نبوت محمدی پر اِیمان و اِعتماد کی تجدید

تحریر:احمد اسد
حضرت مجدد الف ثانیؒ نے عربی میں ایک رسالہ”اثبات النبوة“ کے نام سے تحریر فرمایا ہے۔ یہ رسالہ ان کے عنفوان شباب کی تصنیف ہے اور درحقیقت یہی رسالہ اور اس میں بیان کئے گئے افکار وعقائد، نظریات و تاثرات اور خیالات و جذبات آگے چل کر ان کے”تجدیدی کارنامے“ کی بنیاد بنے۔ مفکر اسلام مولانا ابو الحسن ندویؒ نے اس حقیقت کو یوں اجاگر کیا ہے: ”ان کی تجدید کا اصل سرچشمہ جس سے ان کی تمام انقلابی و اصلاحی کاموں کے چشمے پھوٹتے ہیں، اور دریا بن کر سارے عالم اسلام میں رواں دواں ہو جاتے ہیں، وہ نبوت محمدی اور اس کی ابدیت و ضرورت پر امت میں اعتقاد و اعتماد بحال کر نے اور مستحکم کرنے کا وہ تجدیدی و انقلابی کارنامہ ہے، جو ان سے پہلے اس تفصیل و وضاحت و قوت کے ساتھ ہمارے علم میں کسی مجدد نے انجام نہیں دیا، شاید اس لئے بھی کہ اس کے زمانہ میں اس کی ضرورت پیش نہیں آئی، اور اس کے خلاف کوئی منظم تحریک یا فلسفہ سامنے نہیں آیاتھا۔اس تجدیدی اقدام سے ان تمام فتنوں کا سدباب ہوتا ہے جو اس وقت عالم اسلام میں منہ پھیلائے ہوئے اسلام کے شجرہ طیبہ اوراس کے پورے اعتقادی، فکری اور روحانی نظام کو نگل لینے کے لئے تیار تھے“۔

حضرت مجددؒ کے اس رسالے کا محور مرکز دو چیزیں ہیں۔ایک تو نبوت کی حقیقت و اصلیت اور نبوت کے مقاصد اور مقام و مرتبہ کی پہچان میں مختلف علمی و عملی فتنوں نے جو پردے ڈال دیئے تھے، مضبوط علمی استدلال اور ٹھوس دلائل کی سچائی و حقانیت کے خنجر سے انہیں تار تار کر کے نبوت محمدی پر پورے اعتماد و کامل یقین کی راہ استوار کر دی جائے۔دوسرے فتنوں کی اس یلغار نے اسوہ نبوی کی پیروی میں جو کانٹے بچھا دیئے ہیں اتباع سنت اور قوت عمل سے ان کانٹوں کو ہٹا کر راہ عمل صاف کر دی جائے تاکہ نبوت محمدی پر یقین کی روشنی اور اسوہ محمدی کی پیروی کی قوت سے شاہراہ اسلام پر قدم زن ہو کر رضائے الہٰی کی منزل تک بآسانی رسائی ممکن ہو سکے۔

عصر حاضر کے فتنوں پر نظر ڈالی جائے تو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اس کردار کی بہت شدت سے یاد آتی ہے، کیونکہ ان فتنوں کی نوعیت بھی انہی فتنوں سے ملتی جلتی ہے اور یہ بھی امت مسلمہ میں نبوت محمدی پر ایمان و اعتماد کی مضبوط گرفت کو کمزور کرنے اور امت مسلمہ کو اس مرکز رشد و ہدایت سے کاٹنے ، دور کرنے اور اس رشتے میں تزلزل اور کمزوری پیدا کرنا چاہتے ہیں ان فتنوں کا پہلا شکار اور مضبوط آلہ کار وہ لوگ ہیں جو نبوت محمدی اور اسوہ محمدی کے بجائے ان لوگوں کو”نمونہ“ اور ”آئیڈیل“ بنا کر پیش کرتے ہیں جو نبوت محمدی کے باغی ہوں،اور ان لوگوں کے کردار عمل کو بڑے فخر و مباہات اور تعظیم و اعزاز شان کے ساتھ بیان کرتے ہیں جو اسوہ نبوی کے سراسر مخالف سمت لے جانے والا ہو۔ یہ لوگ اس حقیقت کے ادراک سے قاصر رہتے ہیں کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کی توحید سے نا آشنا وجاہل رہا، جو اس عظیم علم سے محروم رہا، جو شخص منصبِ رسالت کے ادراک سے قاصر اور اس کوچہ عظمت و فلاح سے نابلد رہا وہ دوسرے کسی بھی فن میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے لیکن وہ سراسر ناکامی و نامرادی اور خسارے و نقصان میں رہتا ہے، اب بھلا ایسا شخص یا اس کا کردار”مثالی“ کیسے بن سکتا ہے اور جو لوگ ایسوں کو فلاح وبہبود کا معیار اور اپنا پسندیدہ آئیڈیل گردانتے اور دوسروں کو ان کی تقلید پر ڈالنا چاہتے ہوں وہ کس طرح خیر و بھلائی کے راہبر قرار پا سکتے ہیں؟

ان لوگوں کو قرآن کریم کی اس آیت میں بار بار غور کرنا چاہئے اور پھر اس قرآنی معیار کے مطابق ان لوگوں کو پرکھنا چاہئے جن کا کوئی کردار و فن انہیں حیران کیئے ہوئے ہو۔ قرآن کیا کہتا ہے؟سنیئے! ترجمہ:”کہہ دو !کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں، وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھوئی گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے روبرو جانے کا انکار کیا ہے پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، سو ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے، یہ سزا ان کی جہنم ہے اس لئے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں کو اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا“۔(الہکف)

آج جن لوگوں کی مادی ترقیاب ہمارے کوتاہ اندیش دانشوروں کی نظر میں بڑی وقعت پائے ہوئے ہیں انہیں یہ جاننا چاہئے کہ ان کی ترقیات تمام تر بے بنیاد اور ریت کے گھروندے ہیں ان نامور کہلانے والوں کی بنیاد ہی غلط ہے یہ پہلے قدم پر ہی بہک گئے اور ہدایت سے دور جا پڑے ہیں۔ اس لئے حضرت مجددؒ نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی ضرورت و اہمیت (جو دنیا کی ہر ضرورت و اہمیت سے بڑھ کر ہے) پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:”انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی بعثت دنیا والوں کے لئے رحمت ہے اگر ان حضرات کے وجود کا ذریعہ نہ ہوتا تو ہم گمراہوں کو اﷲ تعالٰی کی ذات و صفات کی پہچان کی طرف کون رہنمائی کرتا، اور اس کی پسندیدگی و نا پسندیدگی کے کاموں میں کون امتیاز پیدا کرتا؟ہماری ناقص عقلیں ان حضرات انبیاء کی دعوت کی روشنی کی مدد کے بغیر اس مطلب سے عاجز اور ہماری ناتمام سمجھ ان حضرات کی تقلید کے بغیر اس معاملہ میں بے بس اور درماندہ ہے۔

ہاں عقل ضرور حجت ہے،لیکن حجت ہونے میں نامکمل اور تاثیر و تکمیل کے درجہ کو نہیں پہونچتی ۔حجت بالغہ صرف انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی بعثت ہے جس سے دائمی عذاب و ثواب اخروی وابستہ ہے“۔

بعثت کی اس ضرورت کو جاننے کے بعد یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ ہر وہ انسان جو عقل و شعور کے مرتبہ کو پہنچے تو اس پر اولین ذمہ داری کیا عائد ہوتی ہے اور کس چیز کی طلب و جستجو اور اس کا ایقان و اعتماد حاصل کرنا اس کا فرض بنتا ہے تو سنیے حضرت مجدد فرماتے ہیں:”سب سے پہلے رسول پر ایمان لانے کی فکر کرنی چاہئے اور اس کی رسالت کی تصدیق کرنی چاہئے، تاکہ تمام احکام میں اس کو سچا جانا جائے اور اس کے ذریعہ سے شکوک و شبہات کی تاریکیوں سے نجات میسر ہو ، جڑ کو پہلے معقول و معلوم کر لینا چاہئے تاکہ سب فروع اور شاخیں بے تکلف معقول و معلوم ہو جائیں ہر شاخ و ہر فرع کو اصل کے ثابت کئے بغیر معقول بنانا بڑا مشکل ہے۔ اس تصدیق تک پہنچنے اور اطمینان قلب کے حاصل کرنے کا قریب ترین راستہ ذکر الہٰی ہے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ:یاد رکھو اﷲ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے خوشحالی ہے اور اچھا ٹھکانہ۔

غورواستدلال(جو ذکر الہٰی سے خالی ہو) کے راستہ سے اس بلند مقصد تک پہنچنا دور ہے بقول شاعر
پائے استدلال چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
اہل استدلال کا پاؤں لکڑی کا ہے اور لکڑی کا پاؤں بے قابو و بے ثابت ہوتا ہے“

حضرت مجددؒ کی محنت اور تجدیدی دائرہ کار کا دوسرا پہلو ”داخلی اصلاحات“ کہا جا سکتا ہے۔ یعنی نبی کریمﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان تو لایا گیا مگر آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور تفصیلی احکام کی اتباع و پیروی میں فتور واقع ہو گیا اور حد یہ ہوئی کہ اسی فتور کو حق سمجھا جانے لگا اور اس کی ترویج و اشاعت میں بکمال ہمت و طاقت سرگرمی دکھائی جانے لگی۔ گویا اتباع سنت اور اتباع اسوہ نبوی کو چھوڑ کر بدعات ورسومات اور خواہشات کی پیروی کی جانے لگی اور اسی کو فلاح و بہبود کی راہ سمجھ لیا گیا۔

اور ظاہر ہے یہ راہ بھی اتنی گمراہ کن ہے جو مقاصد شریعت اور بنیاد اسلام کو اکھیڑنے اور ختم کرنے والی ہے اور اس راہ ضلالت کو بند کرنے کے لئے بے ریا خلوص، زورعمل اور قوت استدلال کو بروقت بروئے کار لانا ضروری ہو جاتا ہے اور حضرت مجددؒ نے بروقت اس خطرہ کا ادراک کیا اور پھر پوری کوشش سے اس فتنے کی راہ مسدود کر کے اسے سر چھپانے پر مجبور کر دیا۔ اور اس کے مکر و فریب کا ہر پردہ چاک کر دیا۔ آپ کے دور میں یہ بددینی اور خلاف سنت نبوی رسومات مذہب کے نام پر اور تصوف کی آڑ میں جگہ بنا رہی تھیں، اس لئے آپ نے اتباع شریعت اور طریقت کی حقیقت پر بڑے واضح انداز میں روشنی ڈالی اور صاف تحریر فرمایا کہ:”شریعت تمام دنیاوی و اخروی سعادتوں کی ضامن ہے کوئی مطلوب ایسا نہیں کہ اس کی تکمیل کے لئے شریعت کے علاوہ کسی اور چیز کی احتیاج واقع ہو، طریقت و حقیقت جو صوفیاء کا مابہ الامتیاز ہے، دونوں شریعت کے خادم اور اخلاص کے حصول میں معاون ہیں، اس طرح طریقت و حقیقت کے حصول کا مقصد محض شریعت کو اس کی اصل روح کے ساتھ عمل میں لانے کا ذریعہ ہے، نہ کہ کوئی اور بات جو شریعت کے دائرہ سے خارج ہو، وہ حالات، وجد کی کیفیات اور علوم و معارف جو صوفیاء کو سلوک کے درمیان حاصل ہوتے ہیں مقاصد میں داخل نہیں، وہ کچھ اشکال و خیالات ہیں جن کے ذریعہ اطفال طریقت کے دل بہلائے اور ان کی ہمت بڑھائی جاتی ہے ان سب سے گزر کر مقام رضا پر پہنچنا چاہئے جو مقامات و سلوک وجذبہ کی انتہا ہے“۔

اس تحریر کی روشنی میں اب یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ جب تہذیب نفس اور اصلاح ظاہر و باطن کی خاطر کیا جانے والاکوئی ایسا اقدام جو اتباع شریعت سے ہٹ کر ہو شریعت کی نظر میں مردود اور اﷲ کے ہاں ناقابل قبول ہے تو دنیوی معاملات اور معیشت و معاشرت میں اتباع شریعت سے ہٹ کر کیا جانے والا اقدام کس طرح مستحسن قرار پا سکتا ہے اور جو لوگ اتباع شریعت کو پس پشت ڈال کر ایسے اقدامات کر بیٹھے ہوں وہ کس طرح باعث فخر اور لائق تقلید ٹھہر سکتے ہیں؟ آج بھی ضرورت ہے کہ اہل علم و دانش اور غم خواران ملت پوری قوت ایمانی اور عزم وہمت کے ساتھ امت مسلمہ میں نبوت محمد پر ایمان و اعتماد کی تجدید اور بحالی کے لئے اپنی توانائیاں بروئے کار لائیں اور جو فتنے غیر محسوس انداز سے ہمارے اندر سرایت کر رہے اور ہمیں مرکز ہدایت سے دور لیجانے کے لئے سرگرم ہیں انہیں بے نقاب کریں اور یہ پیغام عام کریں کہ :
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372830 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.