے یہ درخواست کرتا رہاہوں کہ میں نے بھی پہلے تو حدیث کے چھوٹی
چھوٹی کتابیں ،جیسے زادِ راہ، انتخاب حدیث،راہ عمل، ارشادات رسولؐ اور
معارف ا لحدیث وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے۔ پھر مجھے صاح ستہ کی چھ کتابیں، جن
کی کل سترہ جلدیں ہیں، حاصل کرکے مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے
تقریباً پچیس(۲۵) قبل ۱۹۹۴ ء میں صحاح ستہ، جس میں بخاری،مسلم،سنن ابن
ماجہ،سنن بوداؤد،جامع ترمذی ، سنن نسائی شامل ہے مکتبہ المعارف اسلامی
منصورہ لاہور سے حاصل کیں۔ اُسی وقت سے روزانہ کہ بنیاد پر قرآن کے مطالعہ
کے ساتھ حدیث کی ان کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ الحمد اﷲ اب صحاع ستہ کی
آخری اور چھٹی کتاب’’ سنن نسائی شریف‘‘ کا مطالعہ مکمل کر لیا۔ اب میں نے
حسب معمول حدیث کی کتاب ’’موطا امام مالک‘‘ کا مطالعہ شروع کر دیا ہے۔
جہاں تک تفصیل کا تعلق ہے توسنن نسائی شریف تین جلدوں میں ہے۔ اس کو اسلامی
اکادمی اُردو بازار لاہور پاکستان نے شائع کیا ہے۔ اس سنن نسائی کا اُردو
رترجمہ حضرت علامہ وحید الزامانؒ ؒ نے کیا ہے۔ حدیث کی اس کتاب میں پانچ
ہزار سات سو چونسٹھ حدیثیں ہیں۔ اس کی تالیف امام احمد بن شعیب نسائی نے کی
ہے۔جوخراسان کے ایک شہرنساء سے منسوب ہے۔ ان کی پیدائش ۲۱۴ھ میں شہر نساء
میں ہوئی۔امام نسائی نے ۱۳؍ صفر ۳۰۳ھ میں میں وفات پائی۔ صفا و مروہ کے
درمیان دفن کیے گئے۔آپ نے حدیث کے علم کے حصول لیے اپنے زمانے کے محدثین سے
مختلف ممالک ،جن میں خراسان، حجاز، عراق جزیرہ ، شام اور مصر شامل ہیں کے
سفر کیے۔ ان ممالک میں امام نسائی نے بہت سے شیوخ سے استفادہ کیا۔ آپ نے
حدیث شریف کے دو مجموعے مرتب کیے۔ ایک سنن صغریٰ کے نام سے اور دوسرا سنن
کبریٰ کے نام سے موسوم ہے۔ہمارے مطالعہ میں سنن کبریٰ رہی ہے جس کی تین
جلدیں ہیں جسے عرف عام میں سنن نسائی کہتے ہیں۔امام نسائی نے سنن نسائی کی
پہلی جلد میں کتا ب الطہارت سے کتاب الجنائز، میں مسواک کرنے سے موت سے
متعلق حدیثیں درج کی ہیں۔ دوسری جلد میں کتاب عطیہ اور بخشش میں ہبہ سے لے
کر شرابوں تک حدیثیں بیان کی ہیں۔تیسری جلد میں کتاب الصیام سے کتاب
الوصیتوں میں روزوں کی ٖفضلیت سے لے کر تہائی مال کی وصیت کرنے کے متعلق
حدیثیں جمع کی ہیں۔
انسانی زندگی میں، انسان کو جن جن چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے ان سب کے متعلق
ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس طرح برتاؤ کیا۔کن کن
چیزوں سے منع کیا۔ کن کن چیزوں پر عمل کیا۔کن کن چیزوں کے کرنے پر زور دیا۔
کن کن میں خاموشی اختیار کی۔ صحابہ ؓ اور محدثین ؒ نے رسولؐاﷲ کی ایک ایک
بات کوکو ریکارڈ میں لے آئے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ اس کے
ہم خود نگہبان ہیں۔ ہم خوش قسمت امت ہیں کہ ہمارے پاس اﷲ کا کلام حرف بہ
حرف موجود ہے۔ ہمارے رسولؐ اﷲ کی ہر بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ قرآن اور رسولؐ
اﷲ کی زندگی، یہ وہ دو چیزیں ہیں جن کے لیے اﷲ کے رسولؐ اﷲ نے فرمایا تھا
کہ میرے بعد ان کو تھام لینا کبھی بھی راہ راست سے نہیں بھٹکوں گے۔
جب تک مسلمان اﷲ کے رسولؐ کی اس نصیحت پر عمل کرتے رہے تو اﷲ نے ان بکریاں
اور اونٹ چرانے والوں عربوں کو دنیا کا امام بنا دیا اوردنیا کی تمام قوموں
پر فضلیت دی۔اُس وقت کی معلوم دنیا کے چار بڑے براعظموں پر مشتمل تھی۔ جس
کے پونے چار براعظموں پر مسلمان نے ۹۹ھ تک اسلام کا پیغام پہنچا دیا تھا۔
اگر مسلمان اس پیغام پر قائم رہتے تو باقی دنیا پر بھی اسلام کا غلبہ ہوتا۔
کیونکہ اسلام نام ہی غلبہ کا ہے۔شرط یہ ہے کہ کہ مسلمان مومن بن کے
رہیں۔پھر مسلمانوں میں کمزوریاں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔مسلمان اﷲ اور رسولؐ
کی تعلیمات جن پر عمل کر کے عروج حاصل کیا تھا ،انہیں بھلا بیٹھے ۔ آپس میں
لڑنے لگے تو مسلمان کی ہوا اُکھڑنے لگی۔پھر مکافات ِعمل نے اپنا کام شروع
کیا اور مسلمانوں کو اﷲ نے انہیں اوج ثریا سے زمین میں پھٹک دیا۔ اسی کا
مفسر قرآن و حدیث اور شاعر اسلام حضرت علامہ شیخ محمد اقبال ؒ نے اپنے شعر
میں اس طرح نقشہ کھینچاہے:۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اگر مسلمان پھر سے عروج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں واپس اپنے اصل کی طرح
پلٹنا ہو گا۔جس اصل کو لے کر وہ دنیا کے امام بنے تھے۔ وہ اصل قرآن اور سول
ؐ اﷲ کے ارشادات ہیں۔صلیبیوں نے ۱۹۲۳ء میں عثمانی ترک مسلمانوں کی خلافت کو
ختم کیا۔ انہیں درجنوں راجوڑوں میں بانٹ دیا۔ جو اب بھی ۵۷ بظاہرآزاد
مملکتوں کی شکل میں موجود ہیں۔یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اب دنیا میں
مسلمانوں کو پھر سے خلافت قائم نہیں کرنے دی جائے گی۔صلیبی اسی ڈاکٹرائن پر
عمل کر رہے ہیں۔جب مصر اور الجزائر میں مروجہ جمہوری طریقے عوام نے حکومتیں
بنائیں تو اپنی پٹھو فوج کے ذریعے قتل عام کروا یا اور جمہوری حکومتوں کو
ختم کر دیا۔ مصر، الجزائر، شام،عراق،افغانستان،فلسطین،کشمیر، برما، بھارت،
چیچینیا، بوسینیا وغیرہ جس طرف دیکھو مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹاجا
رہا ہے۔صلیبی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کر کے مسلمانوں کو
آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔اس خون ریزی سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ ہم واپس
اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں۔مسلمانوں کے پاس دولت ہے۔ زرخیز علاقے ہیں۔ہوائی،
بحری اور بری راستے ہیں۔
مسلمان ملکوں میں عوام اپنی اصل پر لوٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اﷲ کے نام
پرمسلمان نوجوان مرمٹنے کے لیے تیار ہیں۔یہی کچھ سارے عوامی سروے بتا رہے
ہیں۔مگر صلیبی پٹھو مسلمان حکمران اپنے اپنے ملکوں میں عوام کے ساتھ انصاف
نہیں کر رہے ۔انہیں مہنگائی بے روزگاری اور امن امان کے مسئلوں میں دبا
رکھا ۔ مسلمان ملکوں میں نہیں ہے تو جرأت مند لیڈرنہیں شب ہے۔ بقول علامہ
اقبالؒ:۔
سبق پھرپڑھ صداقت کا،عدالت کا ،شجاعت کا
لیا جائے گا تم سے کام دنیا کی امامت کا
صاحبو! اس ہی خرابیوں کا گہرا ادراک رکھنے والے وقت کے مجدد سید موددیؒ نے
قرآن و حدیث کی روشنی میں حکومت الہٰیا قائم کرنے کے کا نظریہ ۱۹۳۲ء میں
پیش کیا تھا۔ اس کام کو کرنے کے لیے لوگوں کو بلار تے رہے۔ پھر ۱۹۴۱ء میں
پنجاب کے شہر لاہور میں اس کام کو کرنے والی، جماعت اسلامی کا قیام عمل میں
لایا گیا۔ اسلام کا یہ پیغام اب پوری دنیامیں پھیلتا جا رہا ہے۔ دشمن اس کو
ناکام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سید موددیؒ نے دنیا کے مسلمان نوجواں کو
خطاب کرتے ہوئے دعوت دی کہ’’ قرآن اور حدیث کو لے کر اٹھو اور ساری دنیا پر
چھاجاؤ‘‘ اﷲ کرے ایسا ہی ہو اور مسلمانوں کو پھر سے کھویا ہوا مقام حاصل ہو
جائے آمین۔
|