شکایت ہے مجھے یا رّب ! خداوندانِ مکتب سے

یوں تو نقل کی بیماری پورے پاکستان میں ہر سو پھیل چکی ہے مگر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں یہ بیماری اتنی پھیل چکی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا طالبعلم ہوگا جو اس موذی مرض کا شکار نہ ہوا ہو۔دردِ دل رکھنے والے حضرات اس بیماری کے برے اثرات سے اتنے دل گرفتہ ہیں کہ اب وہ سینہ چاک کرکے زخمِ دل اور غمِ دل دیکھا کر اپنے دِ ل کا بوجھ کم کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ ایسے ہی دردِ دل رکھنے والوں میں ہمارے ایک دوست باچا خان پبلک سکول کے پرنسپل کیپٹن (ر) لعل شریف بھی شامل ہیں ، لعل سے مراد ،ایسا ہیرا جس کا نعمت البدل کوئی نہ ہو ،جو بہت قیمتی ہو۔لعل شریف، شریف ہو یا نہ ہو مگر لعل ضرور ہیں کیونکہ نقل سے نفرت اور زیرِ تعلیم بچوں کے مستقبل کے بارے میں ان کی فکر مندی باعثِ تحریر کالم ہذا بنی۔

اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ کسی بھی قوم یا کسی علاقے کی ترقی کا راز تعلیمی نظام میں پوشیدہ ہے، تعلیمی نظام جس قدر عمدہ ہوگا قوم اس قدر مضبوط اور ترقی یافتہ ہو گی اگر کسی ضلع یا بحیثتِ مجموعی پورے ملک میں نطامِ تعلیم کمزور ہو تو اس قوم کے زوال میں کسی کو شک نہیں ہو نا چاہیے۔ہمارے ہاں نظام، تعلیم میں اگر چہ متعدد خامیاں موجود ہیں مگر سب سے بڑی خرابی نقل ہے، میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ تعلیمی نظام کو کھوکھلا کرنے میں بنیادی کردار نقل کا ہے ، پچھلے چند سالوں سے نقل کے رجحان میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے مجھے ڈر ہے کہ اگر یہی حال رہا تو اس قوم کے بچوں کا حال بھی ان شیروں جیسا ہو گا جن کو چڑیا گھر میں تیار خوراک کھانے کی عادت تھی ایک عرصہ کے بعد جب ان کو آزاد کرکے جنگل میں چھوڑ دیا گیا تو وہ شکار کرنے کے بجائے تیار خوراک کی آس لگائے لیٹے رہے اور آخر کار وہ لومڑ اور گیدڑوں کے منہ کا نوالہ بن کر شکار بن گئے۔ اگرہماری آج کی نسل محنت کرنے کی بجائے یوں نقل کے سہارے آگے بڑھتی رہی تو خدا نخواستہ وہ کہیں بزدل اور عیار دشمن کے منہ کو نوالہ نہ بن جائیں۔ نقل کے کئی وجوہات ہیں ،مگر نجی تعلیمی اداروں کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے ا ور تعلیم کو بزنس بنانے کے عمل نے نقل کے رجحان کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان و سربراہان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ساکھ امتحانات کے ریزلٹ سے  وابستہ ہے ،ریزلٹ اچھا ہوگا تو ادارے کے ساکھ میں اضافہ ہو گا ، ساکھ میں اضافہ ہو گا تو آمدن میں اضافہ ہو گا ، بد قسمتی سے پھر اس اضافہ کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس میں نقل سرِ فہرست ہے۔میٹرک، ایف ایس سی میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر پروفیشنل تعلیمی اداروں میں داخلہ ملتا ہے لہذا ان کلاسوں کے امتحانات میں نقل کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس میں لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی سے نقل کا اہتمام کرتے ہیں ۔نقل کرنے والے نوجوان معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں ان کے پاس ڈگری تو ہوتی ہے مگر کسی کام کے اہل نہیں ہوتے ملازمت کے حصول کے لئے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے در کے سوالی بن جاتے ہیں یا منفی سرگر میوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں بعض اوقات تو جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں۔نقل کم کرنے میں اساتذہ کرام ہراول دستے کا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔،کیونکہ پڑھانے والے بھی اساتذہ اور امتحان لینے والے بھی اساتذہ کرام ، اگر وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی مصلحت کا شکار نہ بنیں تو نقل کے رجحان میں قابلِ ذکر کمی آ سکتی ہے۔امام حضرت ابو حنیفہ سے ان کے عزیز شاگرد حضرت امام یوسف نے پوچھا کہ ’’ ا ستاد کیسا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’ استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہو، تو غور سے دیکھو اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے ‘‘ امام اعظم کے قول کے روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جائے تو معاشرے میں مادیّت پرستی کا غلبہ ہمیں واضح نظر آتا ہے، با ایں وجہ اگر ہم بہ زبانِ اقبال یہ کہیں کہ ’’ شکایت ہے مجھے یا رّب ! خداوندانِ مکتب سے۔۔۔سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا اساتذہ کرام سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ اپنے طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ نقل سے نفرت پیدا کریں، حکومت سے التجا ہے کہ میرٹپر ملازمتوں کا حصول ممکن بنایا جائے اگر ہر طالبعلم کو یقین ہو کہ مطلوبہ قابلیت و صلاحیّت کے بغیر ملازمت کا حصول کسی طرح ممکن نہیں تو یقینا وہ محنت کی طرف راغب ہو گا اور نقل سے دور رہے گا ۔۔۔۔
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 316002 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More