کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اس کے امن سے جڑا
ہوتا ہے۔جس معاشرے میں جنگ و جدل ،اور بد امنی کا ماحول ہو گا وہاں ابتری
اور بد حالی اپنے قدم جمالے گی ۔ کراچی میں ، پاکستان کی معاشی شہرگ ،
گذشتہ چند عشروں سے دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے یہاں بھتہ خوری ، اغوا برائے
تاوان ، ٹارگٹ کلنگ او ردھشت گردی روز کا معمول بن گیا جس سے شہرکا امن و
امان تباہ و برباد اور کارو باری سرگرمیا ں اور شہریوںکی جان و مال کی
حفاظت خواب و خیال بن گئی ہے ان حالات میں شہری نفسیاتی معاشرتی اور معاشی
طور پرمتاثر ہو رہے ہیں یہ عوامل آگے چل کر خود ہی بدامنی کو جنم دیتے ہیں
اس طرح سے کراچی ایک گرداب کی شکلاختیار کر گیا ہے بد امنی لوگوں کو متاثر
کرتی ہے جو مزید بدامنی کا سبب بنتی ہے ۔ بد امنی بے روزگاری میں اضا فہ کا
باعث بن رہی ہے اور بے کار نوجوان دھشت گردی کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں تو ہر جگہمسائل کے انبار ہیں ،لیکن اس وقت شکائیتو ں،
ناراضگیوں اور بدامنی کا سب سے بڑا مرکز کراچی بن گیا ہے، یہمسئلہ سادہ
نہیں بلکہ کثیرالجہتی ہے جس کے کئی پہلو ہیں جن سے منسلک مسائل کے حل کے
بعد کراچی میںپائیدار امن ممکن ہے ۔
کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے اور شاید اسی بنا پر
گوناں گوں مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔کراچی کی آبادی 23.5ملین اور رقبہ
تقریبا 3527 مربع کلو میٹر یا 1362 مربع میل ہےکراچی میں ایک کلو میٹر میں
تقریبا چھ ہزار یا ایک میل میں 15500 افراد ریتے ہیں جبکہ پاکستان کی
آبادی 191 ملین اور رقبہ 796,095 مربع کلو میٹر یا 307,374 ہے یعنی ایک
کلومیٹر میں 240 افراد رہتے ہیں کراچی پاکستا ن کا سب سے بڑ ا شہر ہے اس کی
آبا دی پا کستا ن کا تقریبا بارہ فی صد سے زائد ہے کراچی کا سبسے اہم
مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے کراچی پر ملکی وسائل کا خرچ نہیں ہو رہا
ہے ۔
عمومی طور پ کراچی میں بد امنی کو سیاسی مسئلہ کے طور پر لیا جاتا ہے اور
سیاسی طور پر ہیاسے حل کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے
کی اس بدامنی کے اسباب میں صرفسیاسی عناصر اتنے اہم نہیں جتنے دوسرے عناصر
جن میں سب سے اہم نفسیاتی معاشی اور معاشرتی عناصر شامل ہیں ۔ بدامنی میں
ملوث افراد خواہ وہ انفرادی جرائم میں ملوث ہوں یا اجتماعی ، کسی سیاسی
جماعتسے وابستہ ہوں یا مذہبی تنظیم کے رکن ہوں ان کی ذہنی ، نفسیاتی ،
معاشی اور معاشرتی کیفیت عام افراد سےجدا ہوتی ہے ،مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے
مسئلے کا حل سوچنے والے ان اہم عناصر کی طرف توجہ نہیں دیتےصرف سیاسی مسئلہ
کے طور پر کی جانے والی کوششیں چند دن تو مسئلے کو دبا دیتی ہیں جس کے بعد
مسائلزیادہ شدت سے ابھر آتے ہیں جب تک ان تمام عناصر کو حل نہیں کیا جائے
گا مسائل ختم نہیں ہو سکتے ہیں ۔
ملز مانہ کاروائیوں میں ملوث افراد کی غالب اکثیریت نفسیاتی یا ذہنی مسائل
کا شکار ہوتی ہے ایکنفسیاتی کیفیت سماج مخالف بے نظمی anti social
personality disorder ہوتی ہے جس سے آبادی کا ایکفیصد حصہ متاثر ہوتی ہے
یہ افراد عمومی طور پر قوانیں کی پیروی نہیں کرتے ، اکثر جھوٹ بولتے ہیں
اپنے مفادکے لئے دوسروں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں مار پٹائی اور چوری چکاری
میں ملوث یہ افراد بہت آسانی سے شدیدتشدد پر اتر آتے ہیں ان کو نہ تو
اپنی سلامتی عزیز ہوتی ہے نہ ہی دوسروں کی ان کو اپنے غلط کاموں پر
کوئیپشیمانی نہیں ہوتی ۔ مزاج کے امراض mood disorder میں بھی تشدد کے عنصر
پایا جاتا ہے اور یہ افراد باآسانی دوسروں کو اپنا نشانہ بنا لیتے ہیں یہ
بھی شدید ذہنی مرض ہے اس میں متاثر ہ فرد کو یکے بعد دیگرجنون ویاسیت کی
کیفیت سے گزرتا ہے ۔ ایسا مریض اپنے آپ کو بڑی ہستی سمجھتا اور بہت اعلیٰ
صلاحیتوں کاحامل مانتا ہے ان میں سے چند تشدد میں ملوث ہوجاتے ہیں ، اسی
طرح ایک اور اہم مرض شیزو فرینیا ہے جوآبادی کے ایک فیصد افراد کو ہوتا ہے
۔ یہ افراد اپنے خیالات میں گم اور اپنی ایک خیالی دنیا بنا لیتا ہے، بے
جاشک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں کبھی کبھار دوسروںپر الزام لگاتے اور غصہ کر
تے ہیں ۔ایک شدید نفسیاتی مرضبد گمانی اور شک و شبہ کا ہوتا ہے ایسے مریض
بعض اوقات شدید تشدد شروع کر دیتے ہیں ۔۔ ان امراض میں مبتلا افراد خود یا
دوسروں کے اکسانے پر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں ۔
ایک اور گروپ جو باآسانی سے بدامنی میں ملوث ہو سکتا ہے وہ ترک وطن کرکے
یا اپنے علاقوں سے نقلمکانی کرکے روزگار کی تلاش میں آنے والے افراد پر
مشتعمل ہوتا ہے یہ افراد اپنے علاقوں میں بے روزگاری کےباعث عدم تحفظ کا
شکار ہوتے ہیں جس سے چھٹکارے کے لئے وہ اپنے علاقے کو چھوڑ کر کراچی آتے
ہیں مختلفموسمی حا لات اور اجنبی ماحول ان میں جھنجلائٹ کو جنم دیتا ہے جلد
پیسے کمانے اور اپنے گھر واپس جانےکی خواہش ایک فطری خواہش ہے ان افراد میں
سے چند مجرمانہ کاروائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں وہ اس گمان کابھی شکار ہوتے
ہیں کہ کاروائی کرنے بعد وہ باآسانی فرار ہو سکتے ہیں ۔ معاشی طور پر بے
روزگار اور معاشرتیطور پر تنہائی کا شکار افراد بہت جلد جرائم میں ملوث ہو
سکتے ہیں
کراچی میں بدامنی کا ایک اہم اور بڑا سبب اس شہرپر سیاسی تسلط حاصل کرنے
کی جنگ ہے۔ اسشہر میں مختلف سیاسی جماعتوں نے علاقے بانٹ رکھے ہیں جہاں پر
دوسری جماعتوں کو داخل ہونے کی اجازتنہیں ہے۔ ایم کیو ایم نے کئی عشروں سے
کراچی کے مستوط طبقے میں اپنا اثر و نفود حاصل کیا ہوا ہے لیکن پیپی پی، اے
این پی،جماعت اسلامی ،سنی تحریک اورجمعیت العلمائے اسلام کے اثرو رسوخ کو
نظر انداز نہیں کیاجا سکتا ۔ گذشتہ انتخا بات میں مسلم لیگ ملک کی اکثریتی
جماعت بن کر ابھری ایم کیو ایم شروع سے حکومتکا حصہ رہی ہے، موجودہ حکومت
میں ایم کیو ایم کو شامل کرنے سے انکار کر دیا گیاجس سے ایم کیو ایم
تنہائیکا شکار ہوتی چلی گئی، جب اس تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے
تحریکِ انصا ف اور ایم کیو ایم کے منحرفارکان پر مشتعمل پاک سر زمین نے
کراچی میں اپنے قدم جمانے شروع کئے تو ایم کیو ایم ان مخالف جماعتوں
کیمخالف بن گئی ۔ جس طرح ایم کیو ایم اپنا سیاسی اثر و نفود کھونا نہیں
چاہتی اسی طرح دیگر جماعتیں کراچیپر اپنا سیاسی تسلط چاہتی ہیں اس کشمکش کے
باعث کراچی بدامنی کا شکار ہے۔ سیاسی کشمکش کے علاوہبھی یہاں مختلف شر پسند
عناصر نے افراد کی تقسیم کے کئی حوالے بنا دئے ہیں ۔ ان حوالوں سے تقسیم
درتقسیم کراچی کا مسئلہ بہت پیچیدہ اور ان اختلاف کے باعث یہاں تشدد کے
واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ امن کے لئےسیاسی پارٹیوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر
اندازی کی ضرورت ہے ، سیاسی لیڈروں کو اپنی ضد ، انا ، ہٹ دھرمیکے دائرہ سے
نکل کر کراچی کے وسیع تر مفاد میں اپنی ان پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا جو
عوام میں خلیج پیداکر تی ہیں تاکہ عوام آپس میں مل جل کر رہیں ۔
کراچی کا ایک بہت ہی اہم مسئلہ پولیس کی افرادی قوت میں شدید کمی ہے ایک
جائزہ کے مطابق کراچی میں 26647 پولیس میں ہیں لیکن ان میں سے 14433 ہی
کراچی کے امن امان کے لئے دستیاب ہیں تقریبا 8541 اہم افراد کی حفاظت پر
مامور ہیں 204 پولیس چیف منسٹر ہائوس 119 گورنر ہائوس 474 عدلیہ 767
دیگرممالک کے افراد یا سفارتی عملے کی حفاظت کے لئے مامور ہوتی ہے کچھ
پولیس والے تشخیص اور تحقیق کے لئےمامور ہوتے ہیں ۔ دستیاب پولیس نفری
14433 کو بارہ گھنٹوں کی دو شفٹوں میں تعینات کیا جاتا ہے اس طرحکراچی میں
1250 افراد کے لئے ایک پولیس والا ہوتا ہے جبکہ لندن میں152 افراد کے لئے
ایک نیویارک میں 237 افراد دہلی میں 291 کے لئے ایک پولیس والا ہوتا ہے حد
تو یہ ہے کہ لاہور جو کراچی کی نسبت بہتچھوٹا شہر ہے وہاں 337 افراد کے لئے
ایک پولیس والا تعینات ہوتا ہے پولیس قواعد کے مطابق 450 افراد کے لئےایک
پولیس والا ہونا چاہئے بین الاقوامی قواعد کے لئے100,000 افراد کے لئے 222
پولیس کی نفری ہونی چاہئے۔ کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے اور یہاں
صرف چودہ ہزار چار سو پولیس اہلکار تعینات ہیں یعنی چار ہزاردوسو پچپن
شہریوں کے تحفظ کے لئے صرف ایک پولیس اہلکار ۔ ایک اور انتہائی اہم مسئلہ
یہ ہے کراچی پولیسمیں مقامی افراد کی کمی ہے دنیا بھر میں پولیس کے شعبہ
میں مقامی افراد کو ہی رکھا جاتا ہے چونکہ مقامیافراد لوگوں سے مقامی رسم و
رواج اور طرز حیات سے اور سب علاقوں سے واقف ہوتے ہیں اس لئے وہ جرائمپیشہ
افراد سے نسبتا بہتر انداز میں نبٹ سکتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے ایک طرف تو
کراچی میں پولیس سیاسیمداخلت کی شکارہے تو دوسری طرف وہ جدید ہتھیاروں اور
اعلی پیشہ وارانہ تربیت سے محروم ہیں جب کہجرائم پیشہ افراد جدید تریں
اسلحہ اور دیگر سہولیات سے لیس ہوتے ہیں ۔اس کمی کی بنیادی وجوہات میں
سےایک پولیس کو ملنے والے فنڈز پولیس تک پہنچنے سے پہلے ہی دیگر شعبوں کی
نظر ہوجاتے ہیں ۔ دیگر محکموں کیطرح پولیس میں بھی کرپشن میں بھی اصافہ ہوا
ہے ایک جائزے کے مطابق کراچی پولیس کو دنیا کی کرپٹ پولیسکی لسٹ میں دسواں
نمبر دیا جاتا ہے اس بنا پر کام کرنے والے ایماندار اہل کار درست انداز سے
کام نہیں کرسکتے ہیں ا ور جرائم پیشہ افراد با ٓسانی قانون کی گرفت سے نکل
جاتے ہیں۔ قدیم ہتھیاروں اور رابطے میں موثرفقدان نہ ہونے کے باعث کراچی
میں خود پولیس بھی محفوظ نہیں ہے ۔ جنوری تا اکتوبر 2014 تک 80پولیس
اہلکارلقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 2013 کے پہلی چھ ماہ میں 100 پولیس اور رینجر
کے افراد مارے گئے تھے2015 کیپہلی سہ ماہی میں 33 پولیس اہل کار شہید کئے
گئے تھے جبکہ 2014 میں اس عرصے میں مرنے والے پولیس افرادکی تعداد 46 تھی ۔
گذشتہ سال سندہ میں دہشت گردی سے مرنے والوں کی تعداد 1,180 تھی جبکہ
صرفکراچی میں یہ تعداد 1,135تھی ۔ کراچی میں اس دہشت گردی کا ایک اور سبب
مختلف فرقہ پرست تحریکوں کیموجودگی ہے گذشتہ سال52 فرقہ پرست حملوں میں
ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 83 تھی جو سب کی سبکراچی میں ہوئی تھی ۔ صفورا
گوٹھ میں بس حملہ کراچی میں فرقہ ورانہ تشتدد کی بد ترین مثال تھی ۔
کراچی کی تباہی وبربادی کی جب با ت آتی ہے تو ہمیشہ سیاست دانوں کو مورد
الزام ٹہرا یا جا تا ہےاور کسی حد تک یہ بات سچ ہے کہ حکمرانوں نے مفا دات
کے پیش نظر اسے ایک اہم ترقی یافتہ اور پر سکون شہر بنا نے کی کوئی کوشش
نہیں کی اگر درست زاویے سے کی منصو بہ بند ی کی جائے تو یہاں ہر با شندہ
خوشحال آسودہ اور زندگی کی بنیا دی ضرورتوں کے حصول کی فکر سے آزاد
ہوسکتا ہے۔ موجودہ جمہوری ڈھانچےمیں بھی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس تفریق
کو ختم کرنے کا کوئی عملی قدم نہیں اٹھا یا جا رہا ہے موجودہحکومتیں وہی
اپنے روایتی انداز میں حکمرانی کر رہی ہے ۔ یہاں پانی بجلی کی کمی کے لئے
تو کوئی کام نہیں کیاجا رہا ہے بلکہ مختلف قسموں کے بسوں پر سرمایہ ضائع
کیا جارہا ہے یہ تحقیق نہیں کی جارہی ہے کہ ماضیمیں دی گئی اس طرح کی بسوں
کا کیا ہوا ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے لیکن
یہاںذرائع آمد و رفت کم ہیں یا بہتر نہیں ہیں اس لئے سڑکوں کی تعمیر ایک
اہم ضرورت ہیں لیکن یہ کام منصوبہ بندیسے کیا جائے تو بہتر ہو سڑکوں کی
تعمیر سے پیدا ہونے والے روڈ بلاک سے ہونے والی تکالیف روڈوں کی تعمیرکے
فوائد کو ملیا میٹ کر دیتی ہے نہ صرف یہ بلکہ ستم یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف
روڈ کی تعمیر ختم ہوتی ہے تودوسری طرف پانی گیس والے اپنی پائپوں کی مرمت
کے لئے روڈ کو دوبارہ توڑ دیتے ہیں ۔
یہاں ایک اہم مسئلہ بے روزگاری ہے جس کے باعث کراچی میں ہر جگہ سما جی اور
معا شی عدممساوات نظر آتے ہیں ایک طرف تو بلند بالا عمارتیں ہیں تو دوسری
طرف بھوک،غربت ،بے چا رگی ، عدم تحفظاحساس محرومی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہے اس
ضمن میں سیاسی قیادت کو فوری اقدامات کرنے چاہئے لوگوں کوروزگار میسر ہوگا
تو ان میں تشدد کا رجحان کم ہوگا کیو ںکہ تشدد اور جرائم میں راست تناسب
ہوتا ہے اورجرائم میں ملوث افراد کی اکثیریت بے روزگار ہوتی ہے،بے روزگار
افراد کو روزگار کی فراہمی کے لئے عملی اقدامات سے بدامنی میں کمی کی
جاسکتی ُ۔
ترقیاتی منصوبہ بندی کی تشکیل اس طرح سےہونی چاہئے کہ تمام طبقات کو اس میں
شمولیت کا احساس ہو ۔ بلدیاتی نظام کے ذریعے ترقیاتی کام کرائے جائیں یہ
عمل نہ صرف جمہوری عمل کو تقویت دے گا بلکہ ساتھ ہی عوام کو مقامی امور میں
خود مختیاری کا احساسبھی دے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کے غلط تصورات
سے جان چھڑائی جائے اور تمام طبقات کےدرمیان مثبت اور پائیدار ہم آہنگی
پیدا کی جائے ، اس عمل میں دانشوروں ، شعراء کرام ، اساتذہ ، مذہبی
عالموںکی مدد سے ایسی پالیسیوں کو تشکیل کرنا ہوگا جو عوام کو متحد کر دے
،ایسے عملی اقدامات تشکیل دینا ہوںگے جو تمام عوام کو ایک دوسرے اکائیوں کو
قریب لے آئے ، سب مل جل کر امن اور فلاح کے کام کریں تاکہ کراچیترقی کرے
،تاکہ کراچی کے افراد بھی خوش ہو سکیں یقین کریں کہ ان کی خوشیاں ہی
پاکستان کو خوشحالیتک لے جائے گا تمام افراد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کراچی
میں امن صرف کراچی ہی کی نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے ۔
|