دنیا کی تمام قومیں صرف اور صرف قانون کی حکمرانی کی
وجہ سے ہی قائم ہیں،مولا علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ معاشرے میں
کفرکا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا، اسی طرح ایک
ملک میں دو نظام انصاف نہیں چل سکتے ، اربوں روپے کی لوٹ مار کرنے والے تو
ضمانت پر رہا ہو سکتے ہیں لیکن جن کے ذمہ صرف چند سو روپے ہوں وہ کئی کئی
ماہ پابند سلاسل رہتے ہیں ، کسی غریب پر جھوٹا مقدمہ جس میں تھوڑی سے
منشیات ڈالی گئی ہو تو اس کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور جس سے کئی کلو منشیات
برآمد ہو اسے انصاف کے تقاضے پورنے کرنے کیلئے بر ضمانت رہا کر دیا جاتا ہے
۔ کئی دنوں سے یہ بات زبان زد عام ہے کہ سچ بولنا اور لکھنا اسلامی مملکت
میں ایک جرم ہے جس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے ، یہ میرے ذاتی تجربہ
کی بات ہے کہ میں نے جب بھی سچ لکھا یا حق کیلئے بولا تو موت کی دھمکی ملی،
لیکن ضمیر کو بیچنے کی بات نہیں کی میرے خون میں یہ چیز شامل ہے کہ سچوں کا
مرید ہوں اور سچ کی خاطر جان قربان کرنا ہی ہمیں سکھایا گیا ہے ۔ ملکت
خدادا داد میں انصاف کیلئے بے گناہ پھانسی چڑھتے اور جرائم میں ملوث افراد
آزاد گھومتے نظر آتے ہیں کیونکہ آئین اور قانون میں فرق ہے اور امیر اور
منہ زور سفارشی کے لیے ایک قانون اور غریب اور مظلوم کیلئے علیحدہ قانون
سینکڑوں انسانوں کا قابل ملک سے آسانی سے فرار ہو جاتا ہے اور ایک قتل کے
الزام میں بے گناہ کو 18سال کی قید کاٹ کر سزائے موت ہو جاتا ہے۔ اس طرح
کئی منشیات میں ملوث حکومتی عہدہ دار دندناتے پھر رہے ہیں اور ایک چھٹانک
کے الزام میں پکڑے جانے والے کئی سالوں کے لیے جیل کی کال کوٹھڑی میں موجود
ہیں اس دوغلے قانون کو کب تبدیل کیا جائے گا اور غریب کو کب انصاف میسر ہو
گا امیر کی کمر کو درد ہو اور کئی جرائم میں ملوث بھی ہو تو اس کو آسانی سے
علاج کے بہانے باہر بھیج دیا جاتا ہے اور غریب کا بچہ اگر جیل میں تڑپتا
رہے تو اسے ایک گولی میسر نہیں ہوتی اور اسکے گھر والوں کو فون کر کے کہا
جاتا ہے کہ آؤ نعش لے جاؤ۔
آج کل سابق جرنیل اور سابق صدر پاکستان کا ذکر ہر چینل پر زور و شور سے ہو
رہا ہے کہ اس کو کیوں باہر بھیجا گیا ہے اکثریت نے اس الزام کو رد کر دیا
ہے کہ جنرل صاحب نے کوئی اکیلے جرم نہیں کیا اس میں شامل وہ عدلیہ کے اعلیٰ
جج صاحبان اور دوسرے حکومتی عہدہ داران بھی اس طرح شامل ہیں جس طرح جنرل
صاحب پر الزام لگایا گیا کیونکہ اس وقت کی عدلیہ نے جنرل صاحب کو غیر معینہ
مدت کے لیے توسیع دی تھی کہ آپ قانون میں ترامیم کر لیں اور ایسا احتساب
کریں اور ملک لوٹنے والوں کے خلاف کاروائی ہو سکے لیکن بد قسمتی سے وہ نہ
ہو سکا اور دہشت گردی زور و شور پر شروع ہو گئی جس سے ملک میں افراتفری کی
ہوا چل پڑی اور اسی ہوا کا ایک جھونکا لعل مسجد کی شکل میں سامنے آیا جس
میں دن دیہاڑے پاکستان آرمی کے دو افسران اور جوان بھی شہید ہو گئے لیکن ان
کی ایف آئی آر کا آج تک پتہ نہیں چلا کہ ان کے قاتل کا کیا انجام ہوا لیکن
سابق جرنیل کو اکیلے ملوث کر دیا گیا اور ان پر لفظ غدار کا لقب بھی لگایا
گیا۔ حالانکہ ملک پاکستان کے لیے جنگیں لڑنے والا غدار نہیں ہو سکتا ، غدار
وہ ہوتا ہے جو ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو دوسرے ممالک میں لے جائے اور وہاں
جا کر اپنے محلات اور کارخانے بنا لے اور غیر لوگوں کو ان میں ملازمتیں دے
وہ ان القابات کے حقدار ہوتے ہیں اور ملک کے لیے جانیں قربان کریں ان کے
ساتھ یہ لفظ لگانا ایک جرم کے ذمرے میں آتا ہے ، بڑا آدمی اگر بہت بڑا جرم
کرے تو اس کے خلاف بھی فیصلہ آجائے تو اس کو بچانے کے لیے کئی سالوں بعد
بھی نظر ثانی کی درخواست دی جاتی ہے اور غریب کا فیصلہ اگر کسی مقدمہ میں
ہو جائے تو 30دن بعد اس کے مقدمہ کی اپیل نہیں منظور کی جاتی کہ وقت زیادہ
ہو گیا ہے ۔ ، غریب شخص پر اگر دہشت گردوں کی طرف سے حملہ یا دھمکیاں مل
جائیں تو اس کو سرکاری ایجنسیاں یہ کہہ کر تسلی دے دیتی ہیں کہ گھر میں
بیٹھ کر آرام کریں آپ کو خطرہ ہے اور کوئی تھوڑا سے خود ساختہ بڑا ہو تو اس
موبائل اسکواڈ اور پولیس کی بھاری نفری سداتھ دی جاتی ہے کہ تم نے پہلے ہی
ملک لوٹا ہے اور اب بھی ان کا تیل، پیٹرول کی مد میں نقصان کرو۔ کہ پاکستان
میں ساتویں سکیل کا کلرک اور پٹواری جب اپنے دفتر جاتا ہے تو پتہ یہ چلتا
ہے کہ یہ کوئی بیسویں گریڈ کا آفیسر آیا ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر کے پاس
پراڈو گاڑیاں اور اکثر کے پاس ٹو ڈی گاڑیاں ہیں وہ کئی کئی کوٹیوں اور
مارکیٹوں کے مالک ہیں ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کل تک تو وہ ایک فقیر کی
طرح زندگی گزار رہے تھے اور آج بادشاہ کس طرح بنے اور اسی طرح چور ڈاکو جو
سر عام جرائم کر کے ملک سے دولت جمع کی اور کئی محلات مختلف اضلاع میں
بنائے وہ جائیدادیں کہاں سے خریدیں جس کی اطلاع ملک کے واحد ادارے نائب کو
بھی ہوئی لیکن وہ آسانی سے ملک سے فرار ہو گئے اور جن کے ذمہ 10ہزار کا
قرضہ تھا انکو علاقہ کے تحصیلدار صاحب پکڑ کر ضلع کی جیل میں بھیج دیتے ہیں۔
حکمرانو ہوش کی ناخن لو ورنہ ایسا طوفان آئے گا کہ کوئی نہیں بچ سکے گا
اورپھر محب وطن جرنیل کو اس دوغلے قانون کو توڑ کر حکومت کی باگ دوڑ
سنبھالنا پڑے گی ۔
|