مفہوم :مارڈالاتم کومال کی کثرت کی خواہش نے یہاں تک کہ
تم نے قبریں جا دیکھیں۔(سورۃ التکاثر)مقصدتخلیق سے بے خبرانسان کودامن
گیرلامحدوداوربے لگام خواہشات نے بے چین کررکھاہے۔دن رات زیادہ سے زیادہ
حصول دُنیا کی فکر میں مبتلاانسان دُنیاکے عیش وعشرت کواپنی کامیابی سمجھ
بیٹھا ہے ۔ِانسان نے دُنیا پرمحنت کی اوراس محنت کے نتیجہ میں جوکامیابیاں
حاصل کیں، اسی کو اصل کامیابی سمجھ بیٹھا۔ترجمہ"تم فرماؤ کیا ہم تمھیں
بتائیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کن کے ہیں۔ان کے جن کی ساری کوشش دنیا کی
زندگی میں گم ہوگئی اوروہ اس خیال میں ہیں کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں۔ (الکھف)
آج کے انسان نے دُنیا کوہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔غریب امیر ہونے
اورامیر،امیرترین ہونے کے چکرمیں ہرقسم کی اخلاقیات،حلال وحرام اوراچھے برے
کی تمیزکھوبیٹھا ہے۔معاشرہ میں ہرطرف قتل وغارت
گری،رہزنیاں،ڈکیتیاں،کرپشن،اغوا برائے تاوان،رشوت،ناانصافی،قبضہ
مافیہ،منشیات کادھندہ،مذہبی منافرت ،تنگ نظری،شدت پسندی اورانتہا پسندی کے
عفریت اوربلائیں مسلط ہیں۔انسان کی بے رحمی نے یہ حالت کردی ہے کہ
جاہل،پڑھے لکھے،دیہاتی،شہری،بظاہردین داراوردُنیادارمیں کوئی تمیزنہیں
رہی۔ہرطرف وحشت اوروحشی پن نظرآتاہے۔انسان کے شرسے انسانیت عاجزآچکی ہے۔
دنیادار بھی ظلم میں مصروف ہے اوربظاہرشکل وصورت سے دین دارنظرآنے والے بھی
انسانیت سوز واقعات میں ملوث ہیں۔آج اس معاشرہ میں کوئی بھی محفوظ نہیں،
پورے کا پورا معاشرہ بے رحم جنگلی درندہ اور وحشی بن چکا ہے۔کم عمرمعصوم
بچے اوربچیاں جنہیں فرشتہ کہا جاتاہے،ان کے ساتھ ہونے والے غیرانسانی
اورجنسی زیادتی اوربے رحمی سے قتل کے واقعات ، عبادت گاہیں، مزارات ،
تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں۔ پتھردل انسان وحشت ودرندگی میں موت کوبھلا
بیٹھا حالانکہ موت ایک حقیقت ہے اوراس سے فرارممکن نہیں، مگریہ بھی حقیقت
ہے کہ ہم نے سب سے زیادہ کسی چیزکوفراموش کررکھا ہے تو وہ ہے موت۔ ہم
سمجھتے ہیں ہم نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے۔حالانکہ دُنیامیں ہر انسان کے قیام کی
ایک مخصوص ومحدود مدت مقررہے،جسے مہلت کہا جاتاہے اورہمیشہ رہنے کی جگہ
تواس مختصر مدت کے بعد شروع ہوتی ہے۔مہلت اس لئے کہ اسی مختصرمدت اوروقفہ
میں کئے گئے اعمال پرآخرت کا انحصارہے ۔حقیقت تویہ ہے کہ ہمیں موت ،آخرت یا
جوابدہی تو یاد ہی نہیں ۔
دُنیا کے حرص ولالچ میں اﷲ کے احکامات سے غفلت اورروگردانی کے سبب نقصان
وخسارہ اورناکامی صرف آخرت کی ہی نہیں بلکہ دُنیا کی ناکامی اورنامرادی بھی
ہے۔اﷲ کی یاد سے غافل، احکام الٰہی سے روگردانی اوردُنیا کی تمنا میں اندھا
ہوجانے سے تنگی گھیرلیتی ہے اورروزی کی کشادگی کے باوجودانسان کا اطمینان
اورسکون چھین لیا جاتا ہے۔ناشکری،گناہوں اوربرائیوں کی وجہ سے موجودنعمتیں
چھین لی جاتی ہیں اورآنے والی نعمتیں روک لی جاتی ہیں۔ہرخاص وعام،بظاہر دین
دار یادُنیادار،عوام، رعایا،حکمران طبقہ سب کے سب دُنیا کی محبت میں
گرفتار،دُنیا اوردُنیا کے مال کادفاع کرتے نظرآئیں گے۔قرآن مقدس میں ارشاد
ِباری تعالیٰ ہے ترجمہ : ـ" اور جو شخص میری یادسے روگردانی کرے گا،وہ
دُنیا میں تنگ حال رہے گااورہم اُسے بروز ِقیامت اندھا کر کے اُٹھائیں
گے۔وہ پوچھے گا:اے میرے رب!تونے مجھے نابینابناکرکیوں اُٹھایاحالانکہ میں
توبیناتھا؟اﷲ تعالیٰ جواب دے گا:اسی طرح ہوناچاہئے تھاکیونکہ تمہارے پاس
ہماری آیات آئی تھیں لیکن تم نے انہیں بھلا دیا۔اسی طرح آج تمہیں بھی
بھلادیا جائے گا۔"(طٰہ126-124:20)
ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ دُنیا کی محبت سے اﷲ نہیں ملتا،لیکن اﷲ کی محبت
سے دُنیا وآخرت دونوں سنورجاتے ہیں۔اسلام میں کہیں بھی ترک دُنیا کا
ذکرنہیں، بلکہ ترک دُنیا کوسخت ناپسندفرمایا گیا ہے ۔ لہٰذادُنیا میں رہتے
ہوئے،معاملات دُنیاچلاتے ہوئے،دُنیاکماتے ہوئے، تجارت،زراعت، حکومت کے ہوتے
ہوئے آخرت کو فراموش کئے بغیراس دُنیا کے سارے معاملات کے ساتھ آخرت کی
بھلائی اورکامیابی بھی پیش نظررہے۔ دُنیا آخری منزل نہیں بلکہ یہ عارضی
پڑاؤاورمہلت ہے تاکہ اس میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کی جائے۔
والدین،خاندان،سماج اورریاست کا کام باشعوراوربہترافرادپیداکرنا ہے۔انہیں
ناانصافیوں اورمحرمیوں سے بچاناہے۔ان کے کرداراورشخصیت کی ایسی تعمیر کرنی
ہے کہ معاشرہ کا مفیدشہری بن سکے۔اس کے اندرنیکی کے جذبات اجاگرکرنا،لوگوں
کوسمجھاناکہ بلاوجہ تشدداورنفرت نہ کریں،انسان اگریہ سوچ لے کہ میرے ہرقول
وفعل،اچھے برے ہرعمل کا اﷲ کے دربارمیں بہت جلدمحاسبہ ہوگا تواس کی سوچ میں
مثبت تبدیلی آتی ہے جواسے برے راستہ پرچلنے سے روکتی ہے۔برواوٗننگ نے کہا
تھا،جب انسان کے اندرذہنی کشمش شروع ہوتی ہے تواس وقت اس کے اندربڑی تبدیلی
وقوع پذیرہوتی ہے ۔ریاست اہم ترین سماجی ادارہ ہے، جس کا کام معاشرے میں
امن وسکون کی بحالی کے ساتھ ساتھ ،روزگارکے مواقع پیداکرناہے۔ ریاست کا کام
صرف قانون بنانا ہی نہیں بلکہ گمراہ کوبرائی سے روکنا اورجرائم میں ملوث
افرادکوسخت سے سخت سزادینابھی ہے تاکہ دیگرمجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے
لئے عبرت کاذریعہ بنے۔اسی طرح جب سماج ومعاشرہ اخلاقیات تہذیبی
اقدار،شاندارروایات اپنی نئی نسل میں منتقل کرنے میں ناکام رہتا ہے
توپھرکچھ عرصے کے بعدمعاشرے میں وحشت پھیلنے لگتی ہے اورپھرایک وقت آتاہے
کہ پورے کا پورامعاشرہ تباہ حال اور وحشی بن جاتا ہے۔
|