لاہور گیریزن یونیورسٹی کے خوبصورت آڈیٹوریم میں
تیسری بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ’’سیرت طیبہ کی روشنی میں فلاحی ریاست
کا تصور‘‘ منعقد ہوئی۔ اس دوروزہ کانفرنس میں دنیا بھر سے علمی و فکری
شخصیات نے مخصوص موضوعات پر تحقیقی مقالہ جات پیش کیے۔ اس کانفرنس کے
اختتامی سیشن میں راقم کو بھی ’’ مغرب میں فلاحی ریاست کا تصور اور پاکستان
میں اس کی ممکنہ صورتیں‘‘ کے عنوان سے اظہار خیال کی دعوت دی گئی ۔ اس سیشن
کی صدارت میجر جنرل ریٹائرڈ عبید بن ذکریا، وائس چانسلر LGU نے کی جبکہ
مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر فضل احمد خالد،چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن
کمیشن پنجاب تھے۔ مہمان مقررین میں شام سے ڈاکٹر غسان صالح عبدالمجید،
نائیجیریا سے ڈاکٹر ابوبکر احمد، فلسطین سے ڈاکٹر حسن نصر خمیس بظاظو،
ایران سے ڈاکٹر علی اکبر رضائی فرد اور برطانیہ سے راقم (مسعود اختر
ہزاروی) شامل تھے۔ اس سیشن کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر طاہر مسعود قاضی چیئرمین
شعبہ علوم اسلامیہ LGU ، جبکہ فوکل پرسن ڈاکٹر محمد وارث علی( اسسٹنٹ
پروفیسرو ایڈیٹر سہ ماہی ابحاث) تھے۔ عباس علی رضا لیکچرر شعبہ علوم
اسلامیہ نے بطریق احسن نقابت کے فرائض سرانجام دئے۔راقم نے اس موقع پر جو
اظہار خیال کیا اسے اختصار کے ساتھ قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔یہ حقیقت ہے
کہقوموں کی اجتماعی زندگی میں نظریہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ سیاسی،
معاشرتی اور معاشی نظریات مل کر ایک نظام اور قومی زندگی کا لائحہ عمل
ترتیب دیتے ہیں ۔ان نظریات کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کو منظم اور باوقار
بنانے کیلئے ریاست معرض وجود میں آتی ہے۔ باوقار اورمثالی ریاست وہی ہوتی
ہے جہاں سیاسی آزادی،اقتصادی خوشحالی،سماجی انصاف اور مذہبی کہ برداشت ہو۔
علم سیاسیات کی رو سے فلاحی ریاست میں تمام ریاستی باشندوں کے جان ومال اور
عزت و آبرو کے تحفظ اور ان کی معاشی و سماجی بہتری کی ذمہ دار ریاست خود
ہوتی ہے۔ آئینی طور پر تمام شہری مساوی حقوق کے حقدار ہوتے ہیں۔ ریاست کا
یہی کردار شہریوں کو ملک کا وفادار بناتا ہے۔ آج یہ نظام جہاں جہاں بھی
عملی شکل میں موجود ہے وہاں بہت سی خامیوں کے باوجود انسانی ترقی اور بقاء
دیگر ریاستوں کی نسبت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ یورپ میں فلاحی ریاست کا تصور
تو پرانا ہے، مگر موجودہ دور کی فلاحی ریاست یا سوشل سیکورٹی کے تصورات پر
انیسویں صدی کے آخر میں کام شروع ہوا۔ اس وقت یورپین ممالک میں حکومتیں سب
سے زیادہ رقم عوام پر خرچ کرتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق برطانیہ، فرانس، فن
لینڈ، بلجیم، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریا، سویڈن وغیرہ میں کل جی ڈی پی کا بڑا
حصہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔ فلاحی ریاست کی دیگر خوبیوں
میں ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں غربت تیزی سے کم ہوتی ہے ۔ جتنی تیزی
سے سرمایہ عوام پر صرف ہوتا ہے، اتنی ہی تیزی سے عوام کی حالت معاشی لحاظ
سے بہتر ہوتی ہے اور لوگ غربت کی لکیر سے اوپر کی طرف سفر کرتے جاتے ہیں۔
یورپین ممالک میں بلجیم، سویڈن، ناروے، نیدر لینڈ،فن لیند، ڈنمارک اور
جرمنی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں 1960کی دہائی میں غربت کی شرح 23.07 سے
لیکر15.02کے درمیان تک رہی ہے لیکن اب یہاں غربت چھ فیصد سے بھی کم ہو چکی
ہے۔برطانیہ کا فلاحی نظام بھی سماجی مساوات اور انصاف کے سہارے پر قائم ہے
گو کہ اس میں گزشتہ ایک دہائی سے مختلف تغیرات کی وجہ سے بہت کچھ بدلتا
دکھائی دیتا ہے لیکن پھر بھی یہاں انسانی زندگی پرسکون ہے اور اس کی بنیادی
وجہ ریاست کا کردار ہے۔ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ مغرب کے مذہب بیزار ہونے کی
وجہ سے کئی خامیاں بھی ہیں. ان میں سے ایک یہ کہ خاندانی نظام تباہ ہو چکا
ہے۔جنسی ضرورت کے لئے شادی ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ کوئی شوہر ڈھونڈے سے
نہیں ملتا جو کہے بیگم تم گھر رہو میں ہر چیز تمہیں گھر لا کے دونگا۔وہاں
ماؤں نے ایسے بیٹے بھی جننے چھوڑ دیے ہیں جو کہیں ماں تم آرام کرو اورمجھے
حکم دو کہ تمہیں کیا چاہیے ۔ایسی بیٹیاں نہیں ملتیں جو کہیں ماں تم تھک گئی
ہو آرام کرو ہم کام کر یں گی ۔ مسلمان عورتو!تم کسی ملکہ سے کم نہیں ہو باپ
کے سایہ میں لاڈوں سے پلی ہو۔بھائی تمہارا محافظ ہے۔شوہر تمہارا زندگی بھر
کا ساتھی اور کفیل ہے۔یاد رکھنا! تمہیں آزادی نسواں کے سنہرے خواب دکھا کر،
تمہاری عزت و آبرو اور وقار کا سودا ہو رہا ہے۔اس سازش کو نہیں سمجھو گی تو
تم بھی متاعِ کوچہ و بازار بن جاؤ گی۔اب ہم اسلامی نکتہ نظر سے فلاحی ریاست
کا جائزہ لے کر اس کی پاکستان میں ممکنہ صورتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔وطن عزیز
پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور یہ خطہ زمین
مسلمانان ہند کیلئے ریاست مدینہ کی طرز پراسلامی فلاحی اور نظریاتی ریاست
کے قیام کیلئے حاصل کیا گیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں ریاست مدینہ فلاحی
خدوخال کی حامل تھی اور اس کی بنیاد ہادی اعظم محمدﷺ نے خود رکھی۔ بعد ازاں
خلافت راشدہ میں اس فلاحی ریاست کے تصورات کو خصوصی اہمیت دے کر عملا
اپنایا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے شہریوں کے لیے کم از کم آمدنی
کی حدمقرر کی اور ضرورت مندوں کیلئے وظائف مقرر کیے ۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ کے دور میں اس تصور کو مزید تقویت ملی۔ انہوں نے بیت الما ل کی شکل میں
ایک فلاحی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد امیروں سے زکوۃ و
صدقات کی شکل میں عطیات لیکر غربا اور مساکین کی مالی اعانت تھی۔ یہ سوشل
سیکورٹی اور کفالت عامہ کی ایک ابتدائی شکل تھی۔ جس میں یتیم بچوں کی کفالت
اور پینشن کا تصور موجود تھا ۔علامہ اقبالؒ نے انقلابی اور فلاحی ریاست کا
نقشہ اپنے اس شعر میں کھیچ دیا ہے۔
نکتہ شرع مبیں این است و بس کس نہ گردد در جہاں محتاج کس
شریعت محمدیﷺ کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کا محتاج نہ
ہو۔یعنی نظام کفالت ہی فلاحی ریاست اور مثالی معاشرے کی بنیاد کی پہلی اینٹ
ہے۔پاکستان کو معرض وجود میں آئے 67 سال ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس
کے حصول کیلئے انگنت قربانیاں دی گئیں۔ آج بھی اُن بھیانک اور صبرآزما
احوال و واقعات کے چشم دید گواہ موجود ہیں جن میں پاکستان دنیا کے نقشے پر
ابھرا۔اگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر آج تک کی سیاسی اور مذہبی
تحریکوں کا مختصر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر نئے آنے والے راہنما یا
حکمران نے اپنے تہیں اخلاص کے ساتھ تبدیلی لانے کی کوشش اور دعوے کیے۔ لیکن
زمینی حقائق گواہ ہیں کہ کما حقہ وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ہم نے روٹی کپڑا اور
مکان مہیا کرنے کے نام پر عوامی انقلاب، اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے نظام
مصطفی، مصطفوی انقلاب اور اسلامی انقلاب جیسے حسین اور دلآویز نعرے اور
دعوے بھی سنے۔ ان تحریکوں میں ہزارہا محب وطن پاکستانیوں نے اپنی عزیز
جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔ ہمیں کسی کی نیت پہ شک ہے نہ ارادے پہ شبہ۔
اکثر و بیشتر سیاسی و مذہبی راہنما اور کارکنان محب وطن شہری اورتبدیلی کے
خواہاں ہیں۔ ہر نجی اور اجتماعی محفل میں یہی رونا رویا جاتا ہے لیکن ہمیں
اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ابھی تک کوئی تحریک کامیاب کیوں نہیں
ہوئی؟
ہر تحریک اورمشن کے وقت اور ماحول کے موافق کچھ تو معروضی حالات ہوا کرتے
ہیں۔ لیکن ہمیں آج دیکھنا یہ ہے کہ عمومی طور پر وہ کون سی وجوہات ہیں جو
انتھک کوششوں اورکاوشوں کے باوجود بھی پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست
بننے کے رستے میں رکاوٹ ہیں۔ہماری دانست کے مطابق پہلی رکاوٹ ہمارے سیاسی و
مذہبی راہنماؤں کے رویے اور ایک دوسرے کے بارے میں سوئے ظن ہے۔ جب ایک
سیاست دان دوسرے سیاستدان سے اختلاف رائے رکھتا ہے تو ساری سرحدیں پھلانگ
کر بغیر ثبوت کے الزام لگاتا ہے کہ یہ’’قوم کا غدار‘‘ ہے۔ یہ’’وطن کا غدار
ہے‘‘۔ اور جب مذہبی طبقہ اختلاف رائے رکھے تو الزام تراشی اور ساری سرحدیں
عبور کرنے میں وہ بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ بھی اختلاف رائے رکھنے والے کو
’’دین کا غدار‘‘ اور ’’اﷲ اور رسول کا باغی‘‘ جیسے القابات سے موسوم کرتے
ہیں۔ اس کا نتیجہ معاشرے میں نفرت، انتشار اور خلفشار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
حالانکہ اسلام ہمیں حسنِ ظن کا حکم دیتا ہے اور اسلام اور کفرکے درمیان ایک
واضح حد فاصل موجود ہے۔ ہمیں اس سے تجاوز کی قطعا اجازت نہیں ہے۔اس کے
علاوہ حکمران طبقہ کی فکر آخرت سے بے خوفی کے نتیجے میں حد سے زیادہ کرپشن،
دولت کی بے جا حرص میں قومی خزانے کو لوٹنا اور قومی مفاد ات کو پس پشت ڈال
کر اپنی تجوریوں کو بھرنا بھی ہمارا ایک قومی المیہ رہا ہے۔ جو کہ پاکستان
کو ترقی کی بجائے تنزل کی طرف لے جانے کا سبب بنا۔پاکستان کرہ ارضی پر فقط
نظریہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی ’’ریاست مدینہ‘‘ کے بعد
دوسری ریاست ہے۔ قائد اعظمؒ، علامہ اقبال ؒ اور دیگر اکابرین ہمارے محسن
ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمانان برصغیر نے قربانیاں اِن
میں سے کسی کے نام پر نہیں بلکہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ‘‘ کے
خوبصورت اور دلآویز نعرے سے متاثر ہو کردیں تھیں۔ اگر ہم اس حوالے سے ٹھوڑا
سا موازنہ کریں تو معلوم ہو گاہماری تحریکوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ
ہے کہ انفرادی طور پر اپنے وجود پر نفاذِ اسلام سے بے بہرہ ہیں۔ اسلام کے
دس فیصد کے قریب وہ حدود اور احکامات ہیں جن کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت وقت
پر ہوتی ہے۔ مثلا حدود شرعیہ، نظام ِعدل و انصاف اورنظام صلاۃ و ذکوۃ وغیرہ
کا قیام۔ لیکن نوے فیصد وہ احکامات ہیں جن کو آپ اور میں نے خود نافذ کرنا
ہو تا ہے۔ انکا تعلق ہماری ذاتی زندگی سے ہے۔ جن میں اعتقاد، عبادات،
اخلاقیات اور معاملات کی بجا آوری کا مکمل ضابطہ حیات کے طور پر ایک وسیع
سلسلہ ہے۔ اس حوالے سے جب ہم ریاست مدینہ سے موازنہ کریں تو واضح فرق محسوس
ہوتا ہے جو ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ حضورﷺ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل
دیا جس کا ہر فرد دین کے حکم کو دل و جان سے اپنے اوپر نافذ کرنے والا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مدینہ شریف میں قیام ریاست کے بعد نفاذ اسلام کیلئے نہ کوئی
تحریک چلی۔ نہ پوسٹر چھپے، بینر لگے اور نہ ہی مسلمانوں کو کسی لانگ مارچ
کی ضرورت پیش آئی۔ جو کوئی مدینہ کے خطہ پاک پر نفاذِ اسلام کا خواہش مند
تھا، اُس نے اﷲ کی طرف سے عطا کردہ پانچ چھ فٹ کی سرزمین جو اس کے اپنے
قبضہ قدرت میں ہے، پر پہلے نفاذ اسلام کیا۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ جو
زمین ہمارے اپنے اختیار میں ہے اس پر تو نوے فیصد اسلام کا نفاذ کرتے نہیں
اور جو دس فیصد حکومت کی زمہ داری ہے اس کیلئے سڑکوں پہ نکل کر اپنی جانوں
تک کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحثیت مسلمان
اپنی انفرادی زندگی میں احساس ذمہ داری پیدا کریں۔ حکمرانوں سے لیکر عوام
الناس تک اجتماعی توبہ کرکے اپنے آپ کو بد عملی، جھوٹ اور خود فریبی اور
خدا فریبی سے نکال کر حقیقی مسلمان بنائیں۔ علامہ محمد اقبال نے جس وقت
مسلمانان ہند کیلئے علحدہ وطن کا تصور پیش کیا تو ان کی آرزو تھی کہ
مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کااحساس دلا کر ایک ایسی ریاست کا قیام عمل
میں لایا جائے جو رنگ و نسل، زبان اور علاقہ کی بنیادوں کے بجائے ، معاشرے
کی ضرورتوں کی کفیل جدید طرز کی اسلامی فلاحی ریاست ہو ۔ بقول اقبال
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار نکہت خوا بیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
اسی طرح بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے خیالات، ایک اسلامی
فلاحی مملکت کے قیام میں معاون ثابت ہوئے۔ آپ نے کہا کہ’’میرا ایمان ہے کہ
قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر ریاست پاکستان، دنیا کی بہترین اور
مثالی ریاست ہوگی‘‘ مطلب یہ کہ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے ہی اسلامی
فلاحی مملکت کا تصور رکھتا ہے۔ قائد نے کئی مواقع پر واضح کیا تھا کہ وہ اس
مملکت پاکستان کو قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں ایک ایسی
فلاحی اورجمہوری ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جو پوری دنیا کے لیے
ایک مثال بن سکے۔ الحمد ﷲ اب یہ ریاست اب ایک جوہری طاقت بن چکی ہے لیکن
بانیان پاکستان کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان
کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔فرقہ واریت،
جاگیرداری، موروثی سیاست،رجعت پرستی، سرمایہ داری ،آمریت اور کساد بازاری
کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔عدل و انصاف، امن و امان اور یکساں نظام تعلیم کا
اہتمام اولیں ترجیح ہو۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات حکومت اپنے ذمہ لے۔ بے
گھر لوگوں کی رہائش کا اہتمام ریاستی ذمہ داری ہو۔عوامی شعور بیدار کر کے
لسانی، قبائلی اورنسلی تنازعات کا خاتمہ ضروری ہے۔ بلوچستان ہو، خیبر پختون
خوا کے نظر انداز کردہ علاقے ہوں، جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور محروم اضلاع
ہوں، سندھ کے میدانی یا صحرائی علاقوں میں غربت کے مارے خطے ہوں یا پاکستان
میں کہیں بھی شہریوں کے ساتھ ناانصافی اور حق تلفیوں کے واقعات ہوں۔ یہ سب
اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہونے یا پھر جانتے بوجھتے ذمے داریوں سے چشم پوشی
کا نتیجہ ہے۔آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اہل مغرب کے دعووں کے مطابق
آج کے اس متمدن اور مہذب دور میں امریکہ اور برطانیہ سمیت سبھی جدید ریاستی
سربراہوں کو قانونی طور پرعدالتی استثناء حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی
اعلی ترین ریاستی عہدوں پر فائز شخصیات کو قانونی استثنی حاصل ہے۔ عدالت کا
کوئی حکم پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کے خلاف چلا جائے تو پارلیمنٹ کی توہین ہو
جاتی ہے۔ جبکہ اسلامی فلاحی ریاست میں قانون کی نظر میں سب برابر ہیں گدا
ہو کہ بادشاہ اور کسی کوبھی استثناء حاصل نہیں ۔لہذا یسے متنازعہ قوانین کو
جلد از جلد ختم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ وطن عزیز کو استحکام نصیب
ہو ۔ اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رہے۔
|