اسلام میں ’’بیوہ عورت ‘‘ کے حقوق

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

معاشرۂ انسانی میں سب سے زیادہ ناتواں و لاچاروہ عورت کہلاتی ہے جس کے سر سے اُس کے شوہر کا سایہ اُٹھ گیا ہو اور وہ ’’بیوگی‘‘ کی زندگی گزار رہی ہو۔ایسی بے یار و مدد گار عورت کے کھانے پینے کی نہ کسی کو فکر ہوتی ہے اور نہ ہی اُس کے رہن سہن کا کسی کو کوئی خیال۔بلکہ اُلٹا ایسی بے سہارا و غیر محافظ بیوہ عورت کے روحانی و جسمانی دُشمن ہمہ وقت اُس کے پس و پیش گدھ کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں اور اُس پر حملہ آورہونے کے لئے کسی مناسب موقع کی تاک میں لگے رہتے ہیں،چناں چہ ہمارے معاشرہ کے روز مرہ کے بیسیوں واقعات اِس تلخ حقیقت پر شاہد عدل ہیں۔

اِس سلسلہ میں اگردُنیا کے بڑے مذاہب کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودی و عیسائی مذاہب میں یہ قانون رائج تھا کہ جب کسی شادہ شدہ عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ بیوہ ہوکر اُس کے دوسرے بھائی کی ملکیت میں آجاتی تھی۔ دیور یا جیٹھ اپنی بھابھی کے ساتھ جس طرح چاہتا معاملہ کرتا ، بیوہ بھابھی کو اِس میں ’’اُف‘‘ کرنے کا بھی اختیار نہ تھا۔ بعد ازاں عیسائی مذہب میں قانون ختم تو ہوگیا لیکن اُس میں کوئی دوسرا متبادل مثبت پہلو پیش نہیں کیا جاسکا۔ ہندو مذہب میں اب بیوی عورت کی زندگی کی کوئی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی، بلکہ اُس کا نظریہ تو یہ ہے کہ اب اِس بیوہ عورت کو اپنے شوہر کی چتا سے لپٹ کر بے موت مرجانا چاہیے، یا اگر زندہ رہنا چاہے تو دُنیا کی تمام آرائش و آسائش سے علیحدہ ہوکر ساری عمر شوہر کے سوگ میں گزار دے۔ مشرکین عرب بیوہ عورت کو اپنی ملکیت میں لے کر اُس کے ساتھ جس طرح چاہتے سلوک کرتے۔اُس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے۔ دردناک اذیتیں و مصیبتیں پہنچاتے۔ اُس سے دین مہر معاف کرالیتے۔ اور اُس کو اپنی مرضی کے بغیر کہیں شادی نہیں کرنے دیتے۔

لیکن اِن تمام مذاہب کے برعکس جب دُنیا میں مذہب اسلام نے غلبہ حاصل کیا تو اُس نے معاشرہ انسانی کے اِس جنس لطیف کے گروہِ ناتواں کی فریاد رسی و اشک شوئی کی۔ اورسب سے پہلے یہ کیا کہ بیوہ عورت کے غیر محدود زمانۂ سوگ کو چار ماہ اور دس دن تک محدود کردیا ، تاکہ اِس زمانہ میں وہ اپنے شوہر کی جدائی کے تھوڑے بہت غم کا زالہ کرسکے ۔ نیز اِس سے یہ بھی معلوم ہوسکے کہ سابقہ شوہر کے نطفہ سے اُس کا کوئی حمل ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اِس کی عدت حمل جننے تک درازہوجائے گی۔ اور اگر نہیں ہے تو یہی چار ماہ اور دس دن کا زمانہ اِس کی عدت کے ایام تصور کئے جائیں گے۔اِس کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ سابقہ شوہر کی طرف سے اِس بیوہ عورت کو حق مہر ادا کیا گیا تھا یانہیں؟ اگر ادا کیاگیا تھا تو فبہا، ورنہ اُس کے ترکہ میں سے اِس کا حق مہر اِس کو دلایا جائے گا۔پھر اگر اِس کی اولاد ہوئی تو سابقہ شوہر کے ترکہ میں سے اِس کو کل مال کا آٹھواں حصہ دلایا جائے گا اور اگر اولاد نہ ہوئی تو سابقہ شوہر کے ترکہ میں سے اِس کو کل مال کا چوتھاحصہ دلایا جائے گا۔

ایام عدت گزرجانے کے بعد اسلامی نقطہ نظر سے شرعی حدود و قیود کے اندر رہ کر اب بیوہ عورت بالکل آزاد اور خود مختار ہے۔ اب وہ اپنے لئے ہر قسم کی جائز اور مناسب زیب و زینت کرسکتی ہے۔ اسلام نے اُس کے سر سے اُس کے دیور، جیٹھ، نند، ساس ، سسر وغیرہ تمام عزیز و اقارب کی جابرانہ حکومتوں کا خاتمہ کرکے اُس کے ہاتھ میں آزادی و خود مختاری کا پروانہ پکڑوادیا ہے ۔لہٰذا اِس کے بعد اب وہ جہاں کہیں مناسب سمجھے اپنی مرضی سے اپنا نکاح کرسکتی ہے ۔

اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم خوب صراحت کے ساتھ دیا ہے کہ جس سوسائٹی اور معاشرہ سے بیوہ عورت کو دوسروں نے نکال دیا ہو تم اُس کو عزت و ادب کے ساتھ اُس میں داخلہ کا موقع دو اور اُس کے مخلص شریک حیات بن کر دوبارہ اُس کو دوبارہ وہ شرف و عنایت بخشو جس کے سایہ سے وہ محروم ہوگئی ہے۔چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’ترجمہ: تم اپنے میں سے بغیر شوہر والی عورتوں سے نکاح کرو!‘‘(سورۂ نور:۳۲/۲۴)

چناں چہ سیرتِ نبویہ کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم اِس اخلاقی وصف کے پورا کرنے میں پیش پیش تھے۔آپ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا جیسی چالیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کی اور پھر پچیس سال تک اِس طرح اُن کے ساتھ شریک حیات رہے کہ اِس دوران آپ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن دس عورتوں ( حضرت عائشہ بنت ابی بکر ،حضرت سودہ بنت زمعہ، حضرت حفصہ بنت عمر، حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت اُم سلمہ بنت ابی امیہ، حضرت زینب بنت جحش، حضرت جویریہ بنت الحارث، حضرت اُم حبیبہ بنت ابی سفیان، حضرت صفیہ بنت حُیَیّ، اور حضرت میمونہ بنت حارث رضی اﷲ عنہم) سے نکاح کیا وہ بھی سوائے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے ساری بیوہ ہی تھیں۔اسی طرح متعدد صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بھی اپنے زمانے کی مختلف بیوہ عورتوں کی فریاد رسی کی اور اُن کے شریک حیات بن کر خود اُن کو سہارا دیا۔ چناں چہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ اُن کے شوہر حضرت جعفر طیار رضی اﷲ عنہ جب غزوۂ موتہ میں شہید ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اُن سے شادی کی۔ اسی طرح حضرت عاتکہ رضی اﷲ عنہ کے شوہر حضرت عبد اﷲ بن ابی بکر رضی اﷲ عنہ جب شہید ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اُن سے شادی کی۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اپنی زیر کفالت تمام بیوہ عورتوں کی کے نان نفقہ کا بوجھ اپنے کندوں پر اُٹھایا اور سوسائٹی و معاشرے میں دوبارہ اُن کو عزت و آبرو کے ساتھ داخلے کا موقع دیا اور اُن کو سماج و معاشرہ میں اُس مہر و عنایت سے مشرف فرمایا جس کے سائے سے وہ محروم ہوگئی تھیں۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے تاقیامت آنے والی اپنی اُمت کو بیوہ عورتوں کے بارے میں اِس بات کی بشارت و نوید سنائی کہ: ’’بیوہ اور مسکین کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں دوڑنے والا ہوتا ہے۔ (راوی کہتا ہے) اور میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : ’’جیسے وہ نمازی جو نماز سے نہیں تھکتا اور وہ روزہ دار جو کبھی اپنا روزہ نہیں توڑتا۔‘‘ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ: ’’ بیوہ اور مسکین کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے ، دن بھر روزہ رکھنے والے اور شب بھر نماز پڑھنے والے کی طرح ہے۔‘‘(بخاری، مسلم، مؤطا امام مالک)

لیکن اگر کوئی بیوہ عورت اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہ کرنا چاہے تو اﷲ تعالیٰ نے اُس کو بھی ثواب سے محروم نہیں رکھا، بلکہ اُس کے لئے اپنے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ۔ چناں چہ حضرت عوف بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’میں اور غم گین چہرے والی عورت جس کا شوہر مرگیا اور اُس نے اپنے بچے کو دیکھ کر صبر کرلیا جنت میں اِس طرح ہوں گے۔‘‘ (الادب المفرد) دوسری حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ: ’’ وہ جاہ و منصب اور حسن و جمال والی عورت جو اپنے شوہر کے مرجانے کے بعد بیوہ ہوگئی ہو اور اپنے یتیم بچوں (کی خدمت ) کی خاطر اپنے آپ کو (کسی دوسری جگہ شادی کرنے سے) روکے رکھے ، یہاں تک کہ وہ بچے اُس سے جدا ہوجائیں یا یا مرجائیں (تو میں اور وہ جنت میں اِس طرح اکٹھے ہوں گے جیسے شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی آپس میں اکٹھی ہوتی ہیں یعنی بالکل ساتھ ساتھ ہوں گے! ‘‘(سنن ابی داؤد)

اب ذرا ہم اپنے معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ ہمارے ارد گرد اور آس پاس کتنی ہی ایسی بے سہارا اور بے کس اور محتاج بیوہ عورتیں موجود ہیں جو انتہائی کس مپرسی اور لاچاری کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔کیا ہم نے کبھی اُن کی فریاد رسی یا اشک شوئی کی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اُن کے کھانے پینے اور اُن کے رہن سہن کی فکر کی ہے؟یا حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی سیرتِ مقدسہ پر عمل کرتے ہوئے ہم میں سے کسی نے اُن کے شریک حیات بن کر اُن کو سوسائٹی و سماج میں مہر و عنایت کا سہارا دیا ہے؟ اگر دیا بھی ہے تو بہت ہی کم لوگوں نے۔ تو پھر آیئے آج ہی ہم اپنے پردگار کے حضور یہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ ہم انسانی معاشرہ کی سب سے مظلوم و لاچار اِس صنف نازک کی فریاد رسی و اشک شوئی کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کی پہلو تہی و سستی اور کوتاہی و لاپرواہی نہیں کریں گے۔

ژ……ژ……ژ


﴿…… کوائف نامہ……﴾

مکمل نام : مفتی محمد وقاص رفیعؔ(فاضل درسِ نظامی و متخصص فی الفقہ الاسلامی)
مستقل ایڈریس : محلہ فضل آباد (بڑی بن) نیو کچہری والی گلی ، راولپنڈی روڈ ، فتح جنگ ضلع اٹک
موجودہ ایڈریس : جامع مسجد کلثوم، ایبٹ آباد روڈ، لب ٹھٹھو، اسلام پور، واہ کینٹ، ضلع راولپنڈی
ای میل ایڈریس : [email protected]
موبائل نمبر : 92300-5808678+
شناختی کارڈ نمبر : 37102-7946709-9
 

Mufti Muhammad Waqas Raffi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Raffi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Raffi: 188 Articles with 254360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.