جاوید شیخ کا رعب اپنے بہنوئی بہروز سبزواری سے بھی زیادہ۔۔۔گھر کے بچے بات ٹال نہیں سکتے

image


انڈسٹری کے چند سدا بہار اداکاروں میں سے ایک ہیں جاوید شیخ۔۔۔جن کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن ان کی شخصیت کو ان سے اور نکھار ہی ملا۔۔۔انڈسٹری میں آنے والے اس نوجوان نے بچپن سے ہی اپنے دل میں امیتابھ بچن اور دلیپ کمار کو بٹھا رکھا تھا ۔۔۔اس لئے محض بارہ سال کی عمر میں والد کے پیسوں میں سے سو روپے چرا کو گھر سے بھاگنے کی کوشش کی تاکہ میڈیا میں کچھ کرسکیں۔۔۔

نوٹ تڑوانے کی غرض سے حلوائی کے پاس گئے اور دو روپے کے لڈو خریدے۔۔۔حلوائی نے والد کو بتایا کہ آپ کا بیٹا سو روپے لایا تھا۔۔۔والد نے دوستوں کے ساتھ تلاش شروع کردی اور اسٹیشن پر ٹرین رکی ہوئی تھی کہ ابا نے پیچھے سے پکڑ لیا۔۔۔یوں زندگی میں سب سے پہلا سبق ملا کہ گھر والے چاہے کچھ بھی کہیں لیکن ان سے بھاگ کر زندگی صرف ناکام بناتی ہے۔۔۔کامیابی گھر والوں کی سپورٹ سے ہی ملتی ہے۔۔۔

اس واقعے کے بعد گھر میں ابا نے الٹا لٹکایا۔۔۔اور خوب مار بھی پڑی۔۔۔اس کے بعد ابا کراچی شفٹ ہوگئے تاکہ صحبت اچھی ملے۔۔۔یہ وہ وقت تھا کہ جب جاوید شیخ نے تعلیم میں دل لگانا شروع کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔۔۔ریڈیو پاکستان میں دس سے بارہ آڈیشنز دیئے لیکن ہر بار ناکام ہوجاتے۔۔۔جاوید شیخ اس بات کو مانتے ہیں کہ میں ایک سفارشی اداکار تھا اور پہلا کام ریڈیو پاکستان کے آفتاب افغانی کی سفارش پر ملا جب انہوں نے کال کی امیر امام کو کہ اس لڑکے کو کام دے دو۔۔۔امیر امام نے انہیں کہا کہ جاکر کرتا پاجامہ پہن لو۔۔۔
 

image


جاوید شیخ کرتا پاجامہ پہن کر کرسی پر بیٹھ گئے ۔۔۔امیر امام نے کہا کہ یہ طلعت حسین کی جگہ ہے۔۔۔تم نے سائڈ میں کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا ہے۔۔۔جب وہ تمہیں کہیں گے کہ ’’رمجو، چائے لے آؤ‘‘ تو تم نے چائے لانی ہے۔۔۔ اور یوں ڈرامہ انڈسٹری میں اینٹری ہوئی۔۔۔

اپنے تین چار دوستوں کے ساتھ اکثر جاوید شیخ ایسٹرن اسٹوڈیو جاتے تھے فلم کی شوٹ دیکھنے۔۔۔ایک دن چوکیدار نے کھڑے دیکھا تو کہا کہ فلم میں کام کرو گے؟۔۔۔جاوید شیخ تو حیران رہ گئے کہ گیٹ پر کھڑے ہوتے ہی لاٹری لگ گئی۔۔۔وہ اور باقی دو دوست بھی اندر چلے گئے۔۔۔محمد علی مرحوم وہاں موجود تھے اور ان کی فلم ’’جاگ اٹھا انسان‘‘ کی شوٹ چل رہی تھی۔۔۔ڈائریکٹر شیخ حسن نے ہم تینوں لڑکوں کو ایک ایک لڑکی کے پیچھے اونٹ پر بٹھادیا۔۔۔ہم خوش کہ سامنے محمد علی گن لے کر کھڑے ہیں۔۔۔کیا فلم ہے ، ہم ہیرو ہیں۔۔۔اچانک تین دوپٹے ہم لڑکوں کے لئے آئے اور ہمارے سارے خواب مٹی میں مل گئے ۔۔۔کیونکہ ہمیں چہرہ چھپا کر لڑکی بن کر اونٹوں پر تعداد بڑھانی تھی۔۔۔

جاوید شیخ نے ہیرو بننے کے لئے بہت محنت کی اور مشکلات کا سفر طے کیا۔۔۔اسی لئے انہوں نے اپنے گھر کے کسی بھی بچے کی کبھی سفارش نہیں کی۔۔۔چاہے وہ ان کے اپنے بچے ہوں یا بہن کے بچے۔۔۔
 

image


ان کے سامنے ایک شو میں میزبان نے چار نام رکھے کہ کون بہتر آرٹسٹ ہے مومل شیخ، شہروز سبزواری، شہزاد شیخ، سائرہ شہروز۔۔۔تو انہوں نے شہزاد شیخ کو پہلا، شہروز کو دوسرا، سائرہ کو تیسرا اور اپنی بیٹی کو چوتھا نمبر دیا۔۔۔کیونکہ ان کے لئے سارے بچے برابر ہیں۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ خاندان میں بہروز سبزواری سے زیادہ جاوید شیخ کا رعب چلتا ہے۔۔۔اور ان کے فیصلے کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔۔۔

YOU MAY ALSO LIKE: