اللہ کے نزدیک محبوب اعمال

’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے۔ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا۔ فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا۔ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ یہ باتیں مجھے رسول اللہ نے بتائیں۔ اگر میں مزید پوچھتا رہتا تو آپ بھی مزید بتاتے جاتے۔‘‘، (مشکوٰۃ، رقم:568)

یہ ابو مسعودؓ کی روایت ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں کہ اعمال میں افضل ترین عمل کون سا ہے۔ ہر مسلمان کے دل میں فطری طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب اور افضل عمل کون سا ہے تاکہ وہ خصوصی اہتمام کے ساتھ اسے بار بار سرانجام دے کر زیادہ سے زیادہ فضیلت اور اجر کما سکے۔

عبد اللہ بن مسعودؓ کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ یہ بات قرآن مجید میں بھی اس طرح بیان ہوئی ہے کہ نماز وقت کے اہتمام کے ساتھ ادا کی جائے اور یہ کہ نماز ایک موقّت (وقت پر ادا کیا جانے والا) فریضہ ہے۔ اور ہر نماز کی ادائیگی کے لیے کچھ مخصوص اوقات ہیں۔

انسان جب اذان کی پکار کے جواب میں لبیک کہتا ہوا اپنے تمام کام چھوڑ کر نماز کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا اور اپنے شب و روز میں اوقاتِ نماز کا اہتمام اور پابندی کرتا ہے تو یہ خدا کو یاد رکھنے اور اس کے حضور میں حاضری کے لیے ہمہ وقت تیار و مستعد رہنے کی علامت ہوتی ہے۔ گویا کہ بندہ ہر لمحہ اپنے پرودگار کی پکار پر لبیک کہنے کو تیار ہے اور جیسے ہی بلاوا ملے اس کی بارگاہ میں حاضری کے لیے مستعد ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اس عمل کو افضل ترین عمل قرار دیا گیا۔

صحابی نے مزید پوچھا کہ اس کے بعد کس عمل کا درجہ ہے تو ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا۔ والدین دنیا میں ایک انسان کے لیے جتنی قربانی دیتے اور جس قدر شفقت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں دنیا کا کوئی دوسرا رشتہ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ اسی لیے رشتوں میں والدین کا رشتہ سب سے زیادہ محترم ہے اور انسان کے سب سے زیادہ حسنِ سلوک اور ادب و اکرام کے مستحق اس کے والدین ہیں۔

والدین جب بوڑھے ہوجائیں، بیمار ہوجائیں یا ان کی طبیعت اور ان کے رویے میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوجائے تو یہ بعض اوقات انسان کے لیے سخت مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ لیکن ایسے وقت میں بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ ان سے بہرحال ادب و اکرام کا معاملہ کیا جائے اور ان کی نافرمانی اور دل شکنی سے بچا جائے۔ ان لمحات میں والدین کی خدمت کرنا، ان سے حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کے ساتھ شفقت و خیرخواہی کا معاملہ کرتے رہنا وقت پر نماز کی ادائیگی کے بعد دوسرا افضل ترین عمل قرار دیا گیا ہے۔

صحابی نے مزید پوچھا کہ پھر اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے۔ تو فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد اور جدوجہد کرنا۔ دین پر عمل پیرا ہونا، مشکلات اور دقتوں کے باوجود دینی احکام و حدود کی رعایت ملحوظ رکھنا، دین کے علم کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا، دین کے فروغ کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے کوشش کرنا اور اگر موقع ہو تو خدا اور دین کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے تلوار اٹھانا جیسے سارے کام اس میں آجاتے ہیں۔

صحابی کہتے ہیں کہ اس وقت حضور کی کیفیت یہ تھی کہ اگر میں مزید چیزوں کے بارے میں پوچھتا تو آپ ترتیب وار مجھے افضل اعمال کے بارے میں بتاتے چلے جاتے۔ لیکن میں نے بس اتنا پوچھنے ہی پر اکتفا کرلیا۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا انہوں نے حضور کے لیے باعثِ تکلیف نہ بننے اور آپ کے ادب و احترام کے پیشِ نظر یہ سوچ کر کیا ہو کہ کہیں سوال جواب کے سلسلے کو مزید طول دینا باعث اذیت ہوجائے۔ تاہم جو باتیں انہوں نے پوچھیں اور جو کچھ حضور نے بتایا، اس میں بھی ہمارے لیے کافی سبق موجود ہے اور ہم جان سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین اور افضل ترین اعمال کون کون سے ہیں۔

نماز کی اہمیت اور فضیلت
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے اور کفر کے درمیان (رکاوٹ یا فاصلہ) نماز کا ترک کردینا ہے۔‘‘، (مشکوٰۃ، رقم569)

یہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ آدمی کے کافر یا مومن ہونے کی ظاہری علامت نماز کا ترک یا ادا کرنا ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں بھی بیان ہوئی ہے کہ جو شخص مسلمان ہونے کا دعویدار ہو، اسے اسٹیٹ اور ریاست کی حد تک اسی وقت تک مسلمان تسلیم کیا جائے گا جب تک وہ نماز کا اہتمام کرتا رہے گا۔ یعنی ظاہری طور پر نماز کی ادائیگی کسی شخص کے مسلمان ہونے کی علامت و شہادت ہے۔ اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اسلام اور ایمان کو خیر باد کہہ چکا ہے۔

نماز ہی کی اہمیت و فضیلت پر مشکوٰۃ کی اگلی روایت بھی کافی کچھ روشنی ڈالتی ہے: ’’عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (دن بھر میں) پانچ نمازیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (اپنے بندوں پر) فرض کیا ہے۔ جو شخص (ان کے لیے) اچھی طرح وضو کرے گا اور وقت پر (یہ) نمازیں ادا کرے گا۔ ان کے رکوع (و سجود) کو اچھی طرح خشوع و خضوع کے ساتھ بجالائے گا، اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر عہد ہوگا کہ اس (کے گناہ) بخش دے۔ اور جو کوئی ایسا نہ کرے گا اس کے لیے اللہ پر کوئی عہد نہ ہوگا۔ اللہ چاہے گا تو اس (کے گناہ) بخش دے گا اور چاہے گا تو (ان کی پاداش میں اسے) عذاب دے گا۔‘‘، (مشکوٰۃ، رقم570)

یہ روایت بتاتی ہے کہ روز مرہ کی پانچ فرض نمازوں کی کیا اہمیت اور فضیلت ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جو شخص ان کے لیے اہتمام سے وضو کرے، وقت پر نماز ادا کرے، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع و سجود بجا لائے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے بندے کے لیے اپنے اوپر یہ ذمے داری لے رکھی ہے کہ وہ اس کی بخشش فرمائیں گے اور اس کے گناہوں اور خطاؤں کو معاف کردیں گے۔

آگے فرمایا کہ جس نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا یعنی نمازوں کو کوئی اہمیت نہ دی اور ان کی ادائیگی کے معاملے میں غفلت و لاپرواہی برتی، ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ اسے ضرور مغفرت عطا فرمائیں گے۔ اس کا معاملہ ان کی مرضی پر ہوگا، چاہیں گے تو بخش دیں گے اور چاہیں گے تو مؤاخذہ اور گرفت فرما کر ایسے شخص کو اس کی بداعمالیوں پر عذاب دیں گے۔

گویا کہ پنج وقتہ نمازوں کی بااہتمام، خشوع و خضوع کے ساتھ ادائیگی بندے اور خدا کے درمیان ایک معاہدے کو وجود میں لاتی ہے۔ نماز میں بندہ اپنے سارے وجود اور پورے دل کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جاتا ہے۔ اپنی بندگی اور اس کی خدائی کا اعتراف کرتا ہے۔ عاجزانہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنی محتاجی اور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار کرتا ہے۔ خدا کے روبرو توبہ بجالاکر اپنے گناہوں کی معافی اور اس کی بخشش و مغفرت طلب کرتا ہے۔ جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے بخشنے اور معاف کرنے کا عہد فرمالیتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز کتنی غیرمعمولی عبادت اور کیسی عظمت والی چیز ہے۔ یہ خداوند کائنات کے دربار میں حاضری اور اس کے ہاں سے اپنی بخشش و نجات کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت اہم ذریعہ ہے۔

جو لوگ نماز جیسی عبادت کو ظاہری رسم اور ناقابل فہم اٹھ بیٹھ کہہ کر اس کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نماز میں انسان کا جسم اور اعضا نہیں بلکہ اصلاً اس کا دل اور روح خدا کے سامنے جھکتے اور اس کا سارا وجود عملاً اس کی پاکی اور بڑائی کا اعتراف کرتا ہے۔ اس عمل کی یہی حقیقت اسے ایمان و کفر کے درمیاں حد فاصل بناتی اور اس کی پابندی کا التزام و اہتمام کرنے والے انسان کو خدا کے عفو و کرم اور نعمتوں اور بخششوں کا حقدار بنادیتی ہے۔

داخلہ جنت کی شرائط
’’حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام رکھو، اپنے ماہِ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اپنے حاکم (نظام و قانون) کی اطاعت کا رویہ رکھو (اس طرح) تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘، (مشکوٰۃ، رقم 571)

یہ بڑی خوبصورت اور بلیغ و جمیل روایت ہے۔ اس میں گویا کہ جنت میں داخلے کی شرائط جمع کردی گئی ہیں۔ جسے اپنے رب کی جنت درکار ہو، اس پر لازم ہے کہ اس روایت میں دی گئی ہدایات کو حرزِ جاں بنالے۔ ارشاد فرمایا: پانچ وقت کی نمازوں کا اہتمام رکھو اور برابر ان کی ادائیگی کرتے رہو۔ بندگی کی مکمل اسپرٹ اور نماز کے پورے آداب کے ساتھ اسے اپنی زندگی کا معمول بنائے رکھو۔ نمازوں کا اہتمام گویا کہ ہر وقت خدا کی بندگی اور اس کی یاد کی کیفیت میں جینا اور ہر آن و لمحہ اس بات کا منتظر رہنا ہے کہ کب میرے آقا و مولیٰ کا بلاوا آئے اور میں لبیک کی صدا لگاتا ہوا اس کی بارگاہِ بے نیاز میں سراپا عجز و بندگی بن کر حاضر ہوجاؤں۔

آگے فرمایا: ماہِ رمضان کے روزے رکھو۔ یعنی اس ماہِ صیام میں خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کی مجسم تصویر بن جاؤ۔ اس کے اشارۂ ابرو پر اپنی جائز ضروریات کی تکمیل تک سے رک جاؤ۔ رمضان کے روزے اصلاً ایک مؤ ثر قسم کی ٹریننگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بندۂ مومن اس ماہ میں روزے رکھ کر صبر و برداشت، حدود کی پابندی اور خدا کے احکام و فرامین کی سرفروشانہ اطاعت و پیروی کی مشق کرتا اور اپنے نفس کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی ٹریننگ حاصل کرتا ہے۔

اس کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی کی تلقین ہے۔ زکوٰۃ خدا کے دیے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کا وہ کم سے کم مطالبہ ہے جو قانوناً فرض کیا گیا ہے۔ ورنہ بندۂ مؤمن سے اصلاً مطلوب یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت سخاوت و فیاضی، غرباء پروری اور نصرتِ دین کے لیے انفاق و قربانی کی تصویر بنا رہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ خدا کی بخشش و عنایت اور اسی کا دیا ہوا ہے۔ اس کا بہترین مصرف اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر اس کے بندوں کی امداد و بہبود اور اس کے دین کے فروغ و اشاعت کے راستے میں خرچ ہو۔

اس کے بعد ہدایت فرمائی کہ اپنے اولو الامر کی اطاعت کرو۔ قانون و نظام کے تابع اور پابند رہو۔ یہ ہدایت اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ آج مسلمان اسے تقریباً بھلا چکے ہیں۔ وہ اس بات سے بالکل ناواقف ہیں کہ مسلمان کبھی قانون شکن نہیں ہوتا۔ وہ اپنے تمام معاملات اور ذمے داریاں قانون کے دائرے اور حدود کے اندر رہ کر سرانجام دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو ایذا دینے اور نقصان پہنچانے والا نہیں ہوتا۔ وہ سماج میں انتشار، انارکی، بدامنی، وحشت و دہشت اور عدمِ تحفظ کے تلخ احساسات کو فروغ دینے والا نہیں ہوتا۔ یہ چیز اور وصف کوئی نفلی معاملہ یا محض فضیلت کی چیز نہیں ہے بلکہ اس روایت کی روشنی میں یہ داخلہ جنت کی لازمی شرائط کی حیثیت رکھتی ہے۔ بندۂ مؤمن جب اپنے ملک و معاشرے کے قوانین کی پیروی کرتا ہے تو وہ خدا و رسول کے حکم و تعلیم پر بھی عمل کررہا ہوتا ہے۔ اسی طرح قانون شکنی اور قانون کی خلاف ورزی کا رویہ اختیار کرنے کی صورت میں وہ خدا و رسول کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔

روایت کے مطابق یہ وہ اوصاف، خصلتیں اور کردار ہے جو ایک بندۂ مؤمن کو جنت کا حق دار بناتا ہے۔ روایت کے خوبصورت الفاظ ایک مرتبہ پھر ذہن نشین کرلیجیے: فرمایا: اپنی پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام رکھو، اپنے ماہِ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اپنے حاکم (نظام و قانون) کی اطاعت کرتے رہو (اس طرح) تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔
M zak f
About the Author: M zak f Read More Articles by M zak f: 13 Articles with 20512 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.