|
اب تک آئے روز سڑکوں پر دنگا فساد کرنے، جوئے کی لت پڑ جانے، حتیٰ کے نہایت
پیچیدہ قسم کے فراڈ کے ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ اس قسم کی حرکات اور عام ادویات کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے۔ کچھ
روز مرّہ کی ادویات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے دیرپا استعمال سے
خلجان اور عصابی تناؤ کم ہو جاتا ہے جبکہ کچھ دوائیں ایسی ہوتی ہیں جن کے
استعمال سے آپ لوگوں سے دور ہو جاتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ بہت سی عام ادویات نہ صرف
ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ ہمارے دماغ پر بھی اثر ڈالتی ہیں۔
لیکن ایسا کیوں ہوتا اور آیا وقت آ گیا ہے کہ عام ادویات کے پیکٹ پر بھی یہ
پیغام لکھا جائے کہ اس دوا سے آپ کے دماغ پر بھی اثر پڑ سکتا ہے؟
یہ تب کی بات ہے جب ایک تحقیق میں حصہ لینے والے ’مریض نمبر پانچ‘ پچاس کے
پیٹے میں تھے اور جب وہ ڈاکٹروں سے ملے تو ’ان کی زندگی بدل گئی‘۔
ان صاحب کو شوگر تھی اور وہ کولیسٹرول کم کرنے والی دوا ’سٹیٹن‘ پر جاری
ایک تحقیق میں حصہ لینے گئے تھے۔ ڈاکٹر یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ آیا
یہ دوا اب بھی شوگر کے مریضوں کے لیے موثر ہو سکتی ہے یا نہیں۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا۔
لیکن علاج شروع ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کی اہلیہ نے دیکھا کہ ان کے
شوہر میں عجیب و غریب قسم کی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایک
’معقول‘ شخص تھے، لیکن اب انہیں بیٹھے بٹھائے شدید غصہ آ جاتا اور انہوں نے
گاڑی چلاتے وقت سڑک پر دوسرے لوگوں سے جھگڑنا شروع کر دیا۔ ان کی اہلیہ کو
اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن شوہر کو اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے تمام گھر
والوں کو دھمکی دے دی کہ ’تم سب مجھ سے دور رہو ورنہ میں سب کو ہسپتال
پہنچا دوں گا‘۔
یہ سوچ کر کہ کسی دن سڑک پر کوئی بڑا ہنگامہ نہ ہو جائے، ان صاحب نے خود ہی
گاڑی چلانا چھوڑ دی۔ لیکن اس کے بعد بھی جب وہ ڈرائیور کے ساتھ والی نشت پر
بیٹھے ہوتے، انھیں غصہ آ جاتا اور وہ بیوی سے کہتے کے گاڑی واپس موڑو اور
گھر چلو۔ ایسی صورت میں وہ اپنے شوہر کو اکیلے گھر پر ٹی وی دیکھنے کے لیے
چھوڑ کر نکل جاتیں۔ اب انہیں اپنے بارے میں فکر ہونے لگی تھی کہ کہیں ان کا
شوہر گھر میں انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔
اور پھر ایک دن ’مریض نمبر پانچ‘ کو اچانک احساس ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفونیا سے منسلک بیوٹریس گولومب بتاتی ہیں کہ ان صاحب نے
کہا ’اب مجھے سمجھ آ گیا ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا تھا جب میں نے
تحقیق میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔‘
یہ احساس ہوتے ہی دونوں میاں بیوی بھاگے بھاگے تحقیق کرانے والے لوگوں کے
پاس پہنچے۔ گولومب کے بقول تحقیق کرنے والوں کا ’رویہ بہت جارحانہ تھا۔
انہوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ مریض نمبر پانچ میں آنے والی تبدیلیاں
اور دوا کے درمیان کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ ان صاحب کو
دوا نہیں چھوڑنی چاہیے۔‘
شکر ہے کہ اس وقت تک ان صاحب کو غصے کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ انہوں نے
ڈاکٹروں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ ’انہوں نے ڈاکروں کو کھری کھری سنا
دیں اور غصے میں وہاں سے اٹھ کر آ گئے۔ اس دن کے بعد انہوں نے دوا لینا بند
کر دی اور دو ہی ہفتے بعد ان کی اصل شخصیت واپس آ گئی۔
لیکن اس تحقیق میں حصہ لینے والے دیگر لوگ اتنے خوش نصیب نہیں تھے۔
گذشتہ کئی برسوں میں گولومب نے امریکہ بھر سے کئی مریضوں کی کہانیاں جمع کی
ہیں۔ سٹیٹن استعمال کرنے والے ان مریضوں کی کہانیوں میں نہ صرف ٹوٹی ہوئی
شادیوں اور لوگوں کی تباہ شدہ پیشہ ورانہ زندگیوں کی داستانیں ہیں، بلکہ
گولومب کو معلوم ہوا کہ سٹیٹن لینے والے مردوں کی ایک بڑی تعداد میں غصہ
اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنی بیویوں کو قتل کر دینے تک جا پہنچے تھے۔
اس قسم کے تقریباً ہر معاملے میں مزاج میں خرابی کے آثار اس وقت شروع ہوئے
تھے جب ان لوگوں نے سٹیٹن لینا شروع کی تھی اور جب انہوں نے یہ دوا روک دی
تو ان کو غصہ آنا بند ہو گیا۔ یہاں تک کہ ایک شخص کو یہ بات تب معلوم ہوئی
جب وہ پانچ مرتبہ اس صورتحال سے دوچار ہو چکا تھا کہ وہ جب بھی سٹیٹن کا
کورس کرتا اس کا مزاج خراب ہونا شروع ہو جاتا۔
گولومب کے بقول ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ دوا اور بدمزاجی میں تعلق کی سمجھ
تو دور کی بات ہے، اکثر لوگوں کو یہ سمجھنے میں بھی شدید مشکل ہوتی ہے کہ
واقعی ان کے رویے میں تبدیلی آ چکی ہے۔ کچھ مثالیں ایسی ہیں جہاں لوگوں کو
یہ سمجھ آ گئی لیکن بہت دیر سے۔
اس حوالے سے کئی مریضوں کے خاندان والوں نے گولومب سے رابطہ بھی کیا اور
انہیں بتایا کہ مریض نے خودکشی کر لی ہے۔ ایسے لوگوں میں بین الاقوامی شہرت
کے ایک سائنسدان اور ایک قانونی جریدے کے مدیر بھی شامل تھے۔
ہم سب سائیکی ڈیلیک ادویات (وہ ادویات جن کے کھانے سے انسان کو فریب نظر
ہوتا ہے اور اس کا ذہن کشادہ ہو جاتا ہے) کی خصوصیات سے واقف ہیں، لیکن
تحقیق بتاتی ہے کہ عام ادویات بھی ہمارے دماغ پر بالکل اسی طرح اثر انداز
ہو سکتی ہیں۔ یوں پیراسیٹامول سے لیکر کر الرجی اور زکام وغیرہ کی دوائیں (اینٹی
ہِسٹامین)، سٹیٹن برادری کی ادویات، دمہ کی دوائیں اور ڈیپرشن میں استعمال
کی جانے والی (اینٹی ڈیپریسنٹ) دوائیں، تمام کے بارے میں اب ثبوت سامنے آ
رہے ہیں کہ یہ دوائیں بھی ہمارے دماغ پر ایسے اثرات مرتب کر سکتی ہیں کہ ہم
بغیر سوچے سمجھے فیصلہ کرنے لگیں، ہمیں غصہ آنے لگے، ہم ایک جگہ ٹک کر نہ
بیٹھیں، اجنبی لوگوں سے ہمدردی کرنا چھوڑ دیں، اور اپنی شخصیت کے بنیادی
اوصاف کے ساتھ ہی کھیلنا شروع کر دیں۔
|
|
اکثر لوگوں میں اس قسم کی تبدیلیاں اتنی کم ہوتی ہیں کہ ہمیں خبر ہی نہیں
ہوتی، لیکن کچھ میں ان تبدیلیوں کا اظہار خاصا ڈرامائی بھی ہو سکتا ہے۔
مثلاً سنہ 2011 میں فرانس میں ایک شخص، جس کے دو بچے تھے، اس نے ایک دوا
ساز کمپنی پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ
پارکِنسنز کے مرض کے لیے جو دوا لے رہا تھا، اس کی وجہ سے وہ پیشہ ور جواری
اور ہم جنس پرست بن گیا۔
پھر 2015 میں ایک شخص جو انٹرنیٹ پر کم عمر لڑکیوں کو نشانہ بنانے کا مرتکب
پایا گیا تھا، اس نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ سارا کیا دھرا
’ڈورومائن‘ نامی اس (اینٹی اوبیسٹٹی) دوا کا تھا جو وہ موٹاپا کم کرنے کے
لیے لے رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس دوا کے لینے سے اس کا اپنے دماغ پر
کنٹرول کم ہو گیا تھا۔
اس کے علاوہ ہم آئے دن سنتے ہیں کہ کوئی قاتل اپنے جرم کا ذمہ دار سکون آور
(اینٹی سیڈیٹِو) ادویات یا ڈیپرشن کی کسی دوا کو قرار دے رہا ہے۔
اگر یہ دعوے سچ ہیں تو ان کے اثرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں۔ مجرم جن ادویات
کو اس قسم کے جرائم کا ذمہ دار بتاتے ہیں، ان کی فہرست میں کچھ ایسی ادویات
بھی شامل ہیں جو دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ روز مرہ لیتے ہیں۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ اگرچہ کسی ایک شخص پر ان ادویات کے اثرات بہت کم ہیں، لیکن
اگر آپ اسے بڑے پیمانے پر دیکھیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ ادویات دنیا میں
کروڑوں لوگوں کی شخصیت تبدیل کر رہی ہوں۔
ان ادویات کے اس قسم کے اثرات کے بارے میں بحث کے لیے آج سے بہتر شاید کوئی
وقت نہیں تھا۔ آج کل دنیا ادویات کے بے تحاشا استعمال کے بحران سے گزر رہی
ہے، جہاں صرف امریکہ میں سالانہ 49 ہزار ٹن پیراسیٹامول خریدی جاتی ہے،
یعنی فی کس 289 گولیاں سالانہ۔
اس کے علاوہ، جوں جوں عالمی سطح پر آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، لگتا ہے کہ
عام ادویات کی فہرست ہمارے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ مثلاً برطانیہ میں 65
سال سے زیادہ عمر کے ہر دس افراد میں سے ایک ایسا ہے جو ہر ہفتے آٹھ مختلف
دوائیں لیتا ہے۔
|
|
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادویات ہمارے دماغ کو کیسے متاثر کر رہی ہیں؟ کیا
کپمنیوں کو چاہیے کہ وہ پیکٹ پر لکھیں کہ اس دوا کے ہمارے دماغ پر منفی
اثرات بھی ہو سکتے ہیں؟
گولومب کو سٹیٹن اور مریض کی شخصیت میں تبدیلی کے درمیان تعلق کے بارے میں
پہلی مرتبہ دو عشرے قبل اس وقت شک پڑا تھا جب ایک تحقیق کے دوران ایک کے
بعد دوسری عجیب و غریب دریافت سامنے آنے لگی۔ مثلاً یہ کہ جن افراد میں
کولیسٹرول کی کمی ہوتی ہے ان کے کسی پرتشدد حادثے میں مرنے کے امکانات
زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر ایک دن وہ کولیسٹرول کے ایک ماہر سے کسی مریض کی شخصیت
میں تبدیلی اور پیراسیٹامول کے درمیان ممکنہ تعلق کے حوالے سے بات کر رہی
تھیں تو اس ماہر نے اسے ایک احمقانہ بات قرار دیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا
’ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
اس کے بعد گولومب نے ایک نئے جذبے کے ساتھ سائنسی اور طبی کتابوں اور
جریدوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ ’میں یہ دیکھ کر پریشان ہو گئی کہ میرے
اندازے سے زیادہ شواہد سامنے آنے لگے۔‘ انہیں معلوم ہوا کہ تحقیق سے یہ
ثابت ہو چکا تھا کہ اگر آپ جانوروں کو کم کولیسٹرول والی خوارک پر رکھیں تو
وہ زیادہ جارحیت پسند یا جھگڑالو ہو جاتے ہیں۔
سائسنی لٹریچر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کے مطابق
’ لگتا ہے کہ کولیسٹرول ان جانوروں کے دماغ میں سیروٹونِن کی مقدارپر
اثرانداز ہوتا ہے۔ سیروٹونِن دماغ کے اندر موجود ایک اہم کیمیائی مادہ ہوتا
ہے جو جانوروں کے مزاج اور ان کے معاشرتی رویے کو قابو میں رکھتا ہے۔ حتیٰ
کہ اگر آپ پھلوں پر بیٹھنے والی عام مکھیوں کے دماغ میں موجود سیروٹونِن کی
مقدار میں کوئی گڑبڑ کرتے ہیں تو وہ بھی لڑنا شروع کر دیتی ہیں۔ اسی قسم کے
کچھ ناگوار اثرات انسانوں میں بھی ہو سکتے ہیں، مثلاً تحقیق میں دیکھا گیا
ہے کہ انسانوں کے دماغ میں موجود سیروٹونِن میں گڑبڑ اور جارحیت پسندی،
متشدد جذبات، بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کے، خودکشی اور قتل کرنے کے جذبات
کے درمیان بھی تعلق پایا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سٹیٹنز انسانوں کے دماغ پر اثر کرتی ہیں، تو اس کی
وجہ جسم میں کولیسٹرول کی کمی ہوتی ہے۔
طبی اور سائنسی لٹریچر پر گولومب کی تحقیق کے بعد سے مزید ثبوت بھی سامنے آ
چکے ہیں اور مختلف ماہرین نے دیکھا ہے کہ سٹیٹنز اور بدمزاجی کے درمیان
ممکنہ تعلق موجود ہے۔ اس سلسلے میں گولومب خود ایک تحقیق میں مرکزی کردار
ادا کر چکی ہیں، جس میں معلوم ہوا ہے کہ سٹیٹنز کے استعمال میں ان خواتین
میں غصہ زیادہ ہوجاتا ہے جو بچے پیدا کرنے کی عمر سے تجاوز کر چکی ہوتی ہیں،
یعنی پوسٹ مینوپاز عمر کی خواتین میں۔ اس تحقیق میں یہ عجیب بات دیکھی گئی
کہ مردوں میں اس قسم کے اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔
سنہ 2018 میں ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ مچھلیوں میں بھی اسی قسم کے اثرات
ہوتے ہیں۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ اگر آپ دریائے نیل میں پائے جانے والی
تلیپیا قسم کی مچھلیوں کو سٹیٹنز دیتے ہیں تو وہ جھگڑالو ہو جاتی ہیں۔ اس
کا مطلب یہ ہے کہ کولیسٹرول اور تشدد کے درمیان تعلق شاید کروڑوں برسوں سے
چلا آ رہا ہے۔
اگرچہ گولومب سمجھتی ہیں کہ ہر شخص پر یہ اثرات دوسرے شخص سے بہت مخلتف ہو
سکتے ہیں، لیکن انہیں یقین ہے کہ کولیسٹرول میں کمی، یعنی سٹیٹنز کے
استعمال سے مردوں اور خواتین کے رویوں میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
گولومب نے سویڈن میں پولیس کے ریکارڈ کی بنیاد پر دو لاکھ پچاس ہزار مجرموں
میں کولیسٹرول کی مقدار پر تحقیق کی ہے۔ اس کی بنیاد پر ان کا کہنا ہے کہ
’ہمارے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں جو ایک ہی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اگر آپ
باقی عوامل کو رد بھی کر دیتے ہیں، آپ کو پھر بھی نظر آتا ہے کہ وہ لوگ جن
میں کولیسٹرول کی کمی ہوتی ہے ان کے کسی پُرتشدد جرم میں پکڑے جانے کے
امکانات دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔‘
|
|
تاہم گولومب کے لیے یہ بات جاننا زیادہ حیرت انگیز نہیں کہ عام ادویات
ہماری شخصیت پر اثرانداز ہو سکتی ہیں، بلکہ حیران کن بات یہ تھی کہ کوئی
بھی اس بارے میں بات یا تحقیق نہیں کرنا چاہتا۔ ان کے بقول ’صرف ان چیزوں
میں بہت زیادہ دلچپسی دکھائی جاتی ہے جنہیں ڈاکٹر آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
مثلاً بہت عرصے تک سٹیٹنز کھانے کے پٹھّوں اور جگر پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔
آپ اس قسم کے اثرات کو خون ٹیسٹ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔‘
یہی بات ڈومینک مسچاؤسکی بھی کہتے ہیں جن کا تعلق امریکہ کی اوہائیو
یونیورسٹی سے ہے اور وہ درد پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی
دوا کے انسانی شخصیت یا رویوں پر اثرات اور اس پر کی جانی والی تحقیق کی
بات کی جائے تو دونوں چیزوں میں بہت بڑی خلیج پائی جاتی ہے۔ ہم ان ادویات
کے جسم پر طبعی اثرات کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں
جانتے کہ یہ ادویات انسانی رویوں پر کیسے اثرانداز ہوتی ہیں۔‘
مسچاؤسکی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ پیراسیٹامول کے بھی خاصے عجیب
اثرات ہوتے ہیں۔ سائنسدان ایک عرصے سے جانتے ہیں کہ پیراسیٹامول درد روکنے
کے لیے ہمارے دماغ کے کچھ حصوں کو قدرے سُن کر دیتی ہے، مثلاّ دماغ کے
اندرونی حصے (انسولر کورٹیکس) کو۔ یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو ہمارے جذبات میں
اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو اس چیز پر بھی اثر انداز ہوتا ہے
کہ ہم کس قدر معاشرتی درد محسوس کرتے ہیں، یعنی کسی دوسرے شخص کے لیے کتنی
ہمدردی رکھتے ہیں۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمیں مسترد کرتا
ہے یا دھتکار دیتا ہے تو ہو سکتا پیراساٹامول کی وجہ سے ہم مسترد کیے جانے
کے بعد اچھا محسوس کرنے لگیں۔
یہ دیکھ کر ڈومینک مسچاؤسکی کو خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ درد کی
دوائیں لینے سے ہمارے لیے دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک اور تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ باقی دماغ کی نسبت دماغ
کے مذکورہ حصے میں بہت زیادہ چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں، اور اس حصے میں جہاں
درد کا احساس ہوتا ہے، ہمدردی کے جذبات بھی اِسی حصے سے کنٹرول ہوتے ہیں،
یعنی اپنے جسم میں درد اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کے جذبات ایک ہی مکان میں
رہتے ہیں۔
مثلاّ دماغ کے اندر جاری ہلچل کا جائزہ لینے کے لیے کیے جانے والے ایم آر
آئی ٹیسٹ (فنکشنل میگنیٹِک ریزونینس امیجِنگ) میں دیکھا گیا ہے کہ جب ہم
’مثبت ہمدردی‘ محسوس کرتے ہیں، یعنی کسی کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں تو یہ
جذبہ ہم دماغ کے اُسی حصے میں محسوس کرتے ہیں جس حصے میں درد محسوس کرتے
ہیں۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈومینک مسچاؤسکی کو خیال آیا کہ کہیں درد کی
دوائیں ہمارے اندر ہمدردی کے جذبے کو متاثر تو نہیں کر رہیں۔ اسی لیے انہوں
نے سنہ 2019 کے اوائل میں اوہائیو کی دو یونیورسٹیوں سے کچھ طلباء لیے اور
انہیں دو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروپ کو پیراسیٹامول کی ہزار ملی
گرام کی گولیاں دی گئیں جبکہ دوسروں کو درد کی ایک اور دوا ’پلاسیبو‘ دی
گئی۔ اس کے بعد دونوں گروہوں سے کہا گیا کہ وہ لوگوں کی ایسی کہانیاں پڑھیں
جن میں انہوں نے بیان کیا ہو کہ فلاں کام کر کے انہیں کتنا اچھا لگا، جیسے
ایلکس کی خوش قسمتی کی کہانی جس میں اس نے بتایا کہ کیسے ایک دن اسں نے ہمت
کر کے آخر کار ایک لڑکی سے ڈیٹ پر چلنے کو کہہ دیا۔ (آپس کی بات ہے وہ لڑکی
مان بھی گئی۔)
|
|
نتائج سے انکشاف ہوا کہ پیراسیٹامول ہمارے اندر مثبت ہمدردی کے جذبے کو
خاصی حد تک کم کر دیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کروڑوں ایسے لوگ جو روزانہ
پیراسیٹامول لے رہے ہیں ان پر کتنے اثرات مرتب ہو رہے ہوں گے۔ اگرچہ اس
تجربے میں منفی جذبات کا جائزہ نہیں لیا گیا، تاہم مسٹر مسچاؤسکی کہتے ہیں
کہ ان کے خیال میں پیراسیٹامول کے منفی جذبات پر بھی اسی قسم کے اثرات ہوتے
ہوں گے۔
ان کے بقول ’بحیثیت محقق، میں اس میدان میں نیا نہیں ہوں، لیکن سچ پوچھیں
تو یہ وہ تحقیق ہے جس کے نتائج سب سے زیادہ پریشان کن ہیں۔ خاص طور پر اس
لحاظ سے یہ بہت پریشان کن ہے کہ یہ دوا لینے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
جب آپ کسی شخص کو کوئی دوا دیتے ہیں تو آپ یہ دوا صرف اُس شخص کو نہیں دے
رہے ہوتے بلکہ پورے معاشرتی نظام کو دے رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر آپ بڑے
پیمانے پر کسی دوا کے اثرات کے بارے میں سوچیں، تو ہمیں اس بارے میں تو کچھ
بھی نہیں معلوم۔‘
ہمدردی کے جذبے کا یہ مطلب نہیں کہ آیا آپ ایک ’اچھے‘ انسان ہیں یا جب آپ
کوئی دُکھی فلم دیکھتے ہیں تو آپ رو پڑتے ہیں یا نہیں۔ بلکہ اس جذبے کے بہت
سے دوسرے عملی فوائد بھی ہیں، مثلاً اگر آپ میں ہمدردی موجود ہے تو آپ کے
رومانی تعلقات زیادہ مستحکم ہو سکتے ہیں، آپ کے بچوں پر اچھے اثرات ہو سکتے
ہیں اور آپ پیشہ ورانہ زندگی میں بھی زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کچھ
سائنسدان سمجھتے ہیں کہ اس جذبے نے بطور انسان، ہماری کامیابی میں اہم
کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اس جذبے کے فوائد پر نظر ڈالیں تو
کسی شخص میں اس جذبے کو (دوا کے ذریعے) کم کر دینا کوئی معمولی معاملہ نہیں
ہے۔
تکنیکی نظر سے دیکھا جائے تو پیراسیٹامول ہماری شخصیت کو تبدیل نہیں کر رہی،
کیونکہ گولی کے اثرات چند گھنٹے تک ہی رہتے ہیں اور کم لوگ ہی ایسے ہیں جو
مسلسل پیراسیٹامول لیتے رہتے ہیں۔ لیکن ڈومینک مسچاؤسکی کا اصرار ہے کہ
لوگوں کو بتایا جانا چاہیے کہ یہ دوا ہم پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے، تاکہ ہم
اس سلسلے میں عقل سے کام لے سکیں۔’ بالکل اسی طرح جیسے کہا جاتا ہے کہ اگر
آپ نے شراب پی رکھی ہے تو آپ کو گاڑی نہیں چلانی چاہیے، ہمیں بتایا جانا
چاہیے کہ جب آپ نے پیراسیٹامول لے رکھی ہو تو آپ کسی ایسے مسئلے میں نہ
الجھیں جس میں آپ کے جذبات بھی شامل ہو سکتے ہیں، مثلاّ اپنے شوہر، بیوی یا
دفتر کے ساتھی سے کوئی سنجیدہ گفتگو کرنا۔
کسی دوا کے اتنے زیادہ نفسیاتی اثرات ہو سکتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے
کہ ہمارا جسم کوئی ایسا تھیلا نہیں ہے جس میں مختلف اعضاء کسی کیمیائی مادے
میں ڈوبے ہوئے ایک دوسرے سے الگ تھلگ تیر رہے ہیں، بلکہ ہمارا جسم ایک نیٹ
ورک ہے جس میں مختلف اعضاء کا کام ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہے۔
اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ سائنسدانوں کو ایک عرصے سے یہ بات معلوم ہے کہ
دمے کے علاج کے لیے جو ادویات استعمال کی جاتی ہیں، بعض اوقات وہ ہمارے
رویوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، مثلاً ہم ضرورت سے زیادہ چست ہو جاتے ہیں
اور اس سے ہمارے اندر اے ڈی ایچ ڈی کی علامات پیدا ہو سکتی ہیں، یعنی ہم
کسی چیز پر زیادہ دیر تک توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں
کی جانے والی ایک تحقیق میں ضرورت سے زیادہ چستی (ہائیپر ایکٹویٹی) اور اے
ڈی ایچ ڈی کے درمیان ایک عجیب و غریب تعلق دیکھنے میں آیا ہے۔ اس تحقیق کے
مطابق اگر کوئی شخص ہائیپر ایکٹِو ہو تو اسے اے ڈی ایچ ڈی ہونے کے امکانات
45 سے 53 فیصد زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے،
لیکن ایک خیال یہ ہے کہ دمے کی دواؤں سے ہمارے اندر سیروٹونِن میں گڑ بڑ ہو
جاتی ہے جس سے ہم میں اے ڈی ایچ ڈی کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔
|
|