امریکہ سے باہر دنیا کو امریکہ ایک خوشنما،ترقی یافتہ
بنیادی سہولیات سے آراستہ ملک کے طور پر دکھایا جاتا ہے،لیکن جب امریکہ کے
اندر جھانکا جاتا ہے تو یہ تصویر انتہائی بد صورت دکھائی دیتی ہے۔اب وہاں
سے یہ اطلاعات ہیں کہ امریکہ میں بے گھر افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو
رہا ہے۔ آپ صرف کیلی فورنیا کو ہی دیکھ لیں کہ اس میں 16ہزاربے گھر افراد
کا رات کو گاڑیوں میں سونے کا انکشاف ہوا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این
این کے مطابق امریکہ میں بے گھر افرادکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے
اور ان بے گھر افراد میں سے کئی ہزار افراد ایسے ہیں جو مالی وسائل میں کمی
کے باعث گھر خریدنے یا کرائے پر نہ لینے کے سبب اپنی گاڑیاں کسی بھی
ہسپتال،کلب،چرچ یا کسی محفوظ جگہ پارک کر کے اس میں گزارنے پر مجبور ہیں۔آن
لائن ٹیکسی سروس اوبر کو ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرنے والی خاتون لارن کش
اپنی کار کو دو مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔36سالہ لارن ایک بے گھر
خاتون ہیں جو دن میں ٹیکسی چلاتی ہیں مگر ہر رات وہ اسی کار میں سوتی ہیں
اپنی گاڑی کی عقبی سیٹ کو بطور بستر استعمال کرتی ہیں۔لارن کش نے لاس
اینجلس میں مکان کرایہ پر حاصل کرنے کی استطاعت ختم ہونے پر دیگر افراد کی
طرح اپنی کار میں ہی سونے کا فیصلہ کیا جہاں ایک بیڈ روم کے مکان کا اوسط
کرایہ 2350ڈالر ماہانہ ہے ،لارن کش کیلی فورنیا کے ان 16ہزار بے گھر افراد
میں سے ایک ہیں جو گھر کرایہ پر نہ لینے کے سبب اپنی کار میں سونے پر مجبور
ہیں۔لارن نے سی این این کو بتایا کہ عموماًـ نیندمیں سے کئی بار بیدار ہونا
پڑتا ہے کیونکہ کار میں سونا آرام دہ نہیں ہے اور میرا قد پانچ فٹ چھ انچ
ہے جس کے باعث میری ٹانگیں ٹھیک طرح سے سیدھی نہیں ہو پاتیں۔چند روز قبل یو
ایس ڈپارٹمنٹ اینڈ اربن ڈیولپمنٹ نے اپنی پریس ریلیز میں اعتراف کیا تھا کہ
کیلی فورنیا میں رواں سال بے گھر افراد کی تعداد میں 2.7 فیصد اضافہ ہوا
ہے۔ایسے ہی مجبور بے گھر افراد کے لئے لاس اینجلس کے علاقے کوریا ٹاؤن میں
واقع چرچ انہیں مارچ 2018ء سے رات میں گاڑیاں پارک کرنے کی محفوظ سہولت
فراہم کر رہا ہے۔لوگوں بالخصوص خواتین بے گھر افراد کا کہنا ہے کہ یہاں
گاڑیاں پارک کر کے اس میں سوتے وقت انہیں اپنی عصمت دری یا رہزنی کا کوئی
خطرہ درپیش نہیں ہوتا یہ ایک محفوظ ترین جگہ ہے۔چرچ کے ساتھ کئی این جی اوز
بھی شراکت دار ہیں جو ان بے گھر افراد کو نہانے کی سہولت بھی فراہم کرتی
ہیں کہ کاروں میں سونے والے افراد کے لئے بنیادی سہولتوں کا بڑا فقدان ہے ۔یاد
رہے کہ امریکہ میں بے گھری کا مسئلہ کئی دہائیوں سے جاری مسئلہ ہے امریکہ
میں آج بھی ہر رات تقریبا ساڑھے پانچ لاکھ افراد سڑکوں اور پبلک شیلٹرز میں
سوتے ہیں۔کیا یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت؟کیا یہ ہے ترقی یافتہ ملک
امریکہ؟جس میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ میں مزید بڑھتے مالیاتی
بحران کی وجہ امریکی طلبہ بنیں گے۔دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت امریکہ میں
طلبہ اس وقت مجموعی طور پر اتنے زیادہ مقروض ہیں کہ ملکی تاریخ میں اس کی
کوئی مثال نہیں ملتی۔عام شہریوں کے لئے گھر خریدنے کے لئے حاصل کردہ قرضوں
کے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ قرضے یہی طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے
لیتے ہیں ۔اسی صورتحال کے پیش نظر مالیاتی امور کے کئی ماہرین اب ان خدشات
کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ آیا مستقبل میں یہی طالبعلم امریکہ کے لئے ایک
نئے بہران کی وجہ بن جائیں گے۔ چوالیس لاکھ مقروض امریکی طلبہ کے ذمے
ریاستی قرضوں کی مجموعی مالیت 1.5ٹریلین (1500بلین) ڈالر بنتی ہے۔ اسی
صورتحال کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ پر مجموعی طور پر
قرضوں کا جتنا بھی بوجھ ہے، اس میں سے ریاست کی طرف سے طلبہ کو دی جانے
والے تعلیمی قرضوں کا حصہ قریب سات فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی کئی
ملین امریکی طلبہ کو نجی شعبے کے مالیاتی اداروں اور بنکوں سے حاصل کردہ
64.2بلین ڈالرز کے قرضے بھی واپس کرنا ہیں۔ آج ہر امریکی طالب علم اوسطاً
بیس ہزار سے لے کر پچیس ہزار ڈالرز تک کا مقروض ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے
کہ دنیا بھر میں سات کروڑ سے زائد انسان جنگوں اور دیگر تنازعات کے باعث بے
گھر ہیں۔
امریکہ میں صرف بے گھر افراد، مقروض طلبہ ہی نہیں بلکہ اقتصادی بحران کی
وجہ سے چھ کروڑ سے زائد افراد غربت کے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں، غربت کی
حد سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں میں زیادہ تعداد سیاہ فاموں کی ہے۔ اقوام
متحدہ کے نمائندہ انسانی حقوق پروفیسر فلپ السٹون کی تیارکردہ بیس صفحات پر
مشتمل رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ لمحہ موجود میں امریکی پالیسیوں سے
ایک طرف تو امراء دونوں ہاتھوں سے خوب دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں تو دوسری
طرف یہی پالیسیاں اور منصوبے ملک کو غربت کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔
امریکہ میں متوسط طبقے کی غیر معمولی تعداد غربت کے دہانے پر ہے۔ اقوام
متحدہ کا کہنا ہے کہ غریب امریکیوں کو مشکل ترین معاشی حالات میں دھکیلنے
کی ذمہ دار ٹرمپ انتظامیہ ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان اس بڑھتے ہوئے فرق
کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ، اقوام متحدہ سے ناراض ہوگیاہے۔
امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پر منافقت اور
باڈی ارکان پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی رکنیت
چھوڑنے کا اعلان کر دیاہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی یہ کونسل برائے
انسانی حقوق 2006ء میں قائم کی گئی تھی۔
|