اللہ تعالیٰ نے غوروفکر کی ترغیب
دیتے ہوۓ فرمایا
افلم ینظرو االسّماء فوقھم کیف بنیناھا و زّینّاھا ومالھا من فروج ہ ق/6
یہ لوگ اپنے اوپر آسمان کو کیوں نہیں د یکھتے کہ ھم نے اس کو کیونکر بنایا
اور اس کو کیونکر سنوارا ہے اور اس کے اندر کوئی رخنہ نہیں ہے-
نیز اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش پر غور کرنے والوں کی
مدح کی ہے، فرمایا:
و یتفکّرون فی خلق السّماوات و الارض ربّنا ما خلقت ھذا با طلا آل عمران/191
اور آسمان و زمین کی خلقت پہ غور کرتے رہتے ہیں( اور کہہ اٹھتے ہیں کہ) اے
ہمارے رب تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں پیدا کیا-
اللہ تعالیٰ نے بار بار کے اعادے اور تکرار کے ساتھہ اپنے علم،قدرت اور
حکمت پر آسمان اور زمین کی بناوٹ،رات دن کی آمدورفت،روشنی اور تاریکی کی
کیفیت،چاند سورج ستاروں کے حالات سے استدلال کیا ہے- لہٰذا ان کے حالات پر
غورفکر کرنا اور ان پر بحث کرنا اور انکا علم حاصل کرنا باعث ثواب اور باعث
تقویت و فروغ ایمان ہے، نیز یہ کہ جس چیز سے انسان میں دنیا کی تحقیر اور
آخرت کی رغبت کا قوی جذبہ پیدا ہوجاۓ وہ عمل صالح ہے- فلکیات کا علم دنیا
کی حیثیت کو ریت کے ذرّے سے بھی حقیرتر ثابت کرتا ہے اور ایک غور کرنے والے
کے دل سےاسکی محبّت کو نفی کرتا ہے-
جو لوگ سائنس کی مشکل اصطلاحات اورانگریزی زبان سے کم واقفیت رکھتےہیں-
طبیعیات کی دقیق زبان اور نیوٹن،آیئن سٹایئن ، شروڈنگر اور اسٹیفن ہاکنگ
وغیرہ جیسے سایئنسدانوں کے نظریات و نظری اختلافات سے کم یا عدم واقفیت کے
با وجود اس میدان میں دلچسپی رکھتے ہیں- راقم الحروف نے ان لوگوں کے لیے
موجودہ جدید نظریات و انکشافات کو آسان اردومیں بیان کرنےاوران افراد میں
اس باعث ثواب غوروفکر کا رجحان بڑھانے کے لیے ایک چھوٹی سی کوشش کا آغاز
کیا ہے-
قرانی حکم کو بجا لانے کے لیے اور خدا کی بڑائی اور تکبیر کا تھوڑا سا
اندازہ کرنے کے لیے کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے جدید آلات کے
ذریعے مشاہدات اور جدید دوربینوں سے حاصل ہونے والی معلومات کو آسان زبان
میں ڈھال کر یہ مقصد حاصل کیاجا سکتا ہے-ا س خلائی دور میں جبکہ غیر مسلم
علماء اس میدان میں اپنے عروج پر پہنچے ہوۓ ہیں، ہم ان کے ذریعے حاصل کی
گئی معلومات اور مشاہدات کا مطالعہ کر کے کم از کم اس حکم کی تھوڑی بہت بجا
آوری اور اپنے ایمان وا یقان میں اضافہ کر سکتے ہیں-
ہم صرف حتمی اور ثابت شدہ مشاہدات اور نظریات کو اپنے مطالعہ کے لیے
استعمال کریں گے لیکن روز افزوں ہونے والی تحقیقات اور مشاہدات سے بھی
استفادہ کرتے رہیں گے- مثال کے طور پہ وقت کے سکڑاؤ کا مشاہدہ اس آیت کو
سمجھنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں 1000 ا ور 50000 دنوں کے برابر
دن کا ذکرہے، اور اجرام فلکی کے اپنے اپنے فلک میں تیرنے کا ذکر جو جدید
مشاہدے کے عین مطابق ہے وغیرہ-
یہ یاد رہے کہ ہر مشاہدہ یا مفروضہ اس وقت حتمی نظریہ بن جاتا ہے جب:
1۔ وہ تجرباتی طور پر ثابت ہو جاۓ اورا طلاقی طور پر زیر استعمال آجاۓ-
مثال کے طور پہ آئن اسٹائین کا وقت کے سکڑاؤ کا نظریہ جو تجرباتی طور پر
ثابت ہو چکا ہے اور اطلاقی طور پر جی پی ایس کے نظام میں بھی استعمال ہو
رہا ہے- جس میں کسی فاصلے اور راستے کو صحت کے ساتھ محسوب کرنے کے لیے وقت
کے سکڑاؤ کے جز کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ریاضی کے کلیّے میں جزو درستگی کی
حیثیت سے استعمال کر کے نتیجے میں اعلیٰ درستگی اور صحت حاصل کی جاتی ہے-
ہم سب جی پی ایس کو آج کل ستعمال کر رہے ہیں-
اور خلاء کے کروی ہونےکا نظریہ جس سے کششی عدسے کا اثر دریافت ہوا جسے اب
دور افتادہ خلاء کی پہنائیوں میں واقع فلکی اجسام کو مزید واضح طور پر
دیکھنے کے لیے فلکی تجربہ گاہ کے طور پہ استعمال کیا جا رہا ہے نیز کششی
عدسے کی صلاحیت انعطاف کو استعمال کرنے سے ایسے اجرام فلکی بھی قابل مشاہدہ
ہو گئے ہیں جو کسی اور فلکی جسم کے پیچھے چھپے ہوۓ ہیں-
۲۔ اسے کسی ستقبل قریب یا بعید میں ہونے والے واقعہ کی پیشن گوئی کے لیے
استعمال کیا جاسکے- ایک سادہ مثال کے طور پہ بوائل کا گیس کا قانون یہ پیشن
گوئی کرتاہے کہ دباؤ بڑھانے سے گیس کے حجم میں ایک خاص شرح سے کمی واقع
ہوگی- تجربہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے-
اس وقت حال یہ ہے کہ طبیعیاتی اور فلکیاتی سائینس میں بے شمار حیران کن
مشاہدات بہت تیزی سے اور روزانہ ہو رہے ہیں- صرف ا یک فلکی مشاہدے کا تجزیہ
کرنے کے لیے سالہا سال درکار ہوتے ہیں جبکہ صرف ہبل دوربین دسیوں ہزار
تصویریں اور عکس خلاء سے زمین پر بھیج چکی ہے جو کہ مرئی اور غیر مرئی
دونوں قسم کی روشنی کی شعاؤں کو محسوس کرنے والے آلات سے کھینچی گئی ہیں –
ہبل کے علاوہ درجنوں اور دوربینیں ان فلکی مشاہدات میں ہمہ وقت مصروف عمل
ہیں! اس لیے عملی طور پر یہ سائینس صرف مشاہداتی سائینس ہو کے رہ گئی ہے جس
نے انسان کو متحیّر کر کے رکھ دیا ہے- حسّاس سے حسّاس تر آلات کی ایجادوں
نے مشاہدے کو اپنے عروج پہ پہنچا دیا ہے- اور یہ کہنے پہ مجبور کر دیا ہے
کہ ربّنا ما خلقت ھذا با طلا ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کا وجود ایک خاموش اعلان ہے- اس پر غوروفکر "عقلمند لوگوں" میں ،انسان
کی فطرت میں مضمر، معرفت رب کو شعوری سطح پرلاتا ہے- معرفت رب کے بغیر
انسان اور کائنات کے بارے میں سوالات انسان کو بے چین کیے رہتے ہیں- اس
غورو فکر کے ذریعے معرفت رب حاصل ہونے سے کائنات کی گتّھی کا سرا
اولولالباب(عقل سلیم والوں) کے ہاتھ آجاتا ہے-
سورۂ آل عمران190-191 میں اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا:
انّ فی خلق السّموات والارض واختلاف الیل و النھار لایات لاولی الباب ہ
بے شک آسمانوں ورزمین کی تخلیق میں اور شب و روز کے بدلنے میں عقل مندوں کے
لیے نشانیاں ہیں-
الذین یذکرون اللہ قیاما"وقعودا" وّ علی' جنوبھم و یتفکّرون فی خلق
السّموات والارض ج ربّنا ما خلقت ھذا باطلا ج سبحنک فقنا عذابا النّار ہ
جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی
تخلیق پر غور کرتے رہتے ہیں- (اور وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے
یہ سب بے مقصد نہیں بنایا- تو پاک ہے پس بچا لے ہمیں آگ کے عذاب سے-
ان دو آیات میں سے دوسری آیت میں دو افعال " ذکر" اور " فکر" کا بیان ہے جو
عقلمند لوگ ہر وقت کرتے رہتے ہیں، یعنی یذکرون اور یتفکّرون - ہر وقت اس
لیے کہ زندہ انسانی جسم کی جن حالتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ کسی
اور حالت میں نہ کسی انسان کو دیکھا گیا ہے نہ ہی اسکے بارے کسی کو کوئی
علم ہے، یعنی کھڑے،بیٹھے اور لیٹے، لہٰذا ہر وقت -
ذکر اور فکر کی تعریف علماء نے اس طرح کی ہے:
ذکر: استحضار اللہ فی القلب یعنی دل میں اللہ کو حاضر رکھنا
فکر: استحضار المعرفتین لحصول المعرفتھ الاخری' یعنی دو چیزوں کو سامنے
رکھہ کر تیسری چیز کو پہچاننا
معرفت رب انسانی فطرت میں مضمرہے-اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کسی
منطقی دلیل کی ضرورت نہیں- مگر بھول،غفلت یا ماحول کے اثرات سے فطرت پر
پردے پڑ جاتے ہیں- آیات آفاقی پر غور و فکر ان پردوں کو اٹھاتا ہے اور
خوابیدہ حقائق کو بیدار کرتا ہے- اس عمل کو تذکیر یعنی یاد دھانی کہتے ہیں-
ذکرو فکر کے نتیجے میں کائنات کی ہر شے بامقصد نظر آتی ہے- لیکن خارج میں
نیکی مغلوب اور بدی غالب دکھائی دیتی ہے-جبکہ کائنات کی مقصدیت کا تقاضا ہے
کہ مکافات عمل ہو اور نیکی کا بدلہ اور بدی کی سزا ملے ۔ آیت کا آخری حصّہ
سبحنک فقنا عذابا النّار بہت معنی خیز ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عقلمند لوگ
کائنات پر غور کے نتیجے میں یہ جان لیتے ہیں کہ بدی کی سزا ملے گی اس لیے
عذاب سے بچنے کی فورا" دعا کرتے ہیں-
انسانی زندگی کے گوناگوں مسائل کے حل تک ذکراور فکر کے بغیر نہیں پہنچا جا
سکتا-
انسانی عقل فکر کی اس تعریف کے عین مطابق کام کرتی ہے- ہر زمانے میں سائینس
کے علماء اسی طرز فکر پہ کام کرتے رہے ہیں- یہی سائینس کے منہاج کی اساس ہے-
مثال کے طور پہ اگر کوئی چیز دو بار سامنے سے یکساں وقفے سے گزرے تو قوی
امید ہے کہ وہ تیسری بار بھی اس وقفہ کے بعد گزرے گی اور اگر ایسا ہو جاۓ
تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ چیز دائرے میں گردش کر رہی ہے- دوسرے
الفاظ میں اگر کوئی چیز دائرے میں گردش کر رہی ہے تو کو از کم دو بار اس
چیز کا یکساں وقفہ سے سامنے سے گزرنا اسکی دائرے میں گردش کو ثابت کرے گا-
ماوراۓ نظام شمسی سیّاروں کی دریافت میں اسی طرز فکر سے کام لیا گیا ہے،۔۔۔۔۔۔۔
یہی طرز فکر فطری ہے یعنی قرآنی ہے- |