سپیشل کورٹ غیر آئینی، لیکن کیا مشرف کی سزا بھی ختم ہوئی؟

image


لاہور ہائی کورٹ کے تین رُکنی بینچ کے سپیشل کورٹ کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بعد کیا سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی سزائے موت خود بخود ختم ہو گئی ہے یا ان کی سزا کا فیصلہ ابھی بھی موجود ہے؟

قانونی ماہرین کی رائے اس پر منقسم ہے۔ کیونکہ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ ایک عدالت نے کسی تنازعہ یا مقدمے پر کوئی فیصلہ سنایا ہو اور بعد میں فیصلہ سنانے والی عدالت ہی غیر قانونی قرار دے دی گئی ہو لیکن پھر بھی فیصلہ برقرار رہا ہو۔

کیا عدالت کے ختم ہونے سے فیصلے بھی کالعدم ہوجاتے ہیں؟
لاہور کے ماہرِ قانون اور انسانی حقوق کے فعال کارکن اسد جمال کہتے ہیں کہ سنہ نوے کی دہائی میں ایک شخص محرم علی کو انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔

بعد میں سپریم کورٹ نے دیگر آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کے قانون مجریہ 1997 کو ہی غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان عدالتوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ لیکن انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے موت کے فیصلے پر بعد میں عملدرآمد ہوا تھا۔

اسد جمال کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے جنرل مشرف کے مبینہ ہائی ٹریزن والے مقدمے کی سماعت کرنے والے اور پھر اس کا فیصلہ سنانے والی سپیشل کورٹ کی تشکیل کو درست طریقے کار کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے، لیکن اس سپیشل کورٹ میں سنے گئے مقدے کے میرٹ پر بحث نہیں کی ہے۔

ان کے مطابق اس لحاظ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روح سے یہ سپیشل کورٹ تو ختم ہوجاتی ہے لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس سپیشل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت کیسے ختم ہو سکتی ہے؟
 

image


عدالت غیر قانونی ہو تو اس کے فیصلے بھی غیر قانونی
تاہم سینیئر قانون دان اور سابق وزیرِ قانون ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ جس میں جنرل مشرف کا غداری کا مقدمہ سنا گیا، سپیشل کورٹ کے غیر آئینی قرار دیے جانے سے اس عدالت کی سنائی گئی سزا بھی منطقی طور پر ختم ہوجاتی ہے۔

ایس ایم ظفر کے مطابق، لاہور ہائی کورٹ نے پروسیجر (طریقہِ کار) پر زیادہ غور کیا اور اس درخواست کی سماعت کے دوران یہ دیکھا کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا فیصلہ وزیرِ اعظم نے کیا اور اس فیصلے کی توثیق وفاقی کابینہ سے نہیں لی گئی تھی۔

ماہرِ قانون ایس ایم ظفر نے کہا کہ سپیشل کورٹ کی تشکیل کے لیے بھی وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی تھی بلکہ سپیشل کورٹ کی تشکیل کا سارا زور سپریم کورٹ کی جانب سے ڈالا جا رہا تھا۔

اُن کے مطابق کیونکہ وزیر اعظم اور اس وقت کے چیف جسٹس دونوں ہی ذاتی طور پر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ذاتی طور پر مخالف تھے اور دونوں ہی کو ماضی میں پرویز مشرف سے نقصان پہنچا تھا اس لیے اس معاملے میں ان دونوں حضرات کا تعصب واضح تھا۔

ایس ایم ظفر نے مزید کہا کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرتے وقت سازش کی بات کی گئی تھی لیکن سازش ایک شخص تو نہیں کرسکتا ہے، اس کے لیے ایک سے زیادہ اشخاص درکار ہوتے ہیں۔ لیکن جب غداری کا مقدمہ چلایا گیا تو صرف ایک شخص کے خلاف مقدمہ چلا۔

'اس طرح غداری کے مقدمے کا ریفرنس، سپیشل کورٹ کی تشکیل اور سازش کی بات ان سب نے مل کر اس مقدمے میں نقص پیدا کردیا اور یہ عمل ناجائز ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں اس سپیشل کورٹ کی کاروائی بھی غیر آئینی قرار پائی اور اس کا سنایا گیا فیصلہ بھی غیر موثر ہوگیا۔‘
 

image


فیصلہ سپیشل کوٹ ختم ہوتے ہی باطل ہوگیا
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اور معروف قانون دان عرفان قادر کہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلے میں یہ بات بہت واضح ہے کہ اس سپیشل کورٹ کی تشکیل جس نے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی، آئینی طور پر غلط تھی۔

’جب سپیشل کورٹ کی تشکیل ہی غیر آئینی قرار پائی تو اس کا سنایا جانے فیصلہ اپنی حیثیت میں خود بخود باطل ہوجاتا ہے ۔ عرفان قادر نے کہا کہ سنہ 2007 میں عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک لڑائی جاری تھی، اس وقت کے چیف جسٹس جنرل پرویز مشرف کو نکالنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس لیے جنرل پرویز مشرف نے صدر ہوتے ہوئے اپنے آئینی احتیارات استعمال کیے اور ہنگامی حالات کا اعلان کردیا۔ ’جنرل مشرف کے فیصلے کی سپریم کورٹ نے توثیق کی اور پارلیمان نے بھی اس کی حمایت میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔‘

سابق اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ بعد میں سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو ’غاصب‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے پر زور دینا شروع کردیا۔ ’جنرل مشرف کے مستعفی ہوجانے کے بعد اس وقت کی سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کے مخالف 13 ججوں پر ایک بینچ تشکیل دیا اور سپریم کورٹ کے 14 اور ہائی کورٹوں کے 60 ججوں کو برخاست کر دیا۔

’اس لیے جنرل مُشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کوئی کاروائی بنتی ہی نہیں تھی۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈال کر اس مقدمے کی کاروائی شروع کروائی۔ لیکن وفاقی حکومت نے یہ ساری کاروائی غلط طریقے سے شروع کی۔ سپیشل کورٹ کی فارمیشن ہی غیر قانونی تھی۔ یہاں تک کہ 31 جولائی سنہ 2007 کے جس فیصلے کو بنیاد بنا کر غاصب کی بات کی گئی، وہی مسخ شدہ حقائق کی بنا پر بنایا گیا تھا۔‘

فیصلے سے مزید سوالات نے جنم لیا ہے
ماہر قانون اور یونیورسٹی کالج آف لندن سے وابستہ سینٹر فار لا اکنامکس اینڈ سوسائیٹی کی ریسرچ فیلو، ڈاکٹر عنبر ڈار کے مطابق، لاہور ہائی کورٹ کے اس تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے سے جتنے قانونی نکتوں کے جوابات دیے ہیں اُس سے کہیں زیادہ اس نے سوالات جنم دے دیے ہیں۔

ڈاکٹر عنبر ڈار کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے پرویز مشرف کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کو اس بنیاد پر منسوخ کیا ہے کہ فیصلہ سنانے والی عدالت ہی غیر آئینی تھی، اور غداری کا مقدمہ بھی غیر قانونی طریقے سے بنایا گیا تھا۔

’سپیشل کورٹ کو سنہ 2013 میں کرمنل لا امینڈمینٹ (سپیشل کورٹ) ایکٹ، 1976 کی شق 4 کے تحت بنایا گیا تھا۔ سپیشل کورٹ کی تشکیل کے لیے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی والی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ چیف جسٹس نے تمام صوبوں کی عدالتوں سے سپیشل کورٹ کی تشکیل کے لیے تجاویز مانگیں تھیں۔‘

ڈاکٹر عنبر ڈار کہتی ہیں کہ چونکہ سپیشل کورٹ کو سنہ 1976 کے قانون کے تحت سپریم کورٹ نے تشکیل دیا گیا تھا لہٰذا اب جاننے کی دلچسپ بات یہ ہوگی کہ آئین کے کن کن آرٹیکلز کی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ممکنہ طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘
 

image


’ابھی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے غداری کا مقدمہ شروع کرتے وقت کن کن قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں بظاہر یہ استدلال پیش کیا گیا ہے کہ غداری کا مقدمہ اس وجہ سے قانون کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کا آغاز وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر کیا گیا تھا۔ تاہم یہ واضح طور پر نہیں معلوم کہ کیا سنہ 1976 کے سپیشل کورٹ کے قانون کے تحت سپیشل کورٹ کی تشکیل کے لیے یہ منظوری ضروری تھی؟‘

ڈاکٹر عنبر ڈار کہتی ہیں کہ سنہ 1976 کے اسی قانون کی شق 5 کے مطابق، یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غداری کا مقدمہ سپیشل کورٹ کو بھیجے۔ اس قانون میں وفاقی حکومت کی تعریف نہیں بیان کی گئی ہے، تاہم پاکستان پینل کوڈ میں حکومت کی تعریف کی گئی ہے کہ ’ایسا شخص یا شخصیات جنھیں حکومت پاکستان کے امور سرانجام دینے کے لیے قانون کے تحت اختیارات دیے گئے ہوں۔‘

’جبکہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 90 کہتا ہے کہ دستور کے مطابق ’وفاقی حکومت کی جانب سے وفاق کے عاملانہ اختیار صدر کے نام پر استعمال کیا جائے گا جو وزیرِ اعظم اور وفاقی وزرا پر مشتمل ہوگی، جو وزیرِ اعظم کی وساطت سے کام کریں گے جو کہ وفاق کا چیف ایگزیکٹو ہوگا۔‘

ڈاکٹر عنبر ڈار کہتی ہیں اس سے کچھ بھی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے یعنی وزیرِ اعظم خود بھی اختیارات استعمال کرسکتا ہے یا وزرا کے ذریعے وفاق کے اختیار کو استعمال کرسکتا ہے۔ ’وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس بھی یہ واضح نہیں کرتے ہیں کہ سنہ 1973 کے غداری کے قانون یا سنہ 1976 کے ترمیمی قانون کے تحت کسی معاملے پر کارروائی کرنے کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری ضروری ہے۔‘

’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ سنہ 1976 کا ترمیمی قانون غیر آئینی ہے کیونکہ یہ کابینہ کو اپنے اقدام کے لیے توثیق کے بارے میں خاموش ہے؟‘

لیکن آئین کا آرٹیکل 91 کہتا ہے کہ ’صدر کو کارہائے منصبی کی انجام دہی میں مدد اور مشورہ دینے کے لیے وزرا کی ایک کابینہ ہو گی جس کا سربراہ وزیرِ اعظم ہوگا۔‘
 

image


ڈاکٹر ڈار کہتی ہیں کہ حکومت کے اختیارات استعمال کرنے کی تفصیلات رولز آف بزنس میں موجود ہیں جن میں غداری کا مقدمہ قائم کرنے کا کوئی طریقے کار موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی نوعیت کے معاملے کا جو بھی انچارج وزیر ہوتا ہے وہ اس معاملے کو وزیراعظم کے علم میں لاتا ہے اور پھر وزیرِ اعظم یہ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے یا نہیں۔‘

اسد جمال بھی یہی کہتے ہیں کہ بادی النظر میں کہا جاسکتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 232 کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے ہنگامی حالات کے اقدام کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ اس عدالت کے دائرہِ کار سے باہر ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے شائع ہونے کے بعد دیکھا جائے گا کہ انھوں نے سپیشل کورٹ کو غیر قانونی قرار دیتے وقت کن آئینی شقوں اور نظائر کا سہارا لیا ہے۔


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: