دنیا میں بہت کم خوش نصیبوں کو ملک ملک کی سیاحت نصیب
ہوتی ہے اورانہیں رنگِ ہست وبود کے نظاروں سے مستفید ہونے کے مواقع میسر
آتے ہیں۔یہ مشغلہ جتنا دلچسپ ہے اتنا ہی مشکل بھی کیونکہ اس کے لیے مال
ودولت، صحت وتندرستی، وقت،حالات اور توفیق باللہ کا ہو نا ضروری ہے۔
ناصر ناکا گاواپر اللہ کا خاص احسان ہے کہ وہ اپنے ذوقِ تجسس کو پورا کرنے
کے لیے __جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے __اب تک پچیس سے زیادہ ممالک کے نظاروں کو
اپنی چشمِ بینا میں اتار چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے:
جب تک ہاتھ پاؤ ں میں سفر کرنے کی ہمت باقی ہے تو خواہش یہی ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی بنائی ہوئی زمین کی خوبصورتیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں اور
زیادہ سے زیادہ ممالک کی سیر اور خوبصورت دوستوں میں اضافہ کر سکوں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس خواہش کو پورا کرتا رہے۔اب آگے بڑھنے سے
پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ناصر کا تعارف نہایت اختصار سے پیش کر دیا
جائے تاکہ قارئین کو اس سے بھی آگاہی رہے۔ناصر ناکا گاوا 3/ستمبر 1964ء کو
کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کراچی کے
تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔کراچی یونیورسٹی سے بی۔ کام اور اکنامکس میں
ایم۔ اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوکر جاپان چلے گئے
اور 1988ء سے یہیں آباد ہیں۔انہوں نے اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغاز ہٹاچی
ٹیلیویژن اور لیور برادرز پاکستان سے کیا اور پھر جب جاپان سکونت اختیار کی
تو وہاں ناکاگاوا گلوبل کمپنی قائم کی جس کے وہ چیرمین ہیں۔جاپان میں
بہترین مترجم کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اس حیثیت سے وہ جاپان کی
عدالتوں، پولیس، امیگریشن میں مترجم کے طور پر خدمات سر انجام دیتے ہیں
علاوہ ازیں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ان کی خدمات سے استفادہ کرتی ہیں۔انہیں
بیک وقت اردو، انگریزی اور جاپانی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔
میں آج ان کی جس ادبی کاوش کو زیر بحث لا رہی ہوں، وہ ہے ان کا سفر
نامہ“دیس دیس کا سفر”جو سویڈن، فن لینڈ،رومانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ،
کینیڈا اور انڈونیشیا جیسے ترقی یافتہ ممالک کی سیاحت پر مبنی ہے۔میں نے اس
سفر نامے کے چند صفحات کی ورق گردانی کی تو مجھے کافی دلچسپ لگا اور میں نے
اسے اوّل تا آخر پڑھ ڈالا اور ارادہ کر لیا کہ اس پر اظہار خیال بھی کروں
گی۔چنانچہ جب میں نے اس سفر نامے کانظرِ عمیق سے مطالعہ کیاتو اسے بہت ہی
معلومات افزا پایا۔مجھے مصنف کا اندازِ تحریر سادہ، بناوٹ سے پاک اور شگفتہ
لگا۔اس سفر نامے کو پڑھنے کے بعد ناصر کی شخصیت کا جو تاثر ابھرتا ہے؛ وہ
کچھ یوں ہے کہ وہ انتہائی ملنسار انسان ہیں جو رنگ ونسل، مذہب، علاقائی
تعصب اورلسان و زبان وغیرہ سے بالا تر ہو کر دوستی کے سچے رشتے سے دوسروں
کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ وہ جس کسی ملک کی بھی سیاحت
کرتے ہیں، دوست ان کے استقبال کے لیے آنکھیں بچھاتے نظر آتے ہیں۔ان کے حلقہ
احباب کا ایک جم غفیرہے جس میں زبان دان، ادیب، شاعر، صحافی، صنعت کار،
انجینئر، ڈاکٹر، سفارت کار،سیاست دان وغیرہ سب شامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ
سویڈن کے ڈاکٹر عارف محمودہوں یافن لینڈ کے چودھری تنویر، رومانیہ کے سلیم
چیمہ ہوں یاجکارتہ کے ان کے میزبان وجے سیٹھ پترا ہوں، نیوزی لینڈ کے سید
طارق ہوں یاآسٹریلیا کے طارق مرزا یا پھرکینیڈا کے میزبان سید توصیف ہوں؛
وہ ہر ایک کی دل کھول کر تعریف و توصیف کرتے ہیں اور اپنے سفر نامے میں ان
کا بھرپور تعارف کراتے ہیں۔مثلاً:”میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب انسان
تصور کرتا ہوں۔جب میں ایسے دوستوں سے ملتا ہوں تو مجھ میں مزید توانائی
پیدا ہوجاتی ہے۔“اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا حلقہ احباب کس قسم کا ہے
کیونکہ سچ ہے کہ”انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے“ناصر اپنے دوستوں کے
خاکے اس خوب صورتی سے کھینچتے ہیں کہ ان کی مکمل تصویر قاری کی آنکھوں کے
سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً:ہیلسنکی کی بندرگاہ پر ان کا استقبال کے لیے آنے
والے چودھری تنویرکے بارے لکھتے ہیں۔”میں تیز تیز قدموں سے شوٹ سے باہر
نکلاتو سامنے ہی ایک سوٹ میں ملبوس ایک شخصیت کے مالک لمبے تڑنگے، سرخ
وسپیدرنگت والے کشمیری تنویرچوہدری صاحب بانہیں پھیلائے کھڑے تھے“۔
ناصر کی تحریر پر تکلف اورمقفی ومسجی نہیں بلکہ عام فہم اور پر
تاثیرہے۔اپنے سفر کے دوران وہ جو محسوس کرتے ہیں اور جس کا مشاہدہ کرتے
ہیں؛ بعینہٖ صفحہ قرطاس کی زینت بنا دیتے ہیں۔گویا تحریر مرچ مسالے سے پاک
ہے۔اپنے سفر کے دوران انہیں اکثر ادبی محافل میں شرکت کے مواقع بھی میسر
رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے قاری کو ادبی ذوق رکھنے والی شخصیات سے بھی متعارف
کراتے جاتے ہیں۔ان کے یہ دوست وطن عزیز سے دور رہ کر جس طرح زبان و ادب اور
ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ادب دوست
انسانوں کے بہت قدردان ہیں بلکہ کینیڈا کی سیاحت کے دوران وہ خود اعتراف
کرتے ہیں۔”میرے کینیڈا کے اس پانچ روزہ دورے کا آج چوتھادن تھامگر میں
کینیڈا کی کوئی خاص سیر نہ کر سکاالبتہ عظیم شخصیات سے ملاقاتیں خوب رہیں“۔
ناصرسیاحت کے دوران مقامی کرنسی اور اس کی ویلیو، جغرافیائی خد وخال،
تاریخی حقائق، برآمدات، معشیت،سیاست، سماجی ویلیوز، طرزِ معاشرت، انسانی
رویوں اور بود وباش کا ذکر بھی اکثر کرتے ہیں۔ چنانچہ آسٹریلیا کی سیاحت کے
دوران سڈنی میں سیاحوں کے لیے اندرونِ شہر فری بس سروس کی سہولت کو قابل ِ
ستائش قرار دیتے ہیں۔مصنف نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ۔
ہوٹل کے قریب ہی ایک ٹیکسی والے سے پوچھا کہ میں اس علاقے کی آدھے گھنٹے تک
سیر کرنا چاہتا ہوں، مجھے لے چلو اور پھر یہیں چھوڑ دیناتو اس نیک انسان نے
کہا کہ جناب یہ آپ کے ہوٹل کے اسٹاپ سے جو بسیں گزر رہی ہیں ان میں بیٹھ
جائیں تو پورے علاقے کا 35 منٹ میں ایک چکر لگا کر آپ کو یہیں چھوڑ دے
گی۔اور اگر آپ بس سے نہ بھی اترنا چاہیں تو پھر بھی رات آٹھ بجے تک یہ بس
آپ کو باربار چکر لگواتی رہے گی۔۔۔ اور آپ سے ایک ڈالر بھی طلب نہیں کیا
جائے گا۔
مصنف چونکہ صرف سڈنی کی سیاحت کرکے واپس لوٹ گئے اس لیے انہوں نے محض سڈنی
کی فری بس سروس کا ذکر کیا ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ آسٹریلیا کے تمام بڑے
شہروں میں یہ سہولت میسر ہے۔”دیس دیس کا سفر“ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ
مصنف نے اس میں جن ممالک کی سیاحت کی تفصیل درج کرتے ہوئے دو ممالک کی
مماثلت اور مقابلت پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔مثلاً؛ انہیں جاپان اور
آسٹریلیا میں جو مماثلت نظر آئی، اس پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جاپان کی طرح آسٹریلیا کا بھی کوئی سرکاری مذہب نہیں اور ہر مذہب کو آزادی
حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے عقائد کے مطابق عبادت کریں اور عبادت
گاہیں تعمیر کریں مگر دوسروں کی پریشانی کا باعث نہ بنیں۔۔۔مہذب اور ترقی
یافتہ معاشروں میں انسانیت کو اولیت حاصل ہے۔یہاں خواندگی کی شرح بھی جاپان
کی طرح تقریباً صد فی صد ہے۔
اسی طرح جاپان اور سویڈن کے حکمران کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
زمان خان نے بتایا کہ سویڈن کے بادشاہ کا شمار دنیا کے امیر ترین بادشاہوں
میں ہوتا ہے اور سویڈن کی قدیم و قیمتی عمارتیں اور بڑے بڑے فارمز اس کی
ملکیت ہیں۔مجھے اپنے جاپان کے بادشاہ کا خیال آگیاجن کا کوئی بنک اکاؤنٹ
بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے نام کوئی زمین یا جائدادہے اور نہ ہی جاپانی
شاہی خاندان کے کسی فرد کی کوئی کمپنی یا فیکٹری ہے۔
پھر ناصرپاکستان کے شہر کراچی اوررومانیہ کے شہر بکا ریسٹ کا موازنہ کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ ”شہری حدود میں داخل ہوکر عین مرکز میں پہنچے تو گمان
ہوا کہ ہم کراچی میں گھوم رہے ہیں چوڑے کشادہ روڈ اور اونچی نئی پرانی
عمارتیں، بوسیدہ اور پلستر ادھڑے ہوئے فلیٹس اور بازاروں میں لوگوں کی بھیڑ
تھی“۔اس کے برعکس رومانیہ کی شرح پیدائش انہیں جاپان جیسی لگتی ہے۔لکھتے
ہیں کہ”رومانیہ کی آبادی تقریباً ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے اور یہاں بھی شرح
پیدائش جاپان کی طرح بہت کم ہے“۔(جاری ہے)۔ |