امریکہ کا جنگی جنون .2......

بغداد میں امریکی سفارت خانے پر مشتعل مظاہرین کے حملہ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے سینکڑوں اضافی امریکی فوجیوں کو مشرق وسطی میں تعینات کردیا ہے۔ایران کی جانب سے انتقام کے انتباہ کے بعدیہ امریکہ کا احتیاطی اقدام ہے جو امریکی اہلکاروں اور سہولیات و تنصیبات کے خلاف خطرے کی گھنٹی بجنے اور اس میں اضافے کے ردعمل میں اٹھایا گیا ہے۔ کیا ٹرمپ دنیا بھر میں امریکی مفادات کا تحفظ کرسکے گا۔جب کہ مشرق وسطٰی میں امریکی پالیسیوں کے مخالفین بھی ایران کے انتقام میں اعلانیہ یا مخفی تعاون کر سکتے ہیں۔ تا ہم کسی بھی حملے کا الزام ایران پرہی لگے گا۔ امریکی سفارتخانے پر ''حملے کا ارادہ کر رہا ہے''جیسا الزام ایران پر لگا بھی دیا گیا ہے۔امریکہ دھمکیاں دینے لگا ہے کہ ''ہمارے بہت سارے بڑے جنگجو، ایک ساتھ دنیا کے سب سے مہلک فوجی سازوسامان کے ساتھ فوری طور پر سائٹ پر پہنچ گئے۔'' ''ہماری کسی بھی سہولیات پر ایران کو ضائع ہونے والی جانوں، یا ہونے والے نقصانات کے لئے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ وہ بہت بڑی قیمت ادا کریں گے! یہ کوئی انتباہ نہیں، دھمکی ہے۔''افغانستان سے ترکی تک جہاں بھی امریکی فوجی اڈے ہیں، ان ممالک کے عوام امریکہ کو جارحیت پسند ملک قرار دیتے ہیں۔ عراقیوں نے بھی امریکی حملوں کی مذمت کی ہے اور بغداد نے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لے گا۔ امریکی فضائی حملوں پر حکومت کی تنقید کا اعادہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی عراقیوں سے غیر ملکی سفارتخانوں سے دور رہنے کی تاکیدکر رہے ہیں۔اگر چہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ فون پر گفتگو میں وزیراعظم مہدی نے امریکہ کو یقین دلایا کہ بغداد امریکی اہلکاروں اور املاک کے تحفظ کی ضمانت دے گا، امریکہ بھی عراق میں موجود اپنے تقریباً 6ہزار اہلکاروں کے محفوظ ہونے کی اطلاع دے رہا ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ بغداد میں سفارت خانہ خالی کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔امریکیوں پر حملوں سے یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین عراق تصادم کا میدان بن سکتا ہے۔ واشنگٹن اور ایران کے مابین تناؤ بڑھ رہا ہے، سفارتی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تہران کے حامی امریکی مفادات اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔اگر ایران کو افغان مجاہدین جیسے صف شکن دستیاب ہو گئے تو وہ دنیا بھر میں امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔
افغانوں نے جس طرح دنیا کے دو سوپر پاورز اور ان کے اتحادیوں کو بدترین شکست دی ہے، اسی طرح اگر ایران کی سرپرستی میں مشرق وسطیٰ میں ہی امریکیوں پر حملے شروع ہو گئے تو یہ تباہ کن ثابت ہوں گے۔ ایران کی جانب سے غیر متعینہ '' کارروائی'' کے بارے میں انتباہ کے دوران امریکہ نے گزشتہ سال مئی میں عراق میں اپنے سفارتی مشن سے تمام غیر ضروری عملہ کو واپس بلا لیا تھا۔ واشنگٹن نے تہران کو ستمبر میں سعودی عرب کے تیل تنصیبات اور مئی اور جون میں خلیج میں ٹینکروں کی توڑ پھوڑ کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا ۔عراق میں تہران کے حمایت یافتہ متعدد ملیشیا گروپ سرگرم ہیں۔ امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران عراقیوں نے امریکی اور اتحادی فوج کی میزبانی کرنے والوں پر 11 حملیکئے ہیں۔ جمعہ کے روز کرکوک کے قریب راکٹ حملہ پہلا حملہ تھا جس میں ایک امریکی شہری ہلاک ہو، یہ واشنگٹن کے لئیریڈ الرٹ تھا۔2003 میں امریکہ کی زیرقیادت حملے میں صدام حسین کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد ہی ایران اور امریکہ عراق میں مرکزی غیر ملکی اداکار ہیں۔ شیعہ رہنماؤں کو، جن میں سے بہت سے ایران سے تاریخی روابط رکھتے ہیں اور صدام کے دور میں اسلامی جمہوریہ میں جلاوطنی میں وقت گزارا، تب سے عراقی سیاست پر غلبہ حاصل ہے۔

کیا اب مشرق وسطی میں امریکی دور کا اختتام ہو رہا ہے۔ اگر عراق میں ایران نواز گروہوں نے امریکی کارروائی اور امریکی مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوششکی تو کم از عراق میں امریکی دور ختم ہونے سے بچ نہ سکے گا۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا سخت بدلہ لینے کا وعدہ کیا ہو گا۔ مشرق وسطی میں، محاذ آرائی کے ان خطرات نے ہائی الرٹ کردیا ہے۔اڈے، بندرگاہیں اور دوسری تنصیبات جہاں امریکی فوج مقیم ہے یا گزرتی ہے، الرٹ ہوں گے۔ پینٹاگون مزید 3500 فوجی بھیج رہا ہے، جبکہ اٹلی میں فوجیوں کو کوچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔مبصرین جائزہ لے رہے ہیں کہ کون کون سی امریکی تنصیبات فوری طور پر حملوں کا ہدف بن سکتی ہیں۔ ان میں عراق اور شام سر فہرست ہیں۔ افغانستان میں 14ہزار کے قریب امریکی فوجی ہیں، افغانستان کے بارے میں انتباہ ہے کہ وہ ''امریکی - ایران کے مقابلے کا ایک اور میدان بن سکتا ہے''۔ نومبر میں، ٹرمپ نے افغانستان کے بگرام ہوائی اڈے پر تعینات فوجیوں کا اچانک دورہ کیا۔کویت میں 13ہزار سے زیادہ فوجی موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کا معاہدہ ہوا ہے۔ 3000 کے قریب امریکی فوج اردن میں عراق، شام، اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سے متصل ہے۔ سعودی عرب میں 3ہزار سے زیادہ فوجی ہیں۔ اکتوبر میں، امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ تناؤ کے طور پر اضافی فوج سعودی عرب بھیج رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران طویل عرصے سے علاقائی حریف رہے ہیں۔ یمن میں ایک درپردہ جنگ چل رہی ہے۔ امریکہ اور مغرب مسلم دنیا کو شیعہ سنی میں تقسیم کر کے انہیں آپس میں کئی بار لڑا چکی ہے۔ اس تقسیم سے مغرب بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے۔ امریکہ اور مسلم دش،من چاہتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انہیں دو بلاکوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک بلاک کی سرپرستی سعودی عرب اور دوسرا ایران کی پشت پناہی میں آپس میں متصادم ہو۔ اس طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لڑے بغیر مقاصد حاصل ہو جائیں۔ امریکہ قدرتی ذخائے سے مالا مال مسلم دنیا کے وسائل کو لوٹنے کے لئے ہی یا حکمرانوں کے سیاسی مفادات کے لئے یہ کھیل، کھیل رہا ہے ۔ واشنگٹن نے ایران پر سعودی عرب میں تیل اور گیس کی سہولیات پر حملہ کرنے کا الزام بھی اسی تناظر میں عائد کیا ،جس کی ایران نے تردید کی ۔بحرین میں امریکی بحریہ کا ایک اڈہ موجود ہے، جہاں سات ہزار اہلکار تعینات ہیں یا وہاں سے گزرتے ہیں۔جزیرے کی قوم سعودی عرب کی قریبی اتحادی ہے اور اس نے ایران کے بارے میں ٹرمپ کے جارحانہ موقف کی حمایت کی ہے۔عمان میں صرف چند سو فوج موجود ہے۔ مارچ میں، اس معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں امریکی طیاروں اور جنگی جہازوں کوعمان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ عمانی ہوائی اڈے اور بندرگاہیں سمیت سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمان آبنائے ہرمز کے قریب جزیرہ نما عرب کے ساتھ ہے، جو دنیا کا سب سے اہم ترین حصہ ہے ۔متحدہ عرب امارات آبنائے ہرمز کے قریب ایک اور ملک ہے جس نے حالیہ برسوں میں زیادہ سے زیادہ 5 ہزارامریکی فوجیوں کی میزبانی کی۔ یہ روایتی طور پر سعودی عرب اور متحدہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے متحدہ عرب امارات کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔قطر مشرق وسطی میں امریکی فوجی اڈوں کا سب سے بڑامرکز ہے جہاں 13ہزار سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں۔ ۔ 2018 میں، قطر کے اڈے کو اپ گریڈ کرنے کے لئے 1.8 بلین ڈالرکے منصوبہ کا اعلان کیا گیا۔ترکی نے انکرلک ایئر بیس پر امریکی فوجیوں کے ساتھ ساتھ دیگر ایسی جگہوں کی بھی میزبانی کی ہے جہاں نیٹو افواج تعینات ہیں۔جاری۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488168 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More