پاکستان کے کرب ناک حالات اور اسوہ خلیفہ اول رضی اللہ عنہ

رات کی سیاہی اچھی طرح پھیل چکی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں دَس اور گیارہ کا گھنٹہ پورا کرنے کے لیے سست رَوی سے چلتی جا رہی تھیں۔ وہ اپنے گھرانے کا واحد کفیل تھا جو اس وقت زیرو پوائنٹ اسلام آباد کے نزدیک ایک نجی دفتر سے چھٹی کر کے، اپنے موٹرسائیکل پر سوار گھر کی طرف جا رہا تھا جیسے ہی اس نے اسلام آباد ہائی وے پر فیض آباد کا پل عبور کیا تو بائیں جانب سے انتہائی کرخت آوازوں کے ساتھ چند موٹر سائیکل اچانک سڑک پر آگئے اور ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگے جیسے کوئی stunt man سرکس میں کرتا ہے۔ کوئی one wheeling کا مظاہرہ کررہا تھا تو کوئی موٹرسائیکل پر لیٹ کر اپنی ڈرائیوری دکھا رہا تھا۔ یہ سب موٹرسائیکل انتہائی بدتمیزی کے ساتھ ایکسپریس وے پر موجود ٹریفک کو غلط جانب سے غلط انداز سے انتہائی تیز رفتاری سے overtake کرتے ہوئے اسلام آباد ائر پورٹ کی طرف دوڑنے لگے۔ اسی اثناء میں موٹرسائیکل سواروں کی ان اوچھی حرکتوں سے بچتے ہوئے دو کاریں آپس میں اتنے برے طریقہ سے ٹکرائیں کہ محنت مزدوری سے فارغ ہو کر گھر جانے والا اپنے خاندان کا واحد کفیل ان کاروں کے درمیان آکر بری طرح زخمی ہوا اور تڑپ تڑپ کر جان دے گیا۔

رات کے اس حصہ میں کوئی قانون کا رکھوالا اور کوئی ٹریفک پولیس والا اسلام آباد کی اس اہم ترین شاہراہ پر موجود نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کبھی دن رات میں کسی بھی وقت کوئی VIP-Movement ہورہی ہو تو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والی پولیس، فوج ، ملٹری پولیس اور ٹریفک پولیس اور نہ جانے کون کون سی security forces وقت اور موسم کی پرواہ کیے بغیر سرکار کی غلامی اور خدمت کا حق ادا کرنے کے لیے سڑکوں پر کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ جو کہ سڑکوں پر رواں ٹریفک کو فقط اس لیے روک دیتے ہیں کہ security purpose کے لیے ضروری ہے کہ ”صاحب بہادر“ جب یہاں سے گزریں تو ارد گرد کوئی چڑیا بھی نہ اڑ رہی ہو۔ کیوں کہ ”صاحب بہادر“ کی قیمتی جان کو کوئی خطرہ نہ پیش آجائے۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور عوام کی مجبوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کو بیچ سڑک کے کافی دیر کے لیے روک دیا جاتاہے۔ کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کو ان بے چارے عوام میں سے کسی نے دفتر جانا ہے، کسی کو ہسپتال جاکر اپنے بیمار عزیز کو بر وقت کھانا پہنچانا ہے، کسی کو وقت پر نوکری کے لیے ٹیسٹ/انٹرویو دینے جانا ہے۔ مگر ایسی بات یہ کیوں سوچیں؟ اچھے برے لوگ ہر طبقہ زندگی میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان فورسز میں بھی اخلاقیات سے عاری اور تہذیب و تمدن اور آداب گفتگو سے تہی دست و تہی دامن افراد موجود ہیں۔ ایسے لوگ اپنے کو حاکم سمجھتے ہوئے پیسے کی بنیاد پر طبقاتی تفریق کے مطابق، غریب و نادار سے بڑے برے انداز میں بات کرتے ہیں ۔ اور دنیاوی طور پر رکھ رکھاﺅ والوں سے ایسے بات کرتے ہیں جیسے ابن علقمی اور طوسی تاتاریوں کی چاپلوسی کرتے تھے۔ بہرحال جیسے ہی یہ وی آئی پی شخصیت غائب ہوئی یہ جیالے بھی غائب ہو گئے کہ جیسے انہیں غریب عوام پر لاگو ظالمانہ ٹیکسوں سے تنخواہ محض اسی فرض کی ادائیگی کے لیے دی جاتی ہے۔

آج کل وطن عزیز پاکستان میں موجود مسائل پر بحث کی جائے تو مندرجہ بالا سطور تو ان بے پناہ مسائل کا صرف ایک نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ورنہ اس ملک میں کئی روح فرسا اور گھمبیر قسم کے مسائل موجود ہیں۔ مگر اہل اقتدار فقط دولت سمیٹنے کی دھن میں مصروف ہیں۔ حکومتی مشینری کا ہر فرد اپنی اپنی استطاعت کے مطا بق جیبیں بھرنے میں مصروف ہے۔ مشہور ہے کہ الناس علی دین ملوکہم یعنی عوام اپنے بادشاہ کے طریقہ پر ہوتے ہیں۔ اور پاکستان کے موجودہ بادشاہ کی لوٹ مار سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سونے والا بھی بخوبی جانتا ہے۔ اسی لیے استاد دامن نے کہا تھا
چاچا دیوے بھتیجے نوں، بھتیجا دیوے چاچے نوں
وچوں وچ کھائی جاﺅ، اتوں اتوں رولا پائی جاﺅ

یہ تو بوگس داخلہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جب کہ خارجہ پالیسیوں کی حقیقت اور نتائج اس سے بھی بھیانک ہیں ۔ ملک کو غیروں کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا ہے۔ جس کا دل کرتا ہے وہ غریب پاکستانی عوام کو بر سرعالم تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور پھر دوران تفتیش اس کو ایسے رکھا جاتا ہے جیسے اپنے سسرالی رشتہ داروں کو رکھا جاتا ہے۔ اس کو اتنا سر چڑھایا جاتا ہے کہ وہ اذان پر بھی دریدہ دہنی کی جرات کرلیتا ہے۔ اور پھر آخرکار بیرونی آقاﺅں کی خوشنودی کو مقدم رکھتے ہوئے اس بد باطن و قاتل کو خصوصی طیارے میں باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ آئے روز گیس، بجلی، پانی، پٹرول وغیرہ کے مسائل بھگتنے کے لیے عوام پر ظلم کیا جاتا ہے۔ کبھی علانیہ وقت کے برعکس بجلی بند کر دی جاتی ہے۔کبھی موسم تبدیل ہوا ذرا سی ہوا چلی تو بجلی گئی۔ ہاں اگر کہیں شرک و بدعت یا دیگر غیر شرعی امور کفریہ کا ارتکاب ہو رہا ہو تو اس علاقہ کی بجلی نہیں بند کی جائے گی۔ کبھی گیس کا پریشر کم ہو جاتا ہے کبھی پانی کی جگہ نلکے میں ہوا آتی ہے۔ اور آئے روز بیرونی اشاروں پر پٹرول کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ یہ سب IMF اور World Bankکو خوش رکھنے اور ان کی زریں ہدایت کے مطابق داخلہ و خارجہ پالیسیاں ترتیب دینے کا نتیجہ ہے۔

جیسے قرآن کا اعجاز ہے کہ ہر دور میں پیش آنے والے مسئلہ کے حل کی کوئی نہ کوئی صورت قرآن کریم میں مل جاتی ہے بعینہ تعامل صحابہ کی کرامت ہے کہ ہر میدان میں انوار صحابہ سے روشنی لی جا سکتی ہے۔ اس لیے حکومتی مشینری کو چاہیے کہ اپنے اندر سے غیر مسلموں کے نکال باہر کریں اور اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی سمیت ہر موڑ کے لیے خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے انقلابی اور بے باکانہ اقدامات سے روشنی حاصل کرے۔ وفات نبی کریمﷺ کے بعد اس 9لاکھ مربع میل کی اسلامی خلافت کو ہر طرف سے خطرات در پیش تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ پیغمبر انقلابﷺ کے داغ مفارقت کے بعد خلافت اسلامیہ کا باقی رہنا نا ممکن ہے۔کسی جانب مرتدین کا فتنہ تھا تو کہیں منکرین زکوٰة سر اٹھا رہے تھے اور کہیں مدعیان نبوت سر اٹھا رہے تھے۔ اور جیش اسامہؓ کی روانگی کا مسئلہ بھی سنگین صورت اختیار کر چکا تھا۔ مگر قربا ن جائیے نبیﷺ کی صحبت و تربیت یافتہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی جرات اور قیادت پر کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے زندہ ہوتے ہوئے دین میں ذرہ برابر میں کمی نہ ہوگی۔ غور کیجیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان مسائل کو فقط اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتے ہوئے جب قدم بڑھاتے ہیں تو فتنہ و فساد کا سیلاب خس و خاشاک کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ آج اگر سرکار مدینہ ﷺ بھی ہوتے تو بالکل یہی اقدامات کرتے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کسی غیر مسلم سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جس کی انجام دہی میں مسلمانوں کو اللہ کے احکامات پر عمل میں رکاوٹ پیش آئی ہو۔جو ادارے یا ملک اس وقت پاکستان کا خیر خواہ بن کرہماری کسی طرح کی بھی امداد کر رہا ہے وہ اس امداد کے عوض یہاں بر سرپیکار کفریہ قوتوں پر نرمی اور آزادی کا خواہاں ہے تاکہ یہاں اسلام مخالف نظریات و عقائد پنپ سکیں۔سیدنا صدیق اکبرؓ کے دور کی اسلامی خلافت آج کے پاکستان سے بڑی تھی، مگر انہوں نے آج کے جدید آلات و سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ آج کوئی بھی حکمران ایسا کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتا ہوگا۔ اسوہ صدیقی پر عمل درآمد کرنے میں ہی ہماری ہر طرح کی کامیابی و بقا مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صدیقی ایمان، جرات و ولولہ عطا فرمادے، آمین۔
Muhammad Irfan Ul Haq Advocate
About the Author: Muhammad Irfan Ul Haq Advocate Read More Articles by Muhammad Irfan Ul Haq Advocate: 30 Articles with 73824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.