کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ کرپشن
کے فیض سے کوئی شخص راتوں رات قومی ہیرو بن جائے گا؟ ۵۱جنوری ۰۴۹۱ءکو ضلع
احمد نگر (مہاراشٹر)کے ایک گاﺅں بھنگر میں پیدا ہوئے کشن راﺅ ہزارے ایسے ہی
خوش قسمت ہیرو بن گئے ہیں۔ان کے والد بابو راﺅ بھنگر میں ایک وید کے
دواخانے میں معمولی ملازم تھے۔ ۰۵۹۱ء میں نوکری چھوڑ کر اپنے آبائی گا ﺅں
رالے گن سدھی (مہارا شٹرا) آگئے۔ ان کے لئے چھ بچوں کی پرورش ایک مسئلہ تھی،
چنانچہ انکی ایک لاولد بہن کشن عرف انا کو اپنے ساتھ ممبئی لے آئیں جہاں
انہوں نے ساتویں تک پڑھا اور پھر ایک پھول والے کی دوکان پر کام کرنے لگے ۔
پیسہ کمانے کا گر وہ جلد ہی سیکھ گئے اور اپنی دوکان الگ کر لی۔ انکی
ماہانہ آمدنی آٹھ سو روپیہ تک پہنچی جو ۰۶۹۱ءکی دہائی میں کم نہ تھی۔مگر
۳۶۹۱ءمیں وہ فوج میں بحیثیت ٹرک ڈرائیور بھرتی ہوگئے۔ ۵۶۹۱ءمیں ہند پاک
مسلح جھڑپوں کے دوران ان کا ٹرک پاکستانی فائرنگ کی زد میں آگیا جس میں وہ
اکیلے زندہ بچے۔دس سال بعد۵۷۹۱ء میں فوج کی نوکری چھوڑ کر اپنے آبائی گاﺅں
آبسے۔
پہاڑیوں کے درمیان آباد تقریبا چار سو گھروں پر مشتمل رالے گن سدھی کی
آبادی ڈھائی ہزار کے قریب ہے۔کاشت اور دودھ کی فروخت معاش کا ذریعہ ہیں۔
انا نے دیکھا کہ غربت کا مارا پورا گاﺅں شراب میں ڈوبا ہوا ہے۔ چھوٹے سے گاﺅں
میں شرا ب کی تیس سے زائد بھٹیاں چل رہی ہیں۔ایک مندر میں عام باشندوں سے
حلف لینے کے بعد انہوں نے عورتوں اور نوجوانوں کو ساتھ لیکر شراب کے خلاف
مہم چلائی۔ کچھ بھٹیاں خود بند ہوگئیں باقی کو ہلہ بول کر جبراً بند کرا
دیا گیا۔ اس کے باوجود جن لوگوں نے شراب نہیں چھوڑی ان پر برسرعام کھمبوں
سے باندھ کر کوڑے برسائے گئے۔
اس کے بعد برسات کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ان کی تحریک پر
تالابوں کی فصیلیں بنائی گئیں۔ بڑے پیمانے پر شجرکاری کی گئی ۔ زیادہ پانی
سے پیدا ہونے والے گنے کے بجائے کم پانی سے پیدا ہونے والی نقد فصلوں کی
کاشت کے ترقی یافتہ طریقوں کے استعمال سے کسانوں کی حالت بہتر ہوئی ۔ اچھی
نسل کی گایوں کی بدولت دودھ کی پیدوار ایک سو لیٹر سے بڑھ کر ڈھائی ہزار
لیٹر یومیہ ہوگئی۔ کچھ بندوبست بچوں کی تعلیم کا بھی ہوا۔ اس طرح یہ چھوٹا
سا گاﺅں ایک مثال بن گیا۔انا ہزارے کو اس سے شہرت ملی۔
ایک چھوٹے سے گاﺅں تک محدود سہی مگر انا ہزارے کی یہ خدمات لائق تعریف ضرور
ہیں۔ اس کے باوجود نظریاتی اعتبار سے ان کو گاندھیائی لیڈر قرار دینا درست
نہیں۔ ان کے طور طریقے اور اصول گاندھی جی سے بالکل جدا ، بلکہ متضاد ہیں۔
ہرچند کہ گاندھی کی ہی طرح ہزارے بھی بڑے گہرے مذہبی ہندو ہیں، البتہ
گاندھی جی ہندو قوم کے جتنے بڑے محسن ہوئے ہیں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔
گاندھی جی کی ساری سیاسی زندگی بنیادی طور سے ہندو رخی ضرور تھی مگر وہ بڑے
گہرے سیاسی مفکر بھی تھے۔جبکہ ہزارے صرف سماجی کارکن ہیں۔ گاندھی کے فلسفہ
کی اساس عدم تشدد کے نظریہ پر قائم ہے۔جس کے انا قائل نہیں۔ گاندھی جی
’مقصد‘ اور اس کے ’حصول کے ذرائع‘ دونوں کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ انکا قول
ہے: ’تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔‘ وہ اس بات پر بڑا زور دیتے تھے کہ نصب
العین کتنا ہی پاکیزہ اور ارفع کیوں نہ ، اس کے حصول کے لئے پرتشدد یا غیر
اصولی طریقہ کار کا کوئی جواز نہیں۔‘ ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے:’وہ کہتے
ہیں ذرائع تو بس نصب العین کو حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ میں کہونگا نہیں
ذریعہ ہی تو سب کچھ ہے۔ جیسا طریقہ اختیار کیا جائے گا ویسا ہی اس کا نتیجہ
بھی ہوگا۔اگر ہم طریقہ کار یا ذریعہ حصول کی فکر رکھیں گے تو یقیناً دیر
سویر سہی اپنے نصب العین کو حاصل کر ہی لیں گے۔“ جبکہ انا ہزارے ذریعہ یا
طریقہ کار کو ایسی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ مقصد کے حصول کے لئے بلیک میلنگ اور
داداگیری کو برا نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں آخر بچے کو سدھارنے کے لئے ماں
بھی تو اپنے بچوں کو مارتی پیٹتی ہے۔“کرپشن کے خلاف انکی مہم کے دوران جب
کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ سیاسی بلیک میلنگ کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا اس
میں کوئی حرج نہیں۔ان کے بعض دیگر بیانات اور اقدامات میں ان کے تشدد پسند
فلسفہ کی روح صاف نظر آتی ہے۔ گاندھی جی کے بنیادی نظریہ سے اختلاف اور
طریقہ کار سے انحراف کے باوجود انا ہزارے کو ’گاندھیائی لیڈر‘ قرار دینا
گاندھی جی کے ساتھ سخت ظلم ہے۔ گاندھی جی کے قتل کے ساٹھ سال بعد ایک ایسے
شخص کو گاندھیائی لیڈر قرار دینا جو سراسر ان کے فلسفہ کی قولاًو عملاً
تکذیت کرتا ہو ’گاندھی ازم‘ کی توہین ہے۔ سچائی یہ ہے گاندھی جی کے ساتھ
انا ہزارے کا کوئی موازنہ ہی نہیں جا سکتا۔ انا نے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں
سماجی اور معاشی اصلاح کے لئے جو خدمت انجام دی، وہ لاکھ قابل ستائش سہی
مگر قومی سیاست میں گاندھی کے کردار اور ان کے مقام ومرتبہ کے مقابلے وہ بے
حیثیت ہے۔ گاندھی جی اعلا تعلیم یافتہ تھے۔انہوں نے انگلینڈ سے وکالت کی
ڈگری حاصل کی تھی۔تاریخ، مذہبی اور سیاسی فلاسفی کا ان کا مطالعہ بہت وسیع
تھا۔ اپنی تحریکی زندگی کا آغاز اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت برطانوی
آمریت کے خلاف جنوبی افریقہ سے کیا تھا اور اپنے سیاسی فلسفہ کی بدولت
عالمی شہرت حاصل کی ۔ ان کا فلسفہ سیاسیات کے طلباء کا ایک خاص موضوع ہے۔
ان کے ذہن کی وسعتوں کا کوئی موازنہ کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا
جو صرف درجہ سات تک پڑھا ہو، ذاتی مطالعہ چند کتابوں تک محدود ہو اور فوج
میں ٹرک ڈرائیور کے منصب سے فارغ ہو ۔البتہ انا ہزارے کو اس دور کا گاندھی
پکارنے سے انکی اس فکر پر پردہ ضرور پڑجاتا ہے جو سنگھ سے زیادہ ہم آہنگ
ہے۔
بدعنوانی کے خلاف انا ہزارے کی تحریک کو جیسی زبردست تائید حاصل ہوئی ،اس
سے یقیناً یہ پتہ چل جاتا ہے کہ پوری قوم بدعنوانی کی مار سے کس قدر عاجز
آچکی ہے۔سوامی اگنی ویش ، کرن بیدی، انوپم کھیر جیسے جانے مانے سماجی کارکن
اور فلم کلاکار بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے ۔ بظاہر انہوں نے سیاست دانوں
کی سرگرم معاونت سے گریز کیا، لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ بھوک ہڑتال کے
دوسرے ہی دن ناگپور سے نئی دہلی تک ملک کے متعدد شہروں میں اور آسٹریلیا
اور امریکا میں جو مظاہرے ہوئے کیا وہ از خود ہوگئے ؟ امریکا کے ۵۴ شہروں
سے مظاہروں کی خبریں آئیں۔کئی یورپی ممالک میں بھی احتجاج ہوا ۔ ذرائع
ابلاغ را ت دن اسی ایک خبر کی پبلسٹی میں مصروف رہے۔ کیا یہ سب کچھ منصوبہ
بندی اور کثیر مالی وسائل کے بغیر ممکن ہے؟کیا انا ہزارے کے پاس ایسے وسائل
ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ظاہر ہے : کوئی اور ہے اس پردہ زنگاری میں۔
یہ پس پردہ کون ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے اس خاص موقع پر غور کیجئے
جس پر اچانک یہ تحریک چھیڑی گئی۔چار ریاستی اسمبلیوں آسام، کیرلہ، تمل ناڈو
، مغربی بنگال اور پانڈیچیری میں انتخابی مہم شروع ہوتے ہی، ایک ایسے مدعے
پر ملک گیر تحریک کھڑی کرنا جس کو بھاجپا نے اپنا انتخابی موضوع بنایا ہوا
ہے کیا معنی خیز نہیں ہے؟ آر ایس ایس نے جس طرح اس مہم کی پشت پناہی کی اور
بھگوا لیڈروں نے مرکز کو نشانہ بنایا اور انا ہزارے نے جس طرح اس موقع پر
مودی کی مدح سرائی کی کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ آخر مودی کی مدح سرائی کا یہ
کونسا موقعہ تھا؟ تحریک بدعنوانی کے خلاف چلائی گئی اور تعریف مودی کے
ترقیاتی منصوبوں کی گئی؟ اس مدح سرائی سے ان چار ریاستوں کے رائے دہندگان
کو کیا پیغام دینا مقصود تھا جہاں الیکشن جاری تھے؟ اس پر مودی نے جو سیاست
کی ہے وہ بھی غور طلب ہے۔ ان تمام کڑیوں کو ملانے سے جس تصویر صاف ابھرتی
ہے وہ یہ ہے کہ یہ تحریک انا ہزارے کو مہرہ بنا کر اسمبلی انتخابات میں
بھاجپا کو فائدہ پہنچانے کی چال تھی جس کو مرکز نے بڑی خوبصورتی سے ناکام
کردیا۔ لوک پال بل کے مسودہ سازی کے لئے کمیٹی بنانے کے مطالبہ کو حکومت نے
بغیرحیل و حجت منظور کر کے رائے دہندگان کو یہ پیغام دیدیا کہ سرکار خود اس
عفریت کو زیر کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ یہ مرکز کی شکست نہیں ہے۔یوں بھی لوک
پال بل ۷۷۹۱ءسے التوا میں پڑا ہے۔ جسے مرار جی دیسائی کے دور وزارت عظمیٰ
میں اس وقت کے وزیر قانون شانتی بھوشن نے لوک سبھا میں پیش کیا تھا۔ وزیر
اعظم منموہن سنگھ خود چاہتے ہیں کہ بدعنوانی پر لگام لگے۔ چنانچہ انہوں اس
موقع سے فائدہ اٹھا لیا ہے۔یہ ایک دانشمندانہ اقدام ہے ،جس کا خیر مقدم کیا
جانا چاہئے۔
انا ہزارے کی تحریک کے محرکات پر غور کئے بغیر ہمارے متعدد مسلم قائدین نے
بھی ان کی تائید فرما دی۔ ان میں کئی ایسی اہم شخصیات بھی ہیں جو ’مودی
نوازی‘ اور ’مورتی ‘ کو ایشو بناکر دارالعلوم دیوبند کے منتخب مہتمم کے
خلاف شدید جذبات کا اظہار فرماتی ہیں۔ ہم ان کے جذبات کا احترام کرتے ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے اخباروں میں اپنا نام چھپوانے کی عجلت میں
یہ نہیں دیکھا کہ انا ہزارے ’بھارت ماتا‘ کی جس تصویر کے سائے میں بیٹھ کر
یہ مہم چلا رہے ہیں، وہ اسی دیوی کی مورت ہے جو آر ایس ایس کی مخصوص
تقریبات میں نمایاں طور پر آویزاں کی جاتی ہے؟دوسرے یہ کہ انا ہزارے کی اس
مہم کا عنوان صرف ’مالی بدعنوانی‘ ہے۔ان کو اس سیاسی بدعنوانی سے پریشانی
نہیں ہوتی جس کی ملک کی اقلیتیں ، خصوصاً مسلمان پچھلے ساٹھ سال سے شکار
ہیں؟مودی نے جس کا نشانہ ان کو بنا رکھا ہے۔ جامع مسجد دہلی کے محترم امام
سید احمد بخاری نے گزشتہ جمعہ کو اپنے خطبے میں اسی سوال کو اٹھایا ہے۔”اگر
انا ہزارے واقعی گاندھی کے پیروکار ہیں تو پھر بابری مسجد انہدام کے بعد
۳۹۹۱ء میں ممبئی میں اور گودھرا واقعہ کے بعد گجرات میں معصوم مسلمانوں کے
قتل عام کے وقت وہ کہاں تھے؟“ (ختم)
مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں |