ہولناک عذاب۔ وہ سرزمین جو آج تک آباد نہ ہوسکی

قوم عاد نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیمات کو بھلا کر بت پرستی اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہدایت کے لئے حضرت ھود علیہ السلام کو مقر ر فرمایا۔ھود علیہ السلام نے قوم عاد کو خدا پرستی اور انصاف کی دعوت دی لیکن اس قوم کے چند افراد کے علاوہ تمام لوگ اپنے آداب و رسوم سے چمٹے رہے۔حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی تبلیغ اور وعظ سے ہر ممکن کوشش کی اور ان بت پرستوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ لیکن شیطان کے بہکانے میں آکر قوم عاد ، ہود علیہ السلام کو ستانے اور تنگ کرنے لگی ۔ جب ان کے مظالم اور نافرمانیاں حد سے بڑھ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک ہولنا ک عذاب بھیجا ، جو تمام چیزوں کو فنا کر دینے والا تھا۔سات راتیں اور آٹھ دن تک آگ کی طرح گرم ہوا کا عذاب ، آندھی طوفان اور گرد غبار کی شکل میں ان پر برستا رہا۔

گرم ہواﺅں کے اس طوفان نے عادیوں پر سنگباری شروع کردی۔ انکے دماغ پھٹ گئے ، ہوا نے انھیں اٹھا اٹھا کر پٹخا۔ سر الگ ہوگئے ، دھڑ الگ جا پڑے۔ یہ ہوا سوار کو سواری سمیت اٹھا لیتی تھی اور بہت اوپر لے جاکر اسے اوندھا دے پٹختی تھی ۔ جس سے عاد کی قوم تباہ و برباد ہوگئی۔حضرت ہود علیہ السلام اور آپ کے مومن ساتھی وہاں سے دوسرے شہر میں چلے گئے جو بعد میں ’حضرت موت‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس شہر میں آپ ؑ نے عمدہ اور عادلانہ نظامِ زندگی کی بنیا د رکھی۔

قوم عاد پر جس جگہ اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا وہ جگہ سینکڑوں سال تک ویران پڑی رہی۔پھر ایک قوم جس کے سردار کا نام ثمود بن عامر تھا ، خشک صحرا کی گرمی سے تنگ آکر اس پہاڑی خطہ میں آئی اور اس جگہ چشموں کے قریب اس نے رہائش اختیار کر لی۔ ثمود کی قوم کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا، یہ قوم بھی بت پرست اور ظالم تھی ۔ اس قوم کے طاقتور لوگوں نے زمینوں اور پانی پر قبضہ کرلیا تھا اور کمزوروں کو اپنا غلام بنالیا تھا۔ جن سے سنگ تراشی ، مکانوں کی تعمیر اور بت سازی کا کام لیا جاتا تھا۔ قوم ثمود نے کئی بت بنا رکھے تھے اور انھیں زمین، ہوا، پانی ، آگ اور دوسری چیزوں کے خدا کا نام دے رکھا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے ثمودیوں کے ہدایت کے لئے حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا ، آپ ؑ کا خاندان نیکی اور بھلائی میں مشہور تھا لیکن جب آپؑ نے نبوت کا اعلان کیا تو لوگ یہ سرکش لوگ آپ سے کنارہ کش ہوگئے۔شیطان بھی ان گمراہوں کو مزید وسوسہ میں مبتلا کر رہا تھا کہتا، بڑی عجیب بات ہے کہ یہ شخص کل تک ہمارے درمیان ایک چرواہے کی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن اب عجیب و غریب باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اپنے خداﺅں کو چھوڑ دو اور ایک خدا کی عبادت کرو، جسے کسی نے دیکھا بھی نہیں ہے۔ اگرچہ ثمود نے قوم عاد کے بارے میں واقعات سن رکھے تھے اس لئے دل ہی دل میں ڈرتا بھی تھا۔ ایک دن اپنی قوم سے کہنے لگا ”صالح ؑ لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے اور ہمارا سکون برباد کرنا چاہتا ہے، معلوم نہیں وہ کیوں ایسا کرنا چاہتا ہے، اس لئے اس کا علاج سوچنا چاہیئے۔

ایک دن ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کو دعوت دی اور کہنے لگا کہ تم نے ہماری زندگی اجیرن کردی ہے ، تم ہمارے خداﺅں کو بھی نہیں مانتے ؟ یہ نئی باتیں تم کہاں سے لے آئے ہو اور ان دیکھے خدا نے تمہیں کیسے اس کام پر معمور کردیا ہے۔صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا ۔تم کہتے ہو کہ سب لوگوں کو خدا نے پیدا کیا ہے اور وہ سب سے طاقتور ہے ۔اگر تم سچے ہو تو کوئی ایسا معجزہ دکھاﺅ جو کوئی دوسرا نہ کرسکے۔ لہٰذا اس کی کوئی نشانی دکھاﺅ۔صالح علیہ السلام نے کہا اگر ایسا ہوجائے اور جو نشانی مانگتے ہو ، وہ ظاہر ہوجائے تو تم ایمان قبول کرلو گے۔ثمودیوں نے ایمان لانے کا وعدہ کرلیا۔

قوم ثمود کے لوگوں نے سوچا کہ صالح ؑ سے کوئی عجیب و غریب معجزہ طلب کرنا چاہیئے تاکہ وہ ظاہر نہ کرسکے اور رسوا ہو۔چنانچہ انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک سنگلاخ چٹان (پہاڑ)سے ایک اونٹنی نکالیں جو گابھن ( دودھ دینے والی اور حاملہ) ہو ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ تم نے جو عہد کیا ہے اس پر قائم رہنا اور اسے ہرگز نہ بھولنا ، اگر تم نے اس اونٹنی کو نقصان پہنچایا اور اپنے عہد سے پھر گئے تو تم پر عذاب نازل ہوگا۔قوم ثمود سوچ رہی تھی کہ زندہ اونٹنی پہاڑ سے کیسے نکل سکتی ہے ، لہٰذا انھوں نے یہ شرط منظور کرلی۔

حضرت صالح علیہ السلام نے نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی ، آپ ؑ کی دعا منظور ہوگئی اور اُن کے دیکھتے دیکھتے ہی وہاں موجود ایک پہاڑ جس کا نام” کاتبہ“ تھا ، اس پہاڑ نے ہلنا شروع کردیا اور چٹخ گیا۔اسکے درمیان سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی۔اسے دیکھتے ہی ثمودیوں کے ایک سردار جندع بن عمرو اور اسکے ساتھیوں نے تو اسلام قبول کرلیا۔ باقی اور سردار بھی ایمان لانے کے لئے تیار تھے مگر ثمودیوں میں ذواب بن عمرو اور حباب نے جو ،بتوں کے مجاور تھے، انھیں ایمان لانے سے روک دیا۔

اس حاملہ اونٹنی سے اس وقت ایک بچہ ہوا، اور ایک مدت تک یہ دونوں اس بستی میں رہے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ ایک دن کا پانی یہ اونٹنی پیئے گی ایک دن تم استعمال کرو گے۔ جس دن اونٹنی اپنے حصے کا پانی پیتی اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ سب لوگ اپنے برتن بھر لیتے۔یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے گرد چرتی پھرتی تھی ، ایک راستے سے جاتی اور دوسرے راستے آتی۔ یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی جس راستے سے گزرتی ، سب جانوار اِدھر اُدھر ہوجاتے تھے۔

اس معجزے کے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے ، ایک دن اکھٹے ہوئے اور کہنے لگے یہ درست ہے کہ اونٹنی پہاڑ سے نکلی ہے لیکن ہمیں اس سے نقصان ہو رہا ہے۔صالح ؑ کا دین ایک دن سب کا پسندیدہ بن جائے گا اور ممکن ہے کہ ثمودیوں کا نام و نشان بھی مٹ جائے۔چنانچہ وہ طرح طرح کے منصوبے بنانے لگے کہ کسی طرح اس اونٹنی کا خاتمہ کردیں، لیکن ڈرتے تھے کہ اگر عذاب کا وعدہ سچا ہے تو پھر کیا ہوگا۔

اس شہر میں کچھ افراد ایسے تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہیں تھا ، سراسر فسادی تھے۔ چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے ، ان کے کہنے سننے سے دو افراد جن کے نام مصدع اور قدار تھے، اونٹنی کو ہلاک کرنے کے لئے راضی ہوگئے اور اونٹنی کے واپس آنے کے راستے میں یہ دونوں اپنی اپنی کمین گاہوں میں گھات لگا کر بیٹھ گئے۔

جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مارا جو اس کی ران کی ہڈی میں پیوست ہوگیا۔ اس کے بعد قدار نے اس دونوں پچھلے پاﺅں کاٹ دیئے ، اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکالی ، جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہوگیا اور اس راستے کو چھوڑ کر بھاگتا ہوا پہاڑی پر چلا گیا۔ قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مرگئی۔ اونٹنی کا بچہ جو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا تھا تین مرتبہ چلّایا ۔ اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی اور پھر جس چٹان سے نکلا تھا اسی میں سما گیا۔

حضرت صالح علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقع پر پہنچے ، دیکھا کہ اونٹنی بے جان پڑی ہے۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا ‘ بس اب تین دن میں تم ہلاک کردیئے جاﺅ گے، اور ہوا بھی یہی ، بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہیں آیا ، اس لئے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کرلیا کہ آج شام کو صالح کو بھی مار ڈالو۔ اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے۔ اور اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو روز روز کے اس جھنجٹ سے جان چھوٹ جائے گی۔

ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اس کے گھرانے کو تہہ تیغ کردو اور صاف انکار کردو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا ہے۔ رات کو یہ اپنی بدنیتی سے حضرت صالح علیہ السلام کے گھر کی طرف چلے ، آپ کا گھر پہاڑ کی بلندی پر تھا، ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے کہ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئے آئی اور سب کو پیس ڈالا ۔ ان کا تو یہ حشر ہوا، ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑگئے ، جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہوگئے اور ہفتے کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا، ان کے منہ سیاہ ہوگئے۔تین دن جب گزر گئے تو چوتھے دن اتوار کو صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا، جس کی ہولناک اور دہشت انگیز چنگھاڑ نے ان کے کلیجے پھاڑ دئیے ، ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا اور پہاڑ سے آگ کا لاوا نکلا جس سے ایک ہی لمحہ میں ثمودیوں کے مرد ، عورت ، بچے، بوڑھے سب ہلاک ہوگئے۔ لاشوں سے مکانات، بازار ، گلی کوچے بھر گئے۔ اور ان کے پتھروں کے مضبوط گھر خاکسر ہوگئے۔

اللہ کی شان دیکھئے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لئے ایک کافر عورت بچا دی گئی۔ یہ بھی بڑی خبیثہ تھی ، حضرت صالح علیہ السلام کی عداوت کی آگ سے اس کا دل بھرا ہوا تھا۔ اس کی دونوں ٹانگی معذور تھیں لیکن جب عذاب آیا اسکے پاﺅں صحیح ہوگئے ، یہ اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر پہنچی اور وہاں جاکر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد ہی پانی مانگا۔ ابھی پوری پیاس بھی نہ بجھی تھی کہ عذاب الٰہی آپڑا اور وہیں ڈھیر ہوگئی۔ایک اور شخص جس کا نام ابو دغال تھا وہ بھی اس عذاب سے بچ گیا تھا کیونکہ وہ اس وقت حرم کی پاک سرزمین پر تھا ، لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حرم کی حد سے باہر آیا ، اسی وقت آسمان سے ایک پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کردیا۔ ثمودیوں میں سے سوائے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے مومن صحابہ ؓ کے کوئی بھی زندہ نہ بچا۔ اس عذاب کے بعد سے قوم ثمود کی سر زمین آج تک آباد نہ ہوسکی۔

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابو دغال کی قبر کے پاس سے گزرے تو فرمایا ”جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔یہ ابو دغال کی قبر ہے ۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا ، اپنی قوم کے عذاب کے وقت یہ حرم میں تھا ، اس وجہ سے عذاب الٰہی سے بچا رہا لیکن جیسے ہی حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا یہیں دفن کیا گیا ۔

سنہ ۹ ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ ثمودیوں کی اس اجاڑ بستی سے گزرے ، لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنووؤں کے پانی سے آٹے گوندھے ، ہانڈیاں چڑہائیں، تو آپﷺ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کا کھلا دیئے جائیں، پھر فرمایا یہاں سے کوچ کرو اور اس کنویں کے پاس ٹھہرو جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاﺅ نہ کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ، اسی عذاب کے شکار تم بھی ہوجاﺅ۔
(ماخوذ: تفسیر ابن کثیر)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی نافرمانیوں اور زمینی و آسمانی آفات سے محفوظ رکھے ۔ آمین

 

M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 323090 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.