اپنی جاں نذر کروں

وہ طیارہ گرنے سے سات منٹ پہلے مے ڈے کال دے چکے تھے ۔ طیارے کے ایک انجن سے دھواں نکل رہا تھا اور وہ طیارے پر سے اپنا کنٹرول کھورہے تھے ۔کاشن ملتے ہی آرمی ریسکو کی ٹیمیں متحرک ہوگئیں ۔ طیارے کی ممکنہ کریش لینڈنگ لوکیشنزکو مارک کرلیا گیا ۔ دونوں پائلٹس لیفٹیننٹ کرنل ثاقب اور لیفٹیننٹ کرنل وسیم انتہائی تربیت یافتہ اور ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔پائلٹس نے طیارے کا رخ آبادی سے موڑ کر ویرانے کی جانب کردیا ‘ رفتار کم کرنے کے لیے انجن آف کردیئے گئے لیکن انجن سے نکلنے والادھواں آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوچکاتھا ۔ یہ آرمی ایوی ایشن کا FL-766بیچ کرافٹ کنگ ائیر 350طیارہ تھا جو عموما رسدپہنچانے ‘ سگنل کیریئر ‘ مانیٹرنگ ‘ ایمبیرگو مومنٹس اور شورش زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کے آپریشنز میں استعمال کیا جاتاہے ۔حادثے سے تین منٹ پہلے دونوں پائلٹس طیارے پر سے مکمل کنٹرول کھو چکے تھے۔ آگ طیارے کے اندر پھیل چکی تھی یہ وہ وقت تھا جب جہاز سے ایجیکٹ کیا جاسکتا تھا ۔ مگر سات ہزار کلو وزن کا طیارہ تین سوبیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اگر آبادی پر گر جاتا تو یہ کسی قیامت صغری سے کم نہ تھا ۔رات کے پچھلے پہر سکون کی نیند سوئی سینکڑوں زندگیاں ایک لمحے کے اندر جلی ہوئی نعشوں میں تبدیل ہوجاتی اور بحریہ ٹاؤن فیز سیون کاتمام علاقہ جنگ سے تباہ حال شہر حلب کا منظر پیش کررہا ہوتا ۔پاک فوج کے جانباز پائلٹس اس نقصان سے آگاہ تھے۔ وہ آخری لمحے تک طیارے میں رہے ‘اس کی رفتارکوکم کرنے اور طیارے کو آبادی سے جتنا ممکن ہوسکے‘ دور لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔آگ کے شعلوں میں جلتا ہواطیارہ جب موڑہ کلو نامی دیہات میں گرا تو اس وقت جہاز عمودی سمت میں نیچے آرہا تھا ‘کیمرے پر ریکارڈ ہوجانے والے ان مناظر کو دیکھ کر ہر شخص پائلٹس کی جوانمردی پہ عش عش کر اٹھا ۔کیونکہ بڑی تباہی سے بچنے کے لیے یہ وہ آخری حربہ تھا جو پائلٹس نے آزمایا کہ آخری لمحوں میں جہاز کو سلائیڈ لینڈنگ کروانے کے بجائے اس کا رخ زمین کی جانب موڑ دیا جائے تاکہ طیارہ گرنے سے محدود علاقہ اس کی زد میں آئے ۔جس جگہ طیارہ گرا ۔وہ بحریہ ٹاؤن کے فیز7کا مضافاتی علاقہ تھا۔طیارے کی زد میں دو گھر آئے جو مکمل تباہ ہوگئے ۔طیارے میں سوار دونوں پائلٹس سمیت عملے کے پانچ افراد اور دونوں گھروں کے مکین سمیت دیگر بارہ افراد شہید ہوگئے ۔آگ نے آس پاس کے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے دس کے قریب لوگ زخمی ہوئے ‘ ریسکو کی ٹیمیں جوپہلے سے ہی الرٹ تھیں ‘ طیارے کی لینڈنگ لوکیشنزکی طرف دوڑ پڑیں اوربروقت حادثے کی جگہ پہنچ کر آگ پر جلدقابو پالیا۔یہ سوچ کر ہی رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ اگر پائلٹس( جن کے پاس اپنی زندگیاں بچانے کا آپشن موجود تھا) طیارے سے ایجیکٹ کرجاتے اور خدانخواستہ یہ طیارہ بحریہ ٹاؤن میں بلند و بالا بلڈنگز اورگھروں کو روندتا ہوا دور نکل جاتا تو حادثے کے دن ہم لاتعداد انسانی نعشیں گن رہے ہوتے اور نقصان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوتا ۔اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر آخر ی لمحوں تک طیارے کو سنبھالنے اور مقامی آبادی کو بڑے جانی و مالی نقصان سے بچانے والے ان جانباز فوجی پائلٹوں کوقوم سلام پیش کرتی ہے ۔اﷲ تعالی شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے ۔ یہ حادثہ 30جولائی 2019ء کی نصف شب کے لمحات میں موڑہ کلو گاؤں کے عین وسط میں پیش آیا جس میں دونوں پائلٹس‘ لیفٹیننٹ کرنل ثاقب، لیفٹیننٹ کرنل وسیم، نائب صوبیدار افضل، حوالدار ابن امین اور حوالدار رحمت کے علاوہ عملے کے مزید تین ارکان اور 13 شہریوں سمیت 18 افراد شہید ہوئے ۔ جبکہ 16 زخمی ہو گئے۔یہاں میں ایک اور واقعے کا ذکر کرتا چلوں جوافواج پاکستان کے تینوں شعبوں کے افسروں اور جوانوں کی اپنی قوم سے والہانہ محبت کا شاہکار ہے ۔ فلائنگ آفیسر وجاہت حسین نے ایک دن شورکوٹ ائیر بیس سے پرواز کی ۔ پرواز کے دوران ہی طیارے میں اچانک خرابی پیدا ہوگئی ۔ کنٹرول روم سے رابطہ ہوا تو وہاں سے جہاز کو چھوڑنے کا حکم ملا۔ ادارے کے نزدیک پائلٹ ‘ طیاروں کی نسبت زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ‘ طیارے تو پھر خریدے جاسکتے ہیں لیکن تربیت یافتہ پائلٹ بننے میں عرصہ دراز لگتا ہے ۔ فلائنگ آفیسر وجاہت نے کنٹرول روم سے کہا میں اس لیے طیارے کو خیر بادنہیں کہہ سکتا کہ شورکوٹ شہر نیچے ہے ‘ طیارہ گرنے سے بے شماراموات اور مالی نقصان ہوگا ‘ میں طیارے کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہوں‘ وقت گزرنے کے ساتھ ہی طیارہ بلندی سے زمین کے قریب آتا جارہا تھا ‘ پائلٹ کی ہمت سے شورکوٹ شہر تو بچ گیالیکن طیارہ اس قدر نیچے آچکا تھا کہ شہر کے ریت کے ٹیلوں میں جاگھسا۔پھرایک زور داردھماکہ ہوا۔ فلائنگ آفیسر وجاہت حسین کا جسم اور طیارہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ریت کے ذرات میں جا ملا۔ یہ 1986ء کاسانحہ ہے جب وجاہت حسین شہیدکے سے والد(پروفیسر محمد حنیف جھنگ) سے لاہور میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ شہید کی ڈائری کے ایک ورق پر یہ تحریر درج ہے کہ میں چارپائی پر لیٹ کر نہیں مرنا چاہتا ‘ میں اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرناچاہتا ہوں۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 668995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.