عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت

برصغیر کی تاریخ میں بہت سے ہندو شعرا ایسے ملتے ہیں جنھوں نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں اپنا شعری کلام لکھا اور آپ ان ہندو شعرا کو انٹرنیٹ پر بھی باآسانی تلاش کر سکتے ہیں اور کتابوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں..مگر میں برصغیر کے جس ہندو شاعر کے بارے میں بتانا چاہ رہا ہوں اس کے بارے میں شاید ہی کم لوگ جانتے ہوں اور مختصر وقت میں میرے تلاش کرنے کے باوجود بھی ان کا کچھ کہیں سے ذکر تک نہ ملا..شاید تاریخ انھیں بڑے شعرا میں شمار نہیں کرتی ہوگی یا پھر وہ عام سا غریب انسان ہوں گے جس کا تاریخ میں ذکر کم سے کم مجھے تو نہیں ملا۔.وہ شاعر اپنے کلام میں بھی خود کو ہندو کہتے تھے مگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جس کا انھوں نے اپنے کلام میں بھی اظہار کیا..ان کا نام دلو رام کوثری تھا اور کوثری کو بطور تخلص اپنی شاعری میں استعمال کرتے تھے..وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کلام میں لکھتے ہیں.

کیا پہنچا جو فلک پر یہ مسیحا پہنچا
مقصود کو اپنے نہ سکندر
پہنچا
اللہ رے غنی کوثری اتنا
چالاک
گنگا سے پھسلا لب کوثر
پہنچا

دلو رام کوثری کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی میت کے وارث ہندو بھی بنے اور مسلمان بھی..مسلمان سمجھتے تھے کہ وہ چونکہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہ صرف مدح سرائی کرتے تھے بلکہ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تھے اور اوپر بیان کردہ ان کا کلام اس بات کی کھلی گواہی دے رہا اس لیے وہ ہندو نہیں بلکہ مسلمان تھے اور ہندوؤں کے فساد کے خدشے سے مصلحتا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کیا...

آج بھی ہندوستان میں بہت سے ہندو مسلمان ہونے کے باوجود مصلحتا خود کو مسلمان ظاہر نہیں کرتے کیونکہ وہ ہندوؤں کے زیرعتاب آکر فساد کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے خاندان کو بھی اذیت پہنچائی جاتی ہے..

جبکہ دلو رام کوثری کے دور میں برصغیر میں انگریزوں کی حکومت تھی اور ہندوؤں نے شدت پسندی کو اپناتے ہوئے اس وقت شدھی اور سنگھٹن تحریکیں بھی چلائی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے وہ ہندو جو مسلمان ہو جاتے تھے خود کو ان کے فساد سے بچانے کےلیے مصلحتا اپنا مسلمان ہونا ظاہر نہیں کرتے تھے..

ہندوؤں کا موقف تھا کہ دلو رام کوثری واقعی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرتے تھے اور اپنی شعری میں اس کا برملا اعتراف بھی کیا مگر انھوں نے کہیں پر بھی اپنا مسلمان ہونا نہیں لکھا بلکہ اپنے کلام میں بھی خود کو ہندو لکھا ہے جیسا کہ وہ عرض کرتے ہیں.

کوثری تنہا نہیں ہے مصطفی کے ساتھ ہے
جو نبی کے ساتھ ہے وہ کبریا کے ساتھ ہے
کیوں مگر یہ درپے آزار ہیں اشرار قوم
اس کا کیا کریں گے جو خیرالورا کے ساتھ ہے
لے کے دلو رام کو حضرت گئے جب خلد میں
غل ہوا ہندو بھی محبوب خدا کے ساتھ ہے..

مسلمان اور ہندو اپنے اپنے موقف پر ڈٹے تھے کہ ہندو دلورام کوثری کو ہندو قرار دے کر انھیں جلانے پر مصر تھے جبکہ مسلمان نھیں مسلمان سمجھتے ہوئے ان کا جنازہ پڑھ کر دفانا چاہتے تھے..معاملا انگریز حکومت کی عدالت میں جا پہنچا کہ وقت کی حکومت اور مسند انصاف جو انھیں کے ہاتھ میں تھی..وہاں مسلمانوں اور ہندوؤں نے اپنے اپنے موقف پیش کیے..آخر میں ہندوؤں نے اتنا کہا کہ اول تو انھوں نے اپنے کلام میں بھی خود کو ہندو ظاہر کیا ہے اس بابت بھی ان پر حق ہمارا ہے اور دوسرے مسلمان اگر سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان تھے تو کوئی ایسا گواہ لائیں جس کے سامنے انھوں نے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا اقرار کیا ہو..

مسلمان ایسا گواہ لانے میں واقعی ناکام ہوئے جس کی بنیاد پر انگریز عدالت نے دلو رام کوثری کی میت کو ہندو تسلیم کرتے ہندوؤں کے حوالے کر دیا کہ وہ اپنی رسومات کے مطابق ان کی چتا جلائیں..کہا جاتا ہے کہ جب ہندوؤں نے دلو رام کوثری کی میت کو اپنے تیں جلانے کی پرزور کوشش کی مگر آگ نہ لکڑیوں کو لگی اور نہ ان کی میت کو..آخر تھک ہار کر ہندوؤں نے انھیں مسلمانوں کے حوالے کرتے ہوئے تسلیم کرلیا کہ یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ کچھ عجب داستان ظاہر کرتا ہے..مسلمانوں نے دلو رام کوثری کی میت کو غسل دیا اور ان کا جنازہ پڑھ کر انھیں باعزت طریقے سے دفنا دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے مرنے سے پہلے ہی اپنے کلام میں لکھ دیا تھا کہ

محشر میں دی فرشتوں نے داور کو یہ خبر
ایک ہندو ہے لیکن احمد کا ہے مدح
گر
لے جائیں خلد میں اس کو یا جانب
سقر
فرمایا ذوالجلال نے جنت ہے اس کا گھر..

 

Muhammad Ameer Umar Farooq
About the Author: Muhammad Ameer Umar Farooq Read More Articles by Muhammad Ameer Umar Farooq: 13 Articles with 17469 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.