شوکت جمال شخصیت اور فن

ریاض سعودی عرب میں مقیم معروف ماہر تعلیم پروفیسر فیاض ملک اور انکی اہلیہ محترمہ شمائلہ ملک نے اپنے دولت کدے پر معروف شگفتہ کلام شاعر جناب شوکت جمال کے نام ایک شام کا انعقاد کیا، جس میں ریاض شہر کے نامور شعراء اور ادیبوں نے شرکت کی، تخیل ادبی فورم کی انتظامیہ اور راقم الحروف بھی اس موقع پر موجود تھے، راقم الحروف نے جناب شوکت جمال کی شاعری فن اور شخصیت پر اپنا مضمون پیش کیا۔

شوکت جمال

مزاح نگاری اور وہ بھی شاعرانہ انداز میں ہرگز ہرگز کوئی آسان کام نہیں، اچھا مزاح نگار شعرو ادب کے جس میدان میں بھی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دیدہ بینا کا حامل ہو کہ اپنی نگاہ دوربین سے معاشرتی ناہمواریوں، عمومی رویوں ، مختلف حالات و واقعات اور انسانی کیفتیوں کو دیکھ لے جو عام انسان کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتی ہیں، اور جناب شوکت جمال ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جن کی نظر سے نہ تو انسانی زندگی کا کوئی پہلو پوشیدہ ہے اور نہ ہی ایسا کوئی موضوع ہے جس کی آپ نے گلاب کی پتیوں سے جراحت نہ کی ہو۔

شگفتہ شاعری کے جدید دور میں جناب شوکت جمال کی شخصیت جہاں شوکت ہنر ہے وہیں شوکت الفاظ بھی، اور جہاں یہ جمال فن ہیں وہیں احساس جمال بھی، ان کی شاعری زندگی کے تمام ادوار اور موضوعات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ان کے اسلوب میں وہ خوبصورتی ہے جس کا دھیما پن یر مصرعے اور لفظ کی صورت روح کی گہرائی میں اتر کر احساس و جذبات سے گدگدی کرنے لگتا ہے اور قاری ایک لطیف احساس تلے کبھی مسکرانے پر اور کبھی قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
جس طرح محبت اگر عشق کی سرحد پار کر جائے تو عالم جنون میں جا نکلتی ہے بالکل اسی طرح جب زندگی سنجیدگی کی سرحد پار کر جائے تو مزاح وجود میں آتا ہے، گویا مزاح ایک ایسا آتش فشاں ہے جو شدید جذباتی دباو کی صورت میں ابلتا ہے، اورجناب شوکت جمال کی مہارت یہ ہے کہ انکے اسلوب میں مزاح تو نظر آتا ہے لیکن جذباتی دباو اور اندرونی کیفیات کی کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دیتے۔
جناب شوکت جمال کے کلام کی شگفتگی کی سب سے بڑی خوبصورتی تہذیب، سادگی اور شائستگی ہے جس میں طنز و مزاح کا اسقدر خوبصورت امتزاج ہے کہ طنز کی کڑواہٹ بھی حلاوت میں بدل جاتی ہے اور ان کے پورے کلام میں مزاح طنز پر غالب نظر آتا ہے جس نے نہ صرف ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دئے ہیں بلکہ انکی اعلیٰ ظرافت کا بھی بین ثبوت ہے۔ ایسی ہی ایک مثال زیر نظر ہے کہ:

ایک اہم کیس تھا جو عدالت میں زیر غور
خطرہ نہ اس میں مول زرا بھی لیا گیا
خدشہ تھا یہ وکیل کے بس کی نہیں ہے بات
سو پیروی کے واسطے اک جج کیا گیا

مختلف معاشرتی رویوں پر انہوں نے نہایت نفاست سے الفاظ کے نشتر چلائے ہیں، گھریلو نوک جھوک ہو یا بزم یاراں کے قصے، حشرات الارض کی ایذا رسانیاں ہوں یا سسرالی رشتہ دراوں کی ریشہ دیوانیاں کچھ بھی ان کی دسترس سے بایر نہیں ایسے ہی ایک موقع پرمعاشرتی ندیدے پن کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
آئی برات دور سے طے کر کہ فاصلے
کھانا کھلا تو اہل محلہ پل پڑے
باراتی ایک بھی نہ پہنچ پایا دیگ تک
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

جیسا میں نے عرض کیا کہ حشرات الارض کی ایذا رسانیوں اور سسرالیوں کی ریشہ دیوانیوں پر بھی بڑے ہی لطیف انداز میں اپنی شوخ بیانی میں الفاظ کے اس سنار نے گویا ایک لوہار کی دی ہے کہ:
جانے کہاں کہاں سے یہ آتے ہیں لال بیگ
دن رات مرد و زن کو ستاتے ہیں لال بیگ
جن کو ڈرا سکے نہ کبھی زندگی میں ہم
ان کو کچن میں آکہ ڈراتے ہیں لال بیگ
کیڑے ہیں یہ زرا سے کہ سسرال کے عزیز
جاتے نہیں وہ گھر سے، نہ جاتے ہیں لال بیگ

جناب شوکت جمال کی شاعری کو ہر دور کی شاعری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، حال ہی میں وطن عزیز میں آٹے کے بحران نے جنم لیا اور ایسے ہی بحرانوں پر محترم شوکت جمال نے برسوں پہلے کیا تھا کہ:

ہو کسی شے کی اگر قلت ہمارے ملک میں
جنس جو وافر اگے اس کو برآمد کیجئے
پھر ہوئی ہے لیڈروں کی ملک میں بمپر کراپ
کر کے برآمد اسے، گہیوں درآمد کیجئے

جناب شوکت جمال کے کلام اور شخصیت کے مطالعے سے جو بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی نفسیاتی، ذہنی اور عملی بالادستی کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ انکے کلا م اور رویئے سے ہمیشہ عجز و انکسار جھلکتا ہے، دوسری بات عصر حاضر کے بیشتر مزاح نگاروں کے برعکس ان کے مزاح میں شائستگی اور تہذیب کا عنصر نمایاں ہے،عمومی مزاح نگاری میں ایک عام رویہ یہ بھی نظر آتا ہے جہاں مزاح نگار اپنی ذات کو ہدف مزاح بنا کر ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں قاری مزاح نگار کی بے چارگی اور حماقت سے لطف اندوز ہو، اور جناب شوکت جمال کا فن اس کثافت سے بھی پاک ہے،
مولانا حالی کی یہ بات جناب شوکت جمال کے فن پر سو فیصد صادق آتی ہے کہ:
مزاح جب تک مجلس کا دل خوش کرنے کے لئے کیا جائے تو وہ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور خوسبو کی لپٹ ہے جس سے تمام پژمردہ دل باغ باغ ہو جاتے ہیں اور اس سے غم غلط ہوتے ہیں اور ذہن کو جلا ملتی ہے۔

آخر میں، میں صرف یہ کہوں گا کہ جناب شوکت جمال کی شخصیت اور فن ایسا نہیں جس پر کسی ایک نشست میں مختصر مضمون کی صورت بات ہو سکے، بلکہ انکا کہا ہوا ایک ایک لفظ اس بات کا متقاضی ہے اس کی بھرپور تفسیر بیان ہو، شوکت جمال عہد جدید کے وہ تخلیق کار ہیں جنہیں نہ تو مضامین کی قلت ہے نہ حروف کی حاجت بلکہ حروف ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں اور کوئی حرف ایسا نہیں جس نے انکے کلام کے ساتھ وفا نہ کی ہواور اسکی وجہ شاید شوکت جمال صاحب کا وہ فن ہے جس سے یہ الفاظ کو شوکت اور معنی کو جمال دیتے ہیں۔

 

Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 29167 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More