تحریر:قاسم علی رانجھا
جب کوئی شخص اطباع رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اختیار کرتا ہے جسے قرآن میں
اﷲ نے سورہ آل عمران میں یوں بیاں کیا کہ اے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آپ
لوگوں سے کہ دے کہ جو اﷲ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ
وسلم سے محبت کرے تاکہ رب تمہارے گناہ معاف فرمادے یہی اتباع خودی کو بلند
کرکے اس مقام پر لے جاتی ہے کہ خودی کی یہ حد اسے خلوتوں سے نکال کر جلوتوں
میں لے جاتی ہے اسی قوت تسخیر یعنی عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے
مومن ہر پستی کو بالا کرنے کی قدرت رکھنے لگتا ہے یہ خودی ہی مومن کی وہ
فراست جو اسے اﷲ کی نظر سے اس کائنات کا مشاہدہ کرواتی ہے جو صرف عشق مصطفی
صلی اﷲ علیہ وسلم کی عطا ہے اس خودی کی معراج کا عالم یہ ہے کہ علامہ اقبال
فرماتے ہیں یہ خودی مجھے ایسے رازوں سے آگاہ کرتی ہے کہ جس کی ادائیگی کے
لئے کم از کم نفس جبرائیل درکار ہے کیونکہ یہ وہ راز خدائی ہے جسے زبان ادا
کرنے سے سراسر قاصر ہے خودی کی کاملیت کا انحصار عشق مصطفی پر ہے جو جلوتوں
میں کھونے پر اپنیمقام سے آگاہ ہوتی ہے اسی عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
نظر سے دونوں عقل و عشق رومی و رازی مراد پاجاتے ہیں عقل والوں کو غیاب بھی
حاصل ہوا اور عشق والوں کو حضوری بھی نصیب ہوتی ہے دونوں اپنے اپنے مقاصد
میں کامیاب ہوجاتے ہیں خودی وہ بحر بے کراں ہے جس کے کنارے کی تلاش انسان
کو تھکا دیتی ہے اس کے ہر قطرے میں دریا کی گہرائی موجود ہے کوئی سائنسی
جوابات کی تلاش میں نکلے تو اسے عقل کے نیو ٹران جس کا مرکز نیو کلئس یعنی
دل کہ گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں کوئی فلاسفر عقل کو عقل ُکل سمجھ کر سفر
میں نکلے تو کائنات کے جملہ جمالیات اسے عقل کی انتہا تک پہنچادیتے ہیں جس
کی خرد و عقل کی گتھیاں سلجھانے پر بھی تشنگی رہ جائے اسے صاحب جنوں کردیا
جاتاہے گوی اس سفر کی ابتدا تو ہے مگر انتہا کوئی نہیں اور یہی وہ عشق
مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ اقبال کہتے ہیں اگر کسی کافر کے دل میں بھی
عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی صرف ایک رمک پیدا ہوجائے تو وہ کافر بھی
مسلمان ہوجاتا ہے اور اگر کسی مسلمان کا دل بھی عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
سے خالی ہو اس شخص سے بڑا کوئی کافر و زندیق نہیں۔علامہ اقبال کے بچپن کا
ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک بھیکاری علامہ محمد اقبال کے گھر آیا اور زور
زور سے دستک دینے لگا اقبال باہر آئے اور اس بھیکاری کو ڈانٹنے لگے اور غصے
میں آکر اس کا کشکول زمین پہ دے مارا اتنے میں اقبال کے والد صوفی نور محمد
آئے یہ ماجرہ جب دیکھا توکچھ پیسے اسی بھیکاری کو دے کر معافی مانگی اور
اقبال کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئے اور کہنے لگے‘‘اے اقبال! اگر اس
بھیکاری نے بروز قیامت آقا و مولی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو تمہاری شکایت
لگا دی تو بتاو کس منہ سے آقا کا سامنا کروگے؟’’’’بس یہ بات سمجھنے کی دیر
تھی کہ علامہ اقبال کی زندگی عشق مصطفی سے سرشار ہوگئی اور یہی واقعہ اقبال
کی زندگی کا وہ Turning Point بنا کہ پھر زندگی کا ہر دن اسی احتیاط سے
گزارا کہ روز قیامت مجھے آقا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے حضور شرمندگی کا
سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔۔۔
اس شعر میں تو علامہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عشق کی انتہا کردی
فرمایا
لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سب کچھ آپ کے وجود ہی کی بدولت عالم وجود میں
آیا اگر آپ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وہ قلم
بھی آپ ہیں جس سے میری تقدیر لکھی جانی ہے وہ تختی بھی آپ ہیں جس پر تقدیر
لکھی جانی ہیں یا رسول اﷲ سارا قرآن بھی آپ ہیں سارا قرآن آپ ہی کی تعریفوں
سے بھرا ہوا ہے
اور یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ ساری وسیع و عریض کائنات زمین و آسماں
آپ کے محیط وجود میں اس طرح ہے جیسے سمندر میں ایک بلبلہ ہوتا ہے یا رسول
اﷲ سب کچھ آپ ہی ہیں سب کچھ آپ ہی کی بدولت ہے۔۔بات اگر جلوتوں میں مصطفائی
کے بعد خلوتوں میں کبریائی کی کی جائے تو اقبال کا اﷲ کے ساتھ تعلق بڑا
دوستانہ معلوم ہوتا ہے اقبال اﷲ کے نام خلیل یعنی (دوست) سے بخوبی واقف نظر
آتے ہیں کہتے ہیں یا اﷲ جس دن میرا نامہ اعمال تیرے حضور ُکھلے گا میرے
اعمال دیکھ کر تو بھی شرمسار ہوگا اور مجھے بھی شرمسار کرے گا لیکن یہی بات
جب جلوتوں میں مصطفائی تک پہنچتی ہیں تو اقبال سے نہ صرف وہ الفاظ چھین
جاتے ہیں جن سے ستاروں کے جگر چاک ہوجاتے ہیں بلکہ سر ادب ومحبت و ندامت سے
ُجھک جاتا ہے اور خدا کے حضور کہنے لگتے ہیں کہ یارب میں تو فقیر ہوں پر ُتو
تو ہر چیز پر قادر ہے گر تو چاہے تو مجھ سے حساب نہ لینے پر بھی قادر ہے گر
حساب لینا لازما مقصود ٹھہرے تو میرا نامہ اعمال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ
وسلم کے سامنے نہ کھولنا میں اپنے اس نامہ اعمال کے ساتھ آقا صلی اﷲ علیہ
وسلم کا سامنا نہیں کر پاونگا
نکلی تو لب اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا
پیغام سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی
اقبال کے عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی انتہا یہ ہے کہ کہتے ہیں یا رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم اگر آپ کا عشق میری نماز کا امام نہ ہو تو مجھے میری اس
نماز سے کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ آپ کے عشق کے بغیر میرے قیام و سجود (جن
کی روح عبادت ہے) وہ عبادت کی روح سے خالی رہے گے اور یوں یہ عبادت مجھے
کچھ فائدہ نہ دے سکے گییا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کے عشق سے ہی مجھے
آپ کی تشریف آوری سے پہلے کی بے رونق و بیسروساماں کائنات کا ادراک ہوتا ہے
آپ نے ہی اس کائنات کو ساماں بخش کے کائنات کا سماع باندھا آپ کے بغیر اس
جہاں کی حقیقت گم سم تھی آپ آئے تو جھرنوں کو آواز چاند کو چمک ہوا کو جنبش
افلاک کو گردش دریاوں کی روانی اور ریت کے زروں کو سورج کی سی چمک اور فروغ
بخشا گیایا رسول اﷲ جسے جو مقام ملا پس آپ کے صدقے ملا سلاجقہ کے سنجر سلیم
کی شان شوکت آپ کے جلال کی نمود ہے جنید بغدادی و بایزید بسطامی کا فقر آپ
کے جمال کو بے نقاب کرتا ہیعشق ایک ہے مگر اس کی سمتیں بے شمار اسی عشق نے
جب صداقت اختیار کی حضرت ابوبکر سیدنا ابوبکر صدیق کہلائے یہی عشق عدل و
انصاف کی صورت میں سیدنا عمر فاروق میں دکھائی دیا اسی عشق نے حضرت عثمان
کو وہ سخاوت بخشی کہ آپ سیدنا عثمان غنی کہلائے یہی عشق علم و معرفت و حکمت
میں سیدنا علی کرم اﷲ میں نظر آیا
یہی عشق میدان جنگ میں خالد کی تلوار میں دکھائی دیتا ہے اسی عشق کی نظر جب
معین الدین چشتی نظام الدین اولیا عثمان علی ہجویری رح پر پڑتی ہے تو
لاکھوں لوگ انہیں دیکھ کر اسلام قبول کرلیتے ہیں کبھی یہ عشق خیبر کے
دروازے کی دستک توڑ کر اکھاڑ پھینکتا دکھائی دیتا ہے اقبال نے ان تمام
رازوں کو آشکار کرکے اپنی کیفیت بھی بیاں کی ہے
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
عشق کے دم سے ہی وہ زندگی ہے زندگی جاوداں ہے اقبال کہتے ہیں اگر تو ان سب
اصرار سے واقف ہوجائے تو ممکن ہے کہ موت تجھ پر حرام ہوجائے عشق کی تقویم
(کلینڈر) میں تو وہ زمانے بھی موجود ہیں جو انسانی شعور سے بہت پرے بس عشق
کے ادراک میں آتے ہیں عشق وہ مسافر ہے جس کے ہزاروں مقام ہیں پس عشق زندگی
ہے اور زندگی عشق ہیاگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ پورے کا پورا دین اسلام اور
اس دین کی کامیابی کیا ہے تو میں کلیات اقبال کا حاصل (conclusion)علامہ کہ
اس ایک شعر میں بتا سکتا ہوں کہ پس۔۔۔۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
|