ایک باپ کا بیٹی کی لاش پر کھڑے ہو کر معاشرے سے سوال - ایک مرد ایک کہانی

میں ایک باغی تھا میں نے اپنے خاندان کے اصولوں سے بغاوت کی تھی میں نے ان رواجوں سے بغاوت کی تھی جو صدیوں سے ہمارے خون میں رچے بسے تھے ۔ میں ان روایتوں کا باغی تھا جنہوں نے ہمارے گرد اتنی اونچی دیواریں چن دی تھیں جنہوں نے ہمارا سانس لینا تک دو بھر کر دیا تھا-

میری پہلی بغاوت یہ تھی کہ میں جب بیٹی کا باپ بنا تو میں نے سر شرم سے نہیں جھکایا بلکہ مٹھائی تقسیم کر کے سب کو بتایا کہ اللہ نے مجھے بیٹی سے نوازا ہے میرے گھر میں جب ایک کے بعد ایک کر کے تین بیٹیاں پیدا ہوئيں تو میں نے اپنی بیوی کے اوپر سوتن لانے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھے جنت کا حقدار بنا ڈالا تھا-

میرا تعلق سرحد کے ایک قبائلی علاقے سے تھا میں نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اپنا علاقہ چھوڑ کر شہر میں رہائش اختیار کر لی تھی میرے خاندان والوں نے بیٹیوں کو گھر سے باہر نکالنے اور تعلیم دینے کی سزا کے طور پر مجھ سے بائکاٹ کر دیا تھا اب میں مزدوری کر کے اپنی بچیوں کو تعلیم دلواتا تھا میرا سب کچھ میری بیٹیاں ہی تھیں-

میری بڑی بیٹی پلوشہ نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی ایک گڑیا ہی محسوس ہوتی تھی ۔ جب وہ اپنی توتلی زبان میں اسکول کا سبق سناتی تو اس کی انگریزی مجھے سمجھ میں نہ آتی تھی مگر اس کے باوجود میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا-

وقت کیسے گزرا مجھے پتہ ہی نہ چلا جب پلوشہ نے دسویں جماعت میں بورڈ میں پہلی پوزیشن لی اس وقت کیمروں کے سامنے میری زبان گنگ ہو گئی تھی صرف آنسو تھے جو بے اختیار بہنے لگے تھے پلوشہ کے نقاب والے چہرے سے جہاں سے صرف اس کی نیلی آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں میں خوشی کے آنسو دیکھ سکتا تھا ۔ میں نے پلوشہ کا داخلہ کالج میں کروا دیا تھا اس سارے عرصے میں میں نے بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا تھا- میری خواہش تھی کہ پلوشہ کو ڈاکٹر بنوا کر میں اس کی پوسٹنگ اپنے قبیلے کے ہسپتال میں کرواؤں جہاں عورتیں خاتون ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑ کر مرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں-

مجھے فخر تھا کہ میری بیٹیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں میں ان کی تعلیم کے لیے ان کی ضروریات کے لیے سخت محنت کرتا تھا میں نے پلوشہ کو موبائل فون لے کر دے دیا تھا اسے کالج چھوڑنے میں خود جاتا تھا واپسی کے لیے وہ کالج کی گاڑی سے آتی تھی اور گھر پہنچ کر مجھے فون کر کے بتا دیتی تھی کہ گھر پہنچ گئی ہے-

اس دن جب میں نے پلوشہ کو کالج چھوڑا تو وہ کچھ پریشان سی تھی بار بار ادھر ادھر دیکھ رہی تھی میں نے اس سے اس کی پریشانی پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ اس کا ٹیسٹ ہے جس کی وجہ سے وہ کچھ پریشان ہے تو میں نے ہنستے ہوئے اس کو تسلی دی کہ مجھے یقین ہے کہ تم ہی سب سے زیادہ نمبر لو گی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے -

اس کو چھوڑ کر میں کام پر چلا گیا دوپہر میں پلوشہ کی کال نہیں آئی مگر اس کی جگہ اس کی ماں کی کال آگئی- اس نے مجھے بتایا کہ پلوشہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی ہے اور اس کا نمبر بھی بند آرہا ہے اس کی بات نے مجھے پریشان کر ڈالا میں حواس باختہ ہو کر تیزی سے اس کے کالج کی طرف بھاگا جہاں چھٹی ہو چکی تھی اور کوئی لڑکی موجود نہ تھی- چوکیدار نے بتایا کہ چھٹی کے بعد سب لڑکیاں گھر جا چکی ہیں اور پلوشہ بھی کالج کے بعد گھر کے لیے چلی گئی تھی-

میں پاگلوں کی طرح پلوشہ کو ہر جگہ ڈھونڈنے لگا میں نے اس کی سہیلیوں کے گھر سے بھی پتہ کیا جنہوں نے بتایا کہ پلوشہ کالج کی بس میں گھر کے اسٹاپ پر اتری تھی اس کے بعد وہ کہاں گئی کوئی نہیں جانتا ہے-

اس تلاش میں سارا دن گزر گیا مجبور ہو کر میں تھانے چلا گیا جہاں پر پلوشہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔ تھانے والوں کا رویہ بہت حوصلہ شکن تھا ان کا یہ کہنا تھا کہ جوان لڑکی ہے کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ میں ان کو یہ سمجھا سمجھا کر تھک گیا کہ میری بیٹی ایسی نہیں ہے وہ میری عزت میرا مان تھی اس نے کبھی کوئی غلط حرکت نہیں کی تھی-

اس تلاش میں دو دن گزر چکے تھے مگر پلوشہ کا کہیں پتہ نہیں چل رہا تھا میں نے کام پر جانا اور میری چھوٹی بیٹیوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا ہر وقت ہماری نظریں دروازے کی جانب لگی رہتی تھیں- دل میں آنے والے ہر وسوسے کو میں رد کر رہا تھا- اس دن دوپہر میں مجھے تھانے کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوئی اور انہوں نے مجھے تھانے پہنچنے کا کہا-

میں بھاگتے دوڑتے تھانے پہنچا تو تھانے والوں نے بتایا کہ انہیں ساحل سمندر کے پاس سے ایک فارم ہاؤس سے ایک لڑکی ملی ہے مجھ ہسپتال جا کر اس لڑکی کو شناخت کرنا ہے کیوں کہ لڑکی بے ہوش ہے اور وہ اپنے بارے میں کچھ بتا نہیں سکتی ہے۔ میں پولیس والوں کے ساتھ ہسپتال پہنچا تو وہ میری پلوشہ ہی تھی مگر اس کی حالت دیکھ کر مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی-

اس کو وحشی درندوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور یہ ظلم اس وقت تک اس کے ساتھ بار بار کیا تھا جب تک کہ وہ کومے میں نہیں چلی گئی تھی اس وقت میرا دل چاہ رہا تھا کہ آسمان پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں- مجھے لگ رہا تھا کہ میری بیٹی کےساتھ یہ ظلم صرف اور صرف میری وجہ سے ہوا ہے ۔ میری بیٹی کی خوبصورتی اس کی دشمن بن گئی ظالموں نے میری بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا اور ان کے اس عمل کے سبب میں ٹوٹ سا گیا ۔ میں نے واپس اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا اب مجھے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے میں بھی دلچسپی نہ رہی ۔ مجھے وہ سب لوگ ٹھیک لگنے لگے جو اپنی عورت کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے تھے-

میرا اس معاشرے سے سوال ہے کہ کیا میں غلط کر رہا ہوں یا میں نے پہلے غلط کیا تھا؟
 

YOU MAY ALSO LIKE: