تاریخ کی گرد میں گندھی عزی کی کہانی

عزیٰ کی کہانی*

آپ سب نے تاریخ اسلام میں *نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم* کی آمد سے پہلے کے تین مشہور بتوں کا ذکر تو سنا ہوگا ،
لات
منات
اور عزیٰ،
ان بتوں کے بارے میں سرسری سا تو آپ پڑھ چکے ہیں
آج آپ کو اس تفصیل سے آگاہ کرتا ہوں جو تاریخ کی کتابوں میں موجود تو ہے
لیکن اس کی مکمل تفصیل سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔

عرب کے لوگ گمراہ ضرور تھے
لیکن بہت ذہین اور سمجھدار تھے،
تمام تر وحشیانہ پن اور خونریزی کی فطرت کے باوجود بہت ہی زیرک اور منطقی انداز فکر رکھتے تھے ۔
یہ لوگ بت پرستی کی جانب کیوں کر راغب ہوئے
یہ ایک سوچنے والی بات ہے،
میں نے تاریخ کے اس سچ کو کھنگالنے کی کوشش کی تو کچھ چیزیں سامنے آئیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ لات منات اور عزیٰ کے یہ تینوں بت خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے
جن کو فتح مکہ کے دور میں *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* نے توڑ کر خانہ کعبہ سے باھر پھنکوا دیا تھا۔

لات منات عزیٰ کے یہ تینوں بت خانہ کعبہ میں باقی بتوں کے ساتھ موجود تھے لیکن،
اب آپ کو تاریخ کی ایک نئی بات بتاتا ہوں جس پر مسلمان غور کرنے کی بجائے آگے نکل جاتے ہیں۔
یہ بت جو خانہ کعبہ میں نصب تھے ان کو آپ علامتی یا ڈمی بت کہہ سکتے ہیں
اصل بت جن کے مندر بنے ہوئے تھے اور ان مندروں میں ان بتوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ عرب کے مختلف علاقوں میں موجود تھے۔
جن بستیوں میں ان بتوں کے مندر بنے ہوئے تھے ان بستیوں کے اردگرد کے رھنے والے عرب یہاں مندروں میں آ آ کر ان بتوں کی عبادت کرتے ان کے چڑھاوے چڑھائے جاتے یہاں تک کہ ان بتوں کے سامنے جانوروں کی قربانی کی مَنتیں پوری کی جاتیں۔
ان کے سامنے قربان گاہیں بنی ھوتی جہاں جانوروں کو لا کر ذبح کیا جاتا۔
حیرت انگیز بات تھی کہ ان بتوں کو ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا۔

جیسا کہ اوپر لکھا کہ یہ حیران کن بات تھی کہ اسقدر ذہین عرب ان بے جان بتوں کی عبادت پر کیسے لگ گئے تھے،
ان بتوں میں ایسا کیا تھا کہ ان کو پوجنے والوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ھوتا چلا جا رہا تھا۔
یہ بت ان عربوں کو ایسا کیا دکھاتے تھے کہ یہ عرب ان کی عبادت پر مجبور تھے؟
لات منات اور عزیٰ یہ تین دیویاں تھیں۔
ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں،
*استغفراللہ استغفراللہ*
عربوں کے ھاں یہ بات بہت مشہور تھی اس لئے ان کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کی جاتی تھی،
یہ تینوں زنانہ بت پورے عرب میں سب سے زیادہ مشہور تھے،
ان بتوں کے ساتھ تین شیطانی چڑیلیں منسلک تھیں۔
لفظ چڑیل آپ دوستوں کو آسانی سمجھانے کے لئے استعمال کیا ھے ۔ دراصل یہ شیاطین کی نسوانی صنف تھی۔
یعنی مونث شیاطین تھیں۔
یہ بتوں میں گھس جایا کرتیں اور اپنے سامنے سجدے کرنے والوں کو مخاطب کرکے ان سے باتیں کرتی تھیں۔
کیونکہ یہ شیاطین جنات تھیں اس لئے ان لوگوں کو جب ان کے ناموں سے پکارتیں اور ان کے مسائل پر بات کرتیں تو سننے والے اپنے ذاتی مسائل جن سے صرف وہ خود آگاہ ہوتے پریشان ہوجاتے اور سوچنے لگتے کہ یہ بت واقعی *نعوذباللہ* خدا کی بیٹیوں کے ہی بت ہونگے،
ان بتوں کی دیکھ بھال اور لوگوں کو ان کی عبادت کے طریقے سکھانے کے لئے مندروں میں پجاری ہوا کرتے تھے جو لوگوں کو گمراہ کرتے اور اس کے عوض بتوں پر چڑھاوے کی اشیا سمیٹتے اس طرح گمراہی کا یہ کھیل جاری و ساری تھا۔

لات منات اور عزیٰ کو سب سے زیادہ مانا جاتا تھا لیکن ان تینوں میں سے بھی سب سے زیادہ جسے بلند مقام حاصل تھا اس کا نام عزیٰ تھا۔ لفظ عزیٰ عزت سے نکلا ہے جس کے معنی سب سے زیادہ قابل عزت کے ہیں۔
عزیٰ کا یہ بت خراض نامی ایک بستی میں واقع تھا۔
یہ بستی وادی نخلہ میں سوق عکاظ کے قریب واقع تھی،
یہ وہی مقام ھے جس کی قریب جنات کی ایک جماعت نے *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* سے ملاقات کی اور آپ نے ان کو دعوت اسلام دے کر مسلمان کیا تھا۔

عزیٰ کے بت کا ایک شاندار مندر بنایا گیا تھا، اس مندر میں دوبیہ اسوینی نامی ایک پجاری عزیٰ کے بت کی دیکھ بھال اور خدمت کرتا تھا۔ مندر کے سامنے تھوڑے فاصلے پر جھاؤ کے تین درخت تھے ۔اردو میں اس درخت کو جھاؤ کہا جاتا ہے جبکہ ہندی میں تمرس اور عربی میں اثل کہتے ہیں۔
یہ ایک خودرو صحرائی پودا ہوتا ہے ،
اجاڑ اور بیابان صحراؤں میں پیدا وتا ہے
اس کے پتے انتہائی کسیلے اور کڑوی ہوتے ہیں اس کی ٹہنیوں سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں۔
جھاؤ کے ان درختوں پر عزیٰ کا بسیرا تھا،
اس بارے میں کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ عزیٰ بت جس کی پوجا کی جاتی ہے ایک شیطانی طاقت تھی جو ان درختوں پر رہتی تھی جو اسی کےمندر کے قریب تھے ۔
جب کبھی لوگ اس کی پوجا اور چڑھاووں اور منتوں کے لئے آتے تھے تو وہ مندر کے بت میں داخل ہوکر بولتی تھی لوگوں کے مسلے اپنی شیطانی قوتوں سے حل کرتی تھی اور ان کو بھٹکاتی تھی اس کا آقاشیطان اس کی اس کارکردگی پر خوش تھا۔
جب مکہ فتح کر لیا گیا تو کچھ دنوں بعد بتون کی شامت ا گئی،
خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بت توڑے جانے لگے اور اصل سچے رب کا نور چمکنےلگا۔
خانہ کعبہ سے بتوں کو ہٹانے کے بعد مختلف دیہاتوں بستیوں میں بنے مندروں کے بتوں کی باری آ گئی،
چھوٹے موٹے بتوں کو تباہ کرنے کے بعد عزیٰ کی باری آ گئی ۔
25 رمضان المبارک کو *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* نے *حضرت خالد بن ولید* کو طلب فرمایا۔
انسانی تاریخ کے سب سے قابل ترین جرنیل خالد رضی اللہ کو عزیٰ کی تباہی کا مشن سونپا گیا۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے خالد رضی کو حکم دیا کہ وہ عزیٰ کے مندر کے قریب تین جھاؤ کے درختوں میں سے ایک کو جا کر کاٹ دیں۔ آپ رض *بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم* سے حکم پا کر خراض بستی میں پہنچے۔
مندر کو تلاش کیا اور اسکے قریب واقع جھاؤ کے درختوں میں سے ایک کو کاٹ دیا اور واپس آ گئے۔
جب آپ رض *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخت کا ٹنے کا حال بتا دیا۔
اس پر *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے پوچھا اے خالد رض جب آپ درخت کاٹ رہے تھے تو اس دوران کوئی واقعہ پیش آیا ؟ *حضرت خالد بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* میں نے کوئی بھی واقعہ رونما ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔
اس *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے دوبارہ حضرت خالد کو حکم دیا کہ آپ دوسرا درخت بھی کاٹ دیجئیے۔
ایک بار پھر حضرت خالد رض وہاں پہنچے اور درخت کاٹنے کے بعد واپس *آقا صلی اللہ علیہ وسلم* کی خدمت میں درخت کاٹنے کا احوال بیان کی،
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے ایک بار خالد سے استفسار کیا۔
اے خالد رض اس بار جب آپ درخت کاٹ رہے تھے تو اس بار کوئی واقعہ پیش آیا؟
حضرت خالد نے عرض کیا *یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* اس بار بھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے ایک بار پھر حضرت خالد رض کو تیسرے درخت کو کاٹنے کا حکم دے کر بھیجا۔

تیسری بار جب حضرت خالد بن ولید رض تیسرے درخت کے قریب اسے کاٹنے کی نیت سے پہنچے تو اچانک عزیٰ نامی چڑیل آپ رض کے سامنے ظاہر ہوگئی۔
وہ ایک کریہہ صورت ننگی بڑھیا کے روپ میں تھی اور شعلے برساتی آنکھوں سے حضرت خالد کو گھورنے لگی،
اچانک مندر کا پجاری بلند آواز سے پکار کر بولا ۔ عزیٰ ! خالد کو قتل کر دے اگر تو نے خالد کو قتل نہ کیا تو آج تو ذلیل و رسوا ہو جائے گی۔
عزیٰ حضرت خالد کی جانب بڑھی،
*آپ رضی اللہ* نے تلوار نکالی اور *اللہ کریم* کا نام لے کر عزیٰ پر حملہ کر دیا۔
پہلے ہی وار میں عزیٰ کا سر تن سے جدا ہو گیا۔
اس کے زمین پرگرتے ہی اس کا جسم دھڑ دھڑ جلنے لگا تھوڑی دیر بعد آپ رض کے سامنے کوئلے کا ایک ڈھیر پڑھا ہوا تھا۔
آپ رض نے اسے قتل کرنے کے بعد اس کے بت کے بھی ٹکڑے کر دئیے ۔
پھر اس کے بعد مندر کے پجاری کو بھی قتل کر کے واپس روانہ ہوئے ۔
اپ رض اللہ نے سارا قصہ *حضور صلی اللہ علیہ وسلم* کے گوش گزار کیا۔
اس پر *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا ۔ یہ عزیٰ تھی،
اب یہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ہے اس کی دوبارہ اب پوجا نہیں ہو گی،
اور یوں صدیوں تک پوجی جانے والی شیطانی طاقت کا خاتمہ
*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم* کے حکم پر سیف اللہ خالد رضی اللہ عنہ نے کر دیا۔

_(بلوغ الارب ۔ جلد سوئم ، سفحہ نمبر 81 )_*عزیٰ کی کہانی*
 

Rana Amir Roy
About the Author: Rana Amir Roy Read More Articles by Rana Amir Roy: 20 Articles with 30205 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.