جو لوگ اپنے پیشے سے عشق کرتے ہیں۔ خلوص نیت سے کام کرتے
ہیں، جہد مسلسل،عمل پیہم اور ہمت مرداں کی بدولت آگے بڑھتے رہتے ہیں تو پھر
ایسے ہی لوگ تاریخ میں مشاہیر کا درجہ اختیار کر جاتے ہیں ایسی ہی شخصیات
میں ایک منفرد نام پروفیسر عبدالعزیز خان نیازی مرحوم کا بھی ہے جو اپنی
مثال آپ تھے۔ جہاں وہ ایک عظیم معلم تھے وہاں ایک بہترین منتظم بھی تھے
قرطبہ یونیورسٹی کے بانی پریذیڈنٹ تھے 13 فروری 1939 کو غلام حسین خان
نیازی کے آنگن میں ایک پھول کھلا جو گزرتے لمحات کے ساتھ ایک شجر سایہ دار
میں تبدیل ہوگیا وہ نیازی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ میانوالی کے قصبے
روکھژی میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد بزرگوار کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ
تھے۔ عبدالعزیز کی ماں بولی سرائیکی تھی، لیکن اسے اردو انگلش فارسی اور
پشتو پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی والدہ ماجدہ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے
تھا۔بعد ازاں وہ پشاور میں مقیم ہو گئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈیرہ
اسماعیل خان کے اسلامیہ سکول سر کلر روڈ سے حاصل کی۔ خالصہ اسکول سے میٹرک
کا امتحان پاس کیا ساتھ ہی انہوں نے منشی فاضل کی سند بھی حاصل کی بعدازاں
ایف اے اور بی اے کی ڈگری پرائیویٹ طور پر حاصل کی۔ ان میں ادبی ذوق کوٹ
کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اردو زبان و ادب سے لگاؤ تھا۔ یہی جذبہ انہیں پشاور
یونیورسٹی لے گیا جہاں سے انہوں نے اردو میں ماسٹر کیا۔
جامعہ پشاور کے ڈیپارٹمنٹ آئی ای آر سے بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگری حاصل
کی۔ان کا شمار ذہین وفطین طالب علموں میں ہوتا تھا۔وہ نصابی و ہم نصابی سر
گرمیوں میں حصہ لیتےبچپن میں کبڈی بھی کھیلا کرتے تھے۔وہ ایک اچھے تیراک
بھی تھے۔ دریائے سندھ میں سوئمنگ سے لطف اندوز ہوتے۔آپ مستقل مزاجی اور
منصوبہ بندی سے محنت کر تے۔اور یہی ان کی کامیابی کا راز بھی تھا۔
ان کی شخصیت کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ وہ پیشہ معلمی سے سے محبت رکھتے تھے
یہی شوق انہیں اسلامیہ کالجیٹ کی طرف لے گیا جہاں انہوں نے چار برس تک بچوں
کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ بعدازاں یونیورسٹی پبلک سکول میں تبادلہ ہوا۔
وہاں انہوں نے 21 سال تک تدریسی خدمات سرانجام دیں۔
ان کی زندگی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ان کا طریقہ تدریس بہت منفرد
تھا عام فہم زبان میں بچوں کو سمجھاتے روزمرہ مثالوں سے اپنے نکتے کی وضاحت
کرتے اور بچوں کے اذہان و قلوب میں ڈال دیتے تھے۔ طلباء کو متحرک و فعال
رکھتے۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے شاگردوں میں مقبول تھے۔ آپ کے ہزاروں شاگرد
تھے۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے تربیت یافتہ متعلمین نہ صرف خیبر پختونخوا، بلکہ
پورے پاکستان میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
دوران تدریس آپ تنظیم اساتذہ میں شامل ہوئے۔ ترقی کرتے کرتے آل پاکستان
تنظیم اساتذہ کے نائب صدر بنے۔اور اس دوران آپ کے تجربات و مشاہدات میں
اضافہ ہوتا گیا۔آپ کی فعال شخصیت نے تنظیم کو فعال بنانے میں کلیدی کردار
ادا کیا۔
اس تنظیم کے جھنڈے تلے ملک بھر میں تعلیمی موضوعات پر سیمینارز میں شرکت کی
جس سے آپ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا گیا یہ 1981کی بات ہے جب آپ نے
اسلامیہ کالج کے بلمقابل ایک پرائمری سکول کی داغ بیل ڈالی جو آپ کی زندگی
کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ ہمت مرداں مدد خدا کی بدولت آگے بژھتے گئے۔
کلاس پروموٹ ہوتی گئی تو ادارے کو بھی وسعت ملتی گئی۔ 1988 میں میٹرک کا
پہلا بیچ نکلا ۔وقت کا پہیہ گھومتا گیا اور آپ ترقی کی منازل طے کرتے گئے۔
1991میں پشاور کی جدید بستی حیات آباد میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا۔ پھر چشم
فلک نے دیکھا کہ کس طرح مستقل مزاجی اور انتھک محنت سے اسکول کالج میں
تبدیل ہوا پھر کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔
2001میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے یونیورسٹی کی منظوری دے دی جس کا مین
کیمپس ڈیرہ اسماعیل خان میں تھا اور اس کی بڑی برانچ شہر پشاور میں تھی۔
آپ نے اسپین کے مشہور تاریخی علمی شہر قرطبہ کی مناسبت سے ادارے کا نام
قرطبہ یونیورسٹی رکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک عظیم علمی درسگاہ
میں تبدیل ہو گئی ۔یوں آپ اس کے پہلے پریذیڈنٹ بنے۔ آپ نقل کے خلاف تھے اور
محنت کی عظمت پر یقین رکھتے تھے اور یہی نیک جذبہ نئی جنریشن میں منتقل
کیا۔ان کا سٹیمنا بے مثل تھا۔تکھاوٹ کا لفظ تو ان کی ڈکشنری میں تھا ہی
نہیں۔خیر خواہی کے جزبے سے سرشار۔محبت سے لبریز دل۔
چہرے پر متانت ، مزاج میں سادگی اور شگفتگی تھی شفیق اور مہربان تھے
کارکنوں کی عزت کرتے تھے ان پر اعتماد رکھتے اور یوں ان کا دل جیت لیتے تھے
پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ اس صوبے کی ہر دلعزیز شخصیت کا روپ دھار گئے۔
یوں تو آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا لیکن ان کے لنگوٹیا یارو ں میں ڈاکٹر
سعد، پروفیسر فتح الرحمان اور ڈاکٹر محمدسلیم مرحوم شامل تھے۔
علمی گفتگو کرتے بامقصد باتیں کرتے تھے پاکستانیت کے علمبردار تھے
اخباربینی، کتب بینی ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ کلیات اقبال ان کی پسندیدہ
کتاب تھی۔ شعر و شاعری اور ادب سے لگاؤ رکھتے تھے۔ چونکہ آپ ایک مذہبی
شخصیت بھی تھے متعدد بار ان کو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی ۔ کئ مرتبہ
عمرے کی بھی سعادت حاصل کی۔انہوں نے کئ ممالک کے تعلیمی دورے بھی کئے جن
میں سعودی عرب،ترکی،آزربائیجان، متحدہ عرب امارات اور افغانستان سمیت دوسرے
ممالک کی تعلیمی سیر بھی کی۔آپ کے چار صاحبزادے اور نو صاحبزادیاں ہیں۔جن
میں ڈاکٹر ا ظہر خان نیازی چیئر مین قرطبہ ایجوکیشن سسٹم، ڈاکٹر ذوالفقار
خان نیازی وائس چیئر مین، محمد فیصل خان نیازی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، ڈاکٹر
عبداحفیظ خان نیازی پریزیڈنٹ قرطبہ یونیورسٹی ہیں۔ ان کے دامادوں میں ڈاکٹر
سعیداللہ قاضی مرحوم فدا گل ایڈوکیٹ جو پشاور ہائی کورٹ کے صدر بھی رہ چکے
ہیں۔ڈاکٹر ممتاز(ر) پشاور یونیورسٹی ۔شاہ خان کمشنر انکم ٹیکس۔محمد ابراھیم
ڈپٹی سیکر ٹری ہیلتھ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز دیکھنے
کے بعد بالآخر 18 فروری 2011 کو اپنے خالق حقیق سے جا ملے اور اہنے پیچھے
ایک لازوال داستان چھوژ گئے۔ان کی نماز جنازہ قاضی حسین احمد نے پڑھائی۔ان
کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مثبت سوچ ،اعلیٰ حکمت عملی اور محنت شاقہ
سے بلند مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
|