نہر آج بھی اسی آب و تاب سے بہہ رہی تھی ۔بالی نہر کے
کنارے بیٹھا تھا ۔نہر کے دونوں اطراف درخت تھے ۔جو لائن میں کھڑے تھے یوں
لگتا تھا یہ سب ہاتھ باندھے کسی درباری کی طرح کھڑے ہیں جو دربار کے فیصلوں
کو سنتے تو ہیں لیکن خاموش رہتے ہیں ۔یا پھر تماشایوں کی طرح کھڑے ہیں جو
کبھی بچوں کو نہر میں نہاتے ،کھیلتے ،تیرتے ہوئے دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں
،درختوں کی شاخیں ہل ہل کر ناچتی ہیں اور پتے ہوا کے سروں میں اضافہ کرتے
ہیں ۔اس گاؤں کا بچہ بچہ تیراکی جانتا ہے لہذا نہر کا اس گاؤں کے لوگوں کے
ساتھ گہرا رشتہ ہے ۔بالی کو یاد آیا پینو بھی اپنی اماں کے ساتھ نہر پر
کپڑے دھونے آتی تھی ، اسے اچانک ایک خوف نے آلیا ۔یہ نہر جتنی خوبصورت
اور سحر ذدہ تھی اتنی ہی خوفناک بھی تھی نہ جانے کتنے لوگوں کے جسم بغیر
روح کے اس میں بہے ہونگے ۔اس نے سوچا ۔۔مگر نہیں ۔۔۔لوگ نہیں عورتیں
۔۔۔عورتیں نہیں کالیاں ۔۔ہاں کالیاں ۔۔ان میں سے زیادہ تر کالیوں کی نہ تو
جلد کالی ہوتی ہے اور نہ دل بلکہ یہاں کے بڑوں ،بزرگوں،سرداروں کی جہالت کی
کالک ہوتی ہے جو یہ معصوم لڑکیوں کے چہروں پر ڈالتے ہیں ۔ان کی آنکھوں پر
جہالت کی لگی میلی پٹی میں ان کو بہت سی معصوم ،بے گناہ عورتیں کالی دکھتی
ہیں اور ان کو کالی کا نام دے کر فرعون کی طرح ان کے جسموں سے روح کو کھینچ
کر اپنے خدا ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ بالی نے انہیں خیالوں میں الجھا ہوا
تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ٌ بالی تجھے سردار بلا رہا ہے ۔نہر کے ساتھ ہی
کچی سڑک تھی اور اس کے ساتھ ہی سردار کا ڈیرہ تھا جہاں دو کمروں کے سامنے
برگد کا قدیم ،پھیلا ہوا برگد کا درخت ہے اس ڈیرے کی کوئی چاردیواری نہیں
۔یوں نہر سے ڈیرے پر موجود لوگ صاف دکھتے تھے اور اردگرد پھیلے سرسبز کھیت
اور آموں کے باغات کا منظر بھی واضح نظر آتا ہے۔آج پینوکا فیصلہ تھا اس
لئے ڈیرے پر بہت سے لوگ موجود تھے جن میں بالی کے ابا،بھائی اور پینو کے
ابا ،بھائی ،رمضان خان اور خاندان کے دیگر بزرگ بھی سردار کے ساتھ بیٹھے
تھے ۔سردار رنگ دار پایوں والی چارپائی پر کسی بادشاہ کی طرح بیٹھا تھا اس
کے سامنے ایک خوبصورت حقہ بھی کسی آرٹ کا نمونہ تھا۔سردار نے حقے میں
موجود دھوئیں کے بادل اپنے اندر انڈیلے اور نظریں بالی کی طرف ڈالتے ہوئے
رعب سے بولا ٌ ہاں بھئی بالی سنا ہے بڑا اکڑ رہا ہے تو کہ کالی کو مارنے
نہیں دے گا ٌ بالی نے سردار کی طرف دیکھے بغیر کہا ٌ کالی نہیں ہے وہ ۔۔یہ
اس پر غلط الزام ہے۔۔۔پاک ہے وہ۔۔۔میں جانتا ہوں ۔۔۔وہ بیوی ہے میری۔۔۔۔ٌ ٌ
اوئے بس تو فیصلہ کرے گا کہ وہ کالی ہے یا نہیں ٌ سردار غصے سے دھاڑا تو
کیا رمضان خان اور باقی لوگ جھوٹ بول رہے ہیں اور سمجھ لے تو کہ ہمارے
قبیلے میں شروع سے ہی کالی کا فٖیصلہ پنچیت کرتی ہے یہ اللہ سائیں کا قانون
ہے جو بھی گناہ کرے اسے سنگسار کرو ۔۔۔بابا مسلمان ہیں ہم۔۔ہم غیرتی مشہور
ہیں ۔۔۔تم کیا چاہتے ہو عورتیں بغیر نکیل کے گھومتی رہیں۔۔آج اگر ہم نے ان
کو سزا نہ دی تو بے شرمی بڑھتی جائے گی ۔۔۔دشمن تھو تھو کریں گے اور بزرگوں
کی روحیں تڑپ تڑپ کر قبروں سے باہر نکل آئیں گی۔۔بس فیصلہ ہوگیا کہ وہ
کالی ہے اور سزا کی مستحقٌ۔۔۔سردار نے دو ٹوک فٖیصلہ سنایا ۔۔۔ٌلیکن میں اس
فٖیصلے کو نہیں مانتا اور جو بھی میری بیوی کو مارے گا میں کیا اسے اللہ
بھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔اس نے سر پر قرآن رکھا ہوا ہے ۔۔۔اگر تم کہتے ہو کہ
اس قرآن میں لکھا ہے اس کو سنگسار کرنے کا تو کیا قرآن میں اللہ نے نہیں
لکھا ہوگا کہ اگر وہ بے گناہ ہے اور بے گناہ کا قتل کرنے والوں کو کیا سزا
نہیں ہوگی۔۔۔تم کہتے ہو کہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ اسے سزا دی جائے اور وہ
کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں اور میرا فٖیصلہ بھی قرآن کرے گا ۔۔۔اور مجھے
یقین ہے کہ اگر تم لوگوں نے اس کے ساتھ کچھ غلط کیا تو اس کا فیصلہ انشا
اللہ قرآن کرے گا ٌ بالی نے دکھ اور غصے سے سردار کو دیکھا۔۔۔ ٌبس کر اوئے
بڑا آیا مفتی ۔۔اسی لئے کہتا ہوں سائیں وڈا کہ گاؤں میں ٹی وی پر پابندی
لگوائیں ورنہ باپ دادوں کی رسموں اور رواجوں کو یہ نوجوان نسل اپنی بے
غیرتی کے نام کردیں گے ۔ایسا وقت قریب نظر آرہا ہے جب غیرت کی وجہ سے نہیں
بے غیرتی کی وجہ سے دشمن ہمیں پہچانیں گے اور میں ایسا ہونے نہیں
دونگاٌ۔۔رمضان خان نے اپنی بندوق پر ہاتھ رکھتے ہوئے دھمکی دی۔۔۔ کیوں رستم
خان تم بلوچ ہونے کا حق اداکروگے یا بالی کی طرح باپ دادا کی پگ رولوگے
۔۔۔سردار نے رستم خان (پینو کے بھائی ) سے سوال کیا تو وہ تھوڑا سا گھبرا
یا اور باپ کی طرف دیکھا ۔رستم کی بجائے اس کے باپ نے جواب دیا ٌ سائیں آپ
کا حکم سر آنکھوں پر مگر بالی صحیح کہتا ہے میری دھی بے گناہ ہے۔۔۔سائیں
ابھی تو وہ چھوٹی سی ہے ۔۔۔میں اس کی حیا کی قسم کھاتا ہوں۔۔میں قرآن
اٹھاتا ہوں کہ وہ بے گناہ ہے ۔۔۔وہ بے گناہ ہے ۔۔یہ کہتے ہوئے پینو کے باپ
نے سردار کے پاؤں پکڑ لیۓ اور اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو سردار کے پاؤں
میں رگڑا کہ شاید اسے رحم آجائے لیکن رحم تو شاید اس کی سرداری کے لئیے
طعنہ ہوتا ۔اور سردار کی سرداری تو اس کی بے رحمی سے طاقتور ہوتی ہے
۔۔۔دشمن پر دھاک بھی بیٹھتی ہے اور اس وقت تو سردار کی شان اور بڑھتی ہے جب
دشمن خود کہتا ہے فلاں سردار بڑا بے رحم ہے اس سے بچ کر رہو۔۔اور سردار نے
سوچا یہی لوگ تو ہیں جن کے کندھوں پر چڑھ کر میرا قد بڑھتا ہے چاہے یہ
کندھے زندہ لوگوں کے ہوں یا مرے ہوؤں کے اور پھر جب تک میرے پاؤں ان کے
سروں پر رہیں گے تب تک یہ زمین کے قریب اور میں آسمان پر رہوں گا اس خیال
کے آتے ہی سردار کے دل میں جلتی ہوئی ذرا سی رحم کی چنگاری بھی بے رحمی سے
بجھ گئی۔۔۔سردار نے پاؤں سے رستم کے باپ کو خود سے دور کرتے ہوۓ رعونت سے
کہا ٌ رستم اپنے باپ کو مجھ سے دور کردے ایسا نہ ہو اس بے غیرتی پر میں اسے
ہی واجب القتل کر دوں ۔کیا ہوگیا ہے آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی لڑکی کے
کالی قرار دینے کے بعد کوئی اس کا وکیل بن کر آیا ہو۔اوہ بے وقوف انسان !
ہوش کے ناخن لے ۔۔۔تجھے بستی میں کون بسنے دے گا ۔۔بتا تو سہی ۔۔۔خاندان سے
کٹ کر رہ سکتے ہو تم لوگ؟۔۔۔اللہ وسایا بتا اپنے بھائی کو اس کی زنانی کو
قتل کر کے اس کو عزت کی پگ پہنائی جائے گی۔۔اوئے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جن
کو یہ پگ پہنا ئی جاتی ہے ۔۔۔نہیں چاہیئے مجھے یہ پگ۔۔میں اپنی زنانی کو لے
کر دور چلا جاؤں گا ۔۔۔تم مت رہنے دو ہمیں گاؤں میں ۔۔۔دے دو مجھے بے غیرتی
کا ٹائیٹل ۔۔۔بالی اب بپھر رہا تھا ۔۔۔اللہ وسایا نے اپنے چھوٹے بھائی کو
سرزنش کی ۔۔۔پاگل ہوگیا ہے ۔۔بکواس بند کر اپنی۔۔۔تجھے عزت کی پرواہ نہیں
لیکن ہماری عزت کو تو نہ رول۔۔۔ میرا تو خیال ہے وڈا سائیں اس بالی کو بھی
اس کی زنانی کے ساتھ ہی کالی قبرستان میں دفن کردیں یا ایک اور ٌبے غیرتوں
کا قبرستان ٌکے نام سے قبرستان بنائیں جہاں یہ اور اس جیسے اور بے غیرتوں
کو دفن کریں ۔۔۔بڑا شوق ہے اس کو بے غیرت ہونے کا۔۔بے غیرت کہیں
کا۔۔۔ہونہہ۔۔رمضان خان نے نفرت سے بالی کی طرف تھوکا۔۔۔سردار نے بالی کے
باپ کی طرف دیکھا ۔۔۔ہاں کیا کہتے ہو پھر فیصلہ کرلو ۔۔لرکی کو خود
مارو۔۔۔ورنہ ہمارے حوالے کردو ہم خود اپنے طریقے سے اسے زندہ درگور کریں گے
ورنہ جو رمضان خان کہہ رہا ہے اس پر عمل کیا جائے گا ۔۔۔رستم کے باپ تم بھی
سن لو ۔۔۔سردار نے بالی کے باپ کے بعد اپنا رخ پینو کے باپ کی طرف کرتے
ہوئے کہا ۔پھر پنچیت میں موجود باقی لوگوں سے بھی ان کی رائے لی ۔۔۔کس کی
جرائت تھی جو رمضان اور سائیں وڈا کے خلاف بولتے ۔۔۔سب نے ہاتھ اوپر کرکے
سردار کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیہ دیا۔۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں کون میری
زنانی کو ہاتھ لگا ئے گا ۔۔بالی نے غصے سے پنچیت میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں
کی طرف دیکھا اور ڈیرے سے نہر کی سڑک کی طرف چل پڑا ۔۔۔سردار نے اللہ وسایا
،رستم ،رب نواز،رمضان اور چند عزت کی پگ پہنے ہوئے نوجوانوں کو رکنے کا کہا
اور باقی لوگوں کو جانے کا حکم دے دیا ۔۔۔۔پینو کا باپ بالی کے باپ کا
سہارا لے کر اٹھا اور نہر کے کنارے پہنچ کر ڈیرے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے
بھائی سے دکھ سے گویا ہوا ٌ ادا دیکھو ! میری دھی پینو کو قتل کرنے کی
تیاری ہورہی ہے اور میں کتنا بد نصیب ہوں ۔۔۔اگر دھی کو بچانے کی کوشش کروں
تو پتر (بیٹے) کو قربان کرنا پڑے گا ۔۔۔ہائے اللہ سائیں ! تو مجھے اٹھا لے
۔۔پینو کی ماں نے میرے سر پر قرآن رکھا تھا کہ پینو پر ظلم نہ ڈھانے دینا
لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔۔بالی کا باپ خود بھی اداس تھا لیکن وہ پینو کے
ساتھ ساتھ بالی کے لئیے بھی فکرمند تھا۔۔
بالی نے گھر آکر گھڑے سے پانی کٹورے میں لیا اور غٹا غٹ تین کٹورے پانی کے
پی گیا اور لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے چار پائی پر لیٹ گیا جو کہ بیری کے
درخت کے نیچے بچھی تھی۔۔۔پینو کمرے کے دروازے پر کھڑی سب دیکھ رہی تھی
۔۔۔بالی کی حالت دیکھ کر سمجھ گئی کہ اس کی زندگی کا فیصلہ بھی باقی لڑکیوں
کی طرح سردار نے کردیا ہے ۔۔اسے زندگی کے ہارنے سے زیادہ دکھ بالی سے
بچھڑنے کا تھا ۔۔۔۔اس نے ہاتھ میں پکڑے قرآن کو چوما جو کہ اس پر لگائے
گئے الزام کے بعد اس کے ہاتھ میں ہی رہتا اور اسے وہ اپنے سینے کے ساتھ
چپکا کر وہ ایک ہی بات کہتی ٌ میرا فیصلہ قرآن کرے گا ٌ۔۔۔پینو کی جٹھانی
نے بالی کی حالت کو دیکھ لیا اور سمجھ گئی اور پینو کی طرف دیکھتے ہوئے کمر
پر ہاتھ رکھ کر بولی تمہارا فیصلہ قرآن نے نہیں سردار نے کر دیا ہے
۔۔۔بھرجائی میں بے گناہ ہوں ۔۔۔مجھے مار بھی دیں گے تو بھی مجھے یقین ہے کہ
میرا بدلہ یہ قرآن لے گا اور اصل فیصلہ یہی کرے گا ۔۔دیکھ لینا میرا اللہ
سائیں ہر اس شخص کے ساتھ جس نے میرے پاک دامن کو داغدار کیا ہے ۔مجھے کالی
کہا ہے ،،مجھے رسوا کیا ہے ۔۔میرا اللہ سائیں اسے اس دنیا میں عبرت کا نشان
بنائے گا ۔۔
تھوڑی دیر میں پینو کی ماں روتی پیٹتی آگئی۔۔۔پینو کو اپنے سینے سے چمٹایا
اور روتے ہوئے بولی ٌ ہائے میری بد نصیب دھی تو کیسے نصیب لے کر آئئ ہے
۔۔۔میری پاک دھی کو کالی کہنے والوں کے اللہ منہ کالے کرے ۔۔۔ہاتھ ٹوٹیں ان
کے ۔۔۔خدا ان کو غارت کرے ۔۔۔ہائے میرے کلیجے کو آگ لگانے والوں کو اللہ
سائیں دوزخ میں جلائے۔۔۔وہ سینہ پیٹ رہی تھی ۔۔۔پھر یکایک پینو کی ماں کو
کچھ خیال آیا ۔۔اس نے پینو کے ہاتھ سے قرآن پاک لیا اور رمضان خان کے گھر
کی طرف رخ کیا ۔۔۔
ادا رمضان۔۔۔۔ادا رمضان ۔۔۔تجھے اللہ سائیں کا واسطہ ۔۔۔تجھے اس قرآن کا
واسطہ میری دھی کا فیصلہ واپس لے لے ۔۔۔پینو کی ماں نے روٹی کھاتے رمضان کی
جھولی میں قرآن ڈال دیا ۔۔۔رمضان ہڑبڑا گیا ۔۔۔چری تھی ایں کیا ؟(پاگل
ہوگئی ہو کیا ؟)۔۔۔۔ ہاں میں پاگل ہو گئی ہوں ۔۔اللہ سائیں کے واسطے تم
میری پینو کو کالی نہ کرو ۔۔۔پینو کی ماں اب اس کے قدموں میں بیٹھ گئی
۔۔اور ہاتھ جوڑ کر اس سے اپنی بیٹی کی بھیک مانگنے لگ گئی۔۔۔رمضان خان نے
قرآن اپنی بیوی کو تھماتے ہوئے رعونت سے پینو کی ماں کو بولا ۔۔فیصلہ
ہوچکا ہے ۔۔۔آج تک پہلے نہ کالی کی بخشش ہوئی ہے نہ آج ہوگی اس لئیے اپنا
وقت اور آنسو ضائع نہ کرو۔۔۔تمہاری بیٹی کا مقدر کالی قبرستان ہی ہے ۔۔۔
اور تجھے پتا ہے کالیوں کے قبرستان میں قبریں بے نشان ہوتی ہیں ۔۔۔پینو کی
ماں نے اپنے دوپٹے کو پھیلا کر کہا تو میری تم کو بد دعا ہے ۔۔۔اللہ سائیں
تم کو کہیں جگہ نہیں دے گا ۔۔غیرت کے نام پر ماؤں کے جگروں کو کاٹنے والو
خدا تمہیں عبرت ناک موت دے ۔۔ارے تم نے اور سردار نے اتنی بے گناہ لڑکیوں
کو کالی کہہ کر نا حق قتل کیا ہے کہ میری بددعا ہے کہ خدا تمھاری دعاٖئیں
اسٌ کالی قبرستان کی مزاروں ٌ سے ہی پوری کرے ۔۔دیکھ لینا رمضان خان جس
قرآن کو تو لوٹا رہا ہے اسی قرآن کی تم پر مار ہوگی۔۔۔
(کیا رمضان خان کے دل پر اثر ہوگا پینو کی ماں کی آہ و بکا کا ؟دیکھۓ اگلی
قسط میں)
|