(یعقوب تصور کی کتاب انحراف پر
تاثراتی اظہار خیال)
یعقوب تصور کون ہیں؟ وہ کیسے ہیں؟بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جیسے بھی ہیں ویسے
کیوں ہیں؟اگر آپ ان پیچیدہ سوالات کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو آپ تصور ِخیال
کو زحمت دینے کی چنداں ضرورت نہیں ۔آپ تو بس یہ کریں کہ یعقوب تصور صاحب کے
قطعات کا مجموعہ خریدیں اور اس کا مطالعہ کرلیں ساری تشنگی فی الفور کافور
ہوجائیگی۔میں نے لفظ ”خریدیں“ سہواً نہیں بلکہ قصداً استعمال کیا ہے اس لئے
کہ اچھی کتابوں کی اشاعت کیلئے نہ صرف اچھے قلمکار کی بلکہ اچھے خریدار کی
بھی ضرورت ہوتی ہے۔جب سے اردو قاری میں مفت خوری کی بیماری در آئی ہے اچھی
کتابوں کا فقدان بڑھتا جارہا ہے۔اردو جیسی زرخیز زمین پر قحط سالی کا جو
دور دورہ دکھلائی دیتا اور اسکا بنیادی سبب اچھے فنکاروں کی کمی نہیں بلکہ
پروقار قاری کی غیر موجودگی ہے جس کا نتیجہ بقول غالب یہ ہے کہ
و ہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دوکان اپنی اٹھا گئے
تصور صاحب کے قطعات کا مجموعہ اس عمومی زبوں حالی سے خوشگوار انحراف ہے۔اگر
یقین نہیں آتا ہو تو یہ قطعہ ملاحظہ فرمائیں
وفا کی نہج پہ خطرات جب نظر آئے
بہت سے چاہنے والوں نے انحراف کیا
بس اک چراغ شبِ امتحان گل کر کے
ہوا کی لہر نے کیا کیا نہ انکشاف کیا
ان چار مصرعوں میں کس قدر تنوع ہے کہ ابتدا رومانیت کے پیرائے میں ہوتی ہے
اور دوسرے مصرعے میں بات انسانی نفسیات کی جانب گھوم جاتی ہے ۔تیسرا مصرعہ
اسلامی تاریخ کا ایک ایسا لازوال واقعہ یاد دلاتا جو اپنے اندر حکمت و
تواضع کی لاثانی مثال ہے لیکن آخری مصرعہ اس رویہ کو ماضی کے حصار سے نکال
کر عمومیت عطا کر دیتا ہے اور ایک ایسی آفاقی حقیقت کی حیثیت سے پیش کر تا
ہے جو زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد ہے ۔شاعر ہمیں ابن آدم کے اس رویہ
سے روشناس کرواتا ہے کہ جس کا اظہار کل ہوا تھا آج پھر ہوسکتا ہے اور آنے
والے کل میں بھی اس کا امکان بدستور موجود رہے گا۔اس کے انکشاف کی خاطر کسی
بڑی آزمائش کے بجائے ہوا کا ایک جھونکا کافی ہے ۔آگے بڑھنے سے قبل ایک اور
قطعہ دیکھتے چلیں یعقوب صاحب فرماتے ہیں
مہر آئے نہ ماہتاب آئے
کاش جگنو ہی وسط خواب آئے
خار آئے جو شاخِ ویراں پر
ہے اشارہ کہ بس گلاب آئے
یہ قطعہ شاعر کے اندرون کا تعارف کرواتا ہے اس کے اندر پائی جانے والی شانِ
قلندری جو قناعت کی صفت پیدا کرتی ہے اسکی بدولت وہ مہروماہ کی توقع نہیں
کرتا بلکہ جگنو پر اکتفا کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے ۔اور پھر اگر حقیقی
جگنو سے بھی محروم رہ جائے تب بھی مجازی جگنو کا خواب سجاتا ہے اس کے
باوجود رجائیت کا یہ عالم کہ وہ پھول کے بجائے خار کے نمودار ہونے پر بھی
کسی قسم کے حزن و ملال کا شکار نہیں ہوتا بلکہ پر امید ہوجاتا ہے کہ یہ
کانٹا درحقیقت گلاب کے پھول کی آمد شاخسانہ ہے۔میرے خیال میں یہ قطعہ یعقوب
تصور کی معرفت ِ ذات کا نمائندہ ہے جس میں حسن وجمال کے ساتھ ساتھ نیرنگئی
خیال کی خوشبو اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ اسے پڑھ کر قاری کی طبیعت باغ باغ
ہوجاتی ہے ۔
معرفتِ ذات کوئی آسان کام نہیں ہے ۔جس طرح چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اسی
طرح کا معاملہ انسان کا بھی ہے کہ وہ اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے خارج کا
جہاں تسخیر کرتا رہتا اپنے پرائے سبھی سے دست وگریباں ہوتا ہے لیکن اپنے آپ
سے دو بدو نہیں ہوتا ۔زندگی بھر خواہشوں کے ہجوم میں کچھ ایسا کھویا رہتا
ہے اسے خود اپنی ذات کیلئے فرصت ہی نہیں ملتی۔
زندگی کا یہ گھماؤ پھیر اپنے آپ سے
لگ گیا ہے خواہشوں کا ڈھیر اپنے آپ سے
بس یہی حسرت کبھی اتنی تو تنہائی ملے
گفتگو کرلوں ذ را سی دیر ا پنے آپ سے
ظاہر بینی کا گناہ بے لذت ناظر کو دوسروں کے متعلق کبھی غلط فہمی تو کبھی
خوش فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ویسے اگر غیروں کے بارے میں انسان حقیقت تک
پہنچ بھی جائے تب بھی چونکہ ان پراس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اس لئے اس کی
ساری سعی و جدوجہد تعلیم و تلقین کے دائرے میں محصور ہوتی ہے۔اس باب میں سب
سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سوائے اپنی ذات کے کسی
اور کیلئے جوابدہ نہیں ہے۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ حضرت ِانسان ان کی فکر
زیادہ کرتا ہے جن کے بارے میں وہ مسؤل نہیں ہے اور خود اپنے آپ سے غافل
رہتا ہے جس پر اسے اختیار عمل حاصل ہے ۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری ہر حرکت
میزانِ عمل میں رکھی جانی ہے اورنہ صرف عبادات بلکہ معاملات کی بھی باز پرس
ہونی ہے اس باب میں یعقوب تصور کی تذکیر ملاحظہ فرمائیں
ہر تخیل کو عمل بھی چاہئے
قصر بردوش ہوا بنتا نہیں
بندگی کی ہیں شرائط اور بھی
صرف سجدوں سے خدا ملتا نہیں
انسان اگر دنیا کی رنگ رلیوں میں کھو جائے اور خدا کی معرفت کو گنوا بیٹھے
تو اسکے نتیجے میں خود فراموشی کے تاریک سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا
ہے۔گمراہی کے اس بحر ظلمات میں اسے خدا کے بجائے بندوں کا خوف ستانے لگتا
ہے
یوں اندھیرے ہوئے جزوِ حیات
ہر بشر روشنی سے ڈرتا ہے
اب خدا سے نہ کوئی کھائے خوف
آدمی آدمی سے ڈرتا ہے
فرد بشر ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود اپنے گریبان میں جھانک
کر دیکھنا اسے کرب خود آگاہی سے دوچار کر دیتا ہے ۔اوروں کی عیب جوئی انسان
کیلئے جس قدر خوش کن مشغلہ ہے اپنی خود احتسابی و عیب شناسی اسی قدر تکلیف
دہ تجربہ ہے اس لئے انسان اپنے من کی آنکیں موند لیتا ہے اور مادی تشنگی کے
تعاقب میں خوابوں کے سراب کا پیچھا کرنے لگ جاتا ہے۔یہ بے حسی اسے کس عذاب
میں گرفتار کر دیتی ہے اس کا نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیں
بے حسی کا عذ اب دیکھے جا
بے عمل صرف خواب دیکھے جا
ریت میں فصل تشنگی کی اگا
پھل کی صورت سراب دیکھے جا
اعتراف ذات بجائے خود ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن اظہار ذات کی منزل مشکل ترہے
۔جہاں لوگ دوسروں کے بارے میں سچ بولنے کتراتے ہوں وہاں خود اپنے بارے دودھ
کا دودھ اور پانی کا پانی کر دینا جوئے شیر لانے سے آسان نہیں ہوتا اس
کیلئے فنکار کو فرہاد کا تیشہ درکار ہوتا ہے اپنے آپ کو بغیر کسی بناؤ
سنگھار کے اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دینا اکثر لوگوں کیلئے خاصہ مشکل
ہوتا ہے لیکن یعقوب تصور کا معاملہ ان سے بر عکس ہے
دل جو روتا ہو تو چہرے پر سجالوں خوشیاں
درد سینے میں نہ ہو آنکھ میں آنسو پالوں
میں ممثل تو نہیں ہوں کہ بہ رنگ تمثیل
اپنا کردار کہانی کے مطابق ڈھالوں
انسان چونکہ سماجی مخلوق ہے وہ اپنے خارج سے کسی صورت منقطع نہیں ہوسکتا۔
ہر فرد کے ساتھ پیش آنے والے حالات ایک دوسرے مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً ہر کسی
کو غریب الوطنی کا درد نہیں سہنا پڑتا ویسے یہ اس خود ساختہ مصیبت میں
انسان اپنے آپ کو برضا و رغبت مبتلا کر لیتا ہے بظاہر کوئی زور زبردستی
نہیں ہوتی ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو اس پر کیوں آمادہ
کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب وہ نہیں دے سکتے کو وطن سے دوری کا حوصلہ اپنے
اندر نہیں پاتے بلکہ یعقوب تصور جیسے لوگ ہی دے سکتے ہیں جو اس امتحان سخت
جاں سے گزر چکے ہوتے ہیں
ہوا کے دوش پہ آئے شجر کو چھوڑ دیا
فضائے غیر میں آئے نگر کو چھوڑ دیا
تلاش رزق و سکوں ،امن کی ضرورت نے
کیا کچھ ایسا پریشان گھر کو چھوڑ دیا
عام طور پر لوگ کن توقعات کے ساتھ کے یہاں آتے ہیں اور پھر اس صعوبت میں
عمر عزیز کھپا دینے کے بعد کیا پاتے ہیں اس کا بھی نہایت خوبصورت بیا ن
ملاحظہ فرمائیں
تلاش رزق کے ا رماں نکالتے گزری
حیات ریت کے سکے ہی ڈھالتے گزری
مسافرت کی صعوبت میں عمر بیت گئی
بچی تو پاؤں سے کانٹے نکالتی گزری
یہ تو اس فرد کا حال ہے جو صحرہ نشینی کو اپنا مقدر بنا لیتا ہے لیکن ایسا
بھی نہیں ہے کہ یہ مساعی بالکل ہی رائیگاں جاتی ہوں
لمحہ لمحہ صرف فن تدبیر کیا
سامان تزئین رخ تدبیر کیا
صحراؤں میں عمر ہماری ریت ہوئی
گھر والوں نے تاج محل تعمیر کیا
یعقوب تصور جیسا رجائیت پسند شاعراس صورتحال پر ملول و غمگین نہیں ہوتا
بلکہ وہ مشیت ایزدی کی اس کارفرمائی پر راضی بہ رضا نظر آتا ہے اور کہتا ہے
نصیب گردش ماہ منیر رکھتے ہیں
دلوں میں ہجر کے پیوست تیر رکھتے ہیں
ہم اس کئے ہوئے صحرا کی وسعتوں کے اسیر
ہتھیلیوں پہ سفر کی لکیر رکھتے ہیں
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ مختلف لوگ جو یکساں حالات سے نبردآزما ہوتے
ہیں یکساں اثرات قبول نہیں کرتے ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو مختلف افراد ایک ہی
صورتحال سے متضاد نتائج اخذ کریں حالات و واقعات کے پسِ پردہ مختلف وجوہا ت
و اسباب و کا گمان کرنے لگیں۔ ایسا ہونا عین قرین ِ قیاس ہے اور اس کی وجہ
ان دونوں کا ایک دوسرے سے علحیدہ طرز فکر ہوتا ہے جو انہیں منفرد طرز زندگی
سے ہمکنار کرتا ہے ۔ زندگی کی معرفت اور اس سے منسلک آزمائش کا بیان انحراف
میں یوں ہوتا ہے کہ
اس نے تو زندگی کا یہ معیار رکھ دیا
روشن دیا کیا سرِ دیوار رکھ دیا
بازی گہ ِجہاں میں کی روشن شمعِ حیات
پھر سر پھری ہوا کا بھی کردار رکھ دیا
ہجرتِ مکانی کولوگ اپنی ذات اور اپنے حالات کے آئینے میں دیکھتے ہیں لیکن
یعقوب تصور اسے وسعت دے ایک ازلی واقعہ سے جوڑ دیتے ہیں جو ان کی وسعت فکر
کی غمازی کرتا ہے
عرش سے فرش زمین تک کا سفر
عین فطرت تھا فسانہ بن گیا
اپنی منزل تو تصور تھی یہی
دانہ گندم بہانہ بن گیا
ہجرت اور اس کا فلسفہ جب تصور خیال سے نکل حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے تو
اپنی مانوس دھرتی سے دور کسی اجنبی دیس میں آن بسنے والا اولاً کیسا محسوس
کرتا اس کی منظر نگاری بھی دیکھیں ۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس وہ تمام لوگ
گزر چکے ہیں جنھوں نے ہجرت مکانی کی ہے لیکن کسی شہ کو محسوس کرنا اور بات
ہے مگر اسے حسن و خوبی کے ساتھ بیان کر دینا جہانِ دیگر ہے
چہرہ چہرہ بھانپ رہے ہیں
خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں
اس جنگل میں آن بسے ہیں
جس میں صدیوں سانپ رہے ہیں
کسی نئے ملک میں آنے کے بعد انسان سب سے پہلے وہاں کے آداب واطوار سے
واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ امن و سکون سے دن کاٹ سکے اور اس
کوشش میں جو انکشافات اسے ہوتے ہیں سو یوں ہیں
الفاظ کو جذبات کا غماز نہ کرنا
اس شہر کا دستور ہے آواز نہ کرنا
جسکی نہ کوئی قدر ہو بازار طلب میں
سکہ کوئی بھی ایسا پس انداز نہ کرنا
ایک عام آدمی کیلئے تو یہ ممکن ہے کہ وہ حالات سے مصالحت کر کے خودساختہ
طور پر اپنے آپ کو دستورِ زباں بندی پر راضی کر لے اور ان قصیدہ خوانوں کی
بھیڑ میں شامل ہو جائے جن پر یہ قطعہ صادق آ تا ہے کہ
ہمہ تن گوش ہیں یہاں کے لوگ
پھر بھی خامش ہیں یہاں کے لوگ
گوش و چشم و زباں تو رکھتے ہیں
مصلحت کوش ہیں یہاں کے لوگ
شہرِ غریباں میں پائے جانے والے مصنوعی امن و امان کا قصیدہ پڑھنے والوں
مصلحت پسندوں سے یعقوب تصورکیا خوب سوال کرتے ہیں بلکہ سوال بھی ایسا کہ جس
میں جواب پنہاں ہو
چمن میں اپنی خوشی کا سماں رہے کیسے
حنوط ہوں جو پرندے تو چہچہے کیسے
نظام امن ہے ہر سمت کار فرما اگر
تو ہر درخت سے لپٹے ہیں اژدہے کیسے
اس قطعہ کو کہنے کیلئے ضروری تھا کہ یعقوب صاحب ابو ظبی آتے اس لئے کہ
پاکستان میں رہ کر اس کا تصور محال تھا ۔یہ اژدہے اتنی دور تو سے کیا اپنے
آس پاس بھی دکھلائی نہیں دیتے لیکن ہاں ان کی سرسراہٹ ہر کوئی محسوس کرتا
ہے۔ اس احساس خوف نے شہر کی فضا میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دی ہے
محبت ہی کسی رخ پر نہ بیزاری نظر آئے
عجب اک کیفیت انسان پر طاری نظر آئے
محض احکام کی تعمیل بے ردوقدح ہر دم
یہ سارا شہر ہی جذبات سے عاری نظر آئے
اس شہر میں رہنے والے سبھی حضرات کوان حالات سے سبھی کو سابقہ پیش آتا ہے
لیکن کم لوگ ہوتے ہیں جو اس پر لب کشائی کی ہمت اپنے اندر پاتے ہیں۔ اس لئے
کہ ان حقائق کا پردہ فاش کرنے والوں کو اس کے ساتھ وابستہ خطراتکا سامنا
کرنے کیلئے تیار رہنا پڑتا ہے ۔
یہ مانا جھوٹ سے بے زار بھی ہے
صداقت کا اسے اقرار بھی ہے
اگر وہ آئینہ بردار بھی ہے
تو کیا مرنے کو وہ تیار بھی ہے
حق گوئی کی جرات رندانہ شاعر کے اندر کردار کی یہ خوبی بھی پیدا کرتی ہے کہ
بلا خوف خطر اپنے انجام کی پرواہ کئے بغیر سچ بولتا چلا جاتا ہے۔ کسی کا
جاہ و جلال اس کی آئینہ برداری کو مرعوب نہیں کرپاتا
جرات کا تقاضہ ہے یہ کردار کی خوبی
اظہارِ صداقت میں نہ خاموش رہا جائے
پتھر نہ کہا جائے زر وسیم وگہر کو
خشت و خس و خاشاک کو سونا نہ کہا جائے
حق کیلئے سر کٹانے سے پس و پیش نہ کرنا بلکہ اسے اپنے لئے باعثِ سعادت
سمجھنا یعقوب تصور کو اپنے ہم عصروں کے درمیان فائق و ممتاز کر دیتا ہے
حق و صفا کبھی باظل میں ضم نہیں کرتے
شکست وصدق کے ساماں بہم نہیں کرتے
ہمارا سلسلہ کرب و بلا سے ملتا ہے
سو ہم سروں کو کٹاتے ہیں خم نہیں کرتے
وطن عزیز سے دوری کے باوجود یعقوب تصور اپنی دھرتی سے قریب نظر آتا ہے
۔اپنی مٹی سے فاصلے بڑھ بھی جائیں تب بھی اسکی خوشبو انسان کے آس پاس رچی
بسی رہتی ہے ۔ وہ اپنے ملک کے حالات سے بے بہرہ نہیں ہو پاتا اسی لئے کہتا
ہے۔
جیسے ہی باہر گیا گھبرا کے اندر آگیا
خوف کا طوفان کیسا یہ نگر میں آگیا
سمجھو اس کو مل گئی اک اور دن کی زندگی
جو پرندہ شام سے پہلے شجر میں آگیا
مندرجہ بالہ قطعہ میں جس بے یقینی کا اظہار کیا گیا ہے اس کا احساس کراچی
میں نہایت سہل ہے لیکن یعقوب تصور اسے بڑی آسانی سے ابوظبی کے اندر محسوس
کرتے ہیں ۔ ملک و ملت کی اس دگرگوں حالت کے اسباب اگر آپ یعقوب تصور سے
جاننا چاہتے ہیں تو سنئے
طے مسافت زیست کی کرنا کڑی اک شرط ہے
حاصلِ منزل سفر تو ہے، سفر کیسے کریں
رہبروں میں راستے کے علم کا فقدان ہے
رہزنوں کو کارواں کا راہبر کیسے کریں
یعقوب صاحب جیسے لوگوں نے تو راہبر اور راہزن میں فرق کر کے اپنے آپ کو باز
رکھا لیکن بھولی بھالی عوام اپنے تئیں یہ تفریق نہیں کر پاتی اور تذبذب کا
شکار ہوجاتی ہے ایسے میں ذرائع ابلاغ مونس و غمخوار بن کر آگے آتے ہیں اور
جورو استبداد کو اس قدر خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں کہ عوام و خواص دونوں
اس طوقِ سلاسل کو اپنے گلے کا ہار سمجھنے لگتے ہیں۔
خبر ہوتی نہیں ہر گز کسی کو
یہ استبداد کا انداز کیا ہے
وہی جانے جو اس محشر سے گزرے
شکست ِ قلب کی آواز کیا ہے
ملک وقوم کی رہنمائی اگر رہزنوں کے ہا تھ آجائے اور اگر یہ سلسلہ طویل
ہوجائے تو اک گونہ بے حسی چہار جانب چھا جاتی ہے اور عوام مظالم کے اس قدر
خوگر ہوجاتے ہیں کہ سماج سے ظالم و مظلوم کی تمیز مٹ جاتی ہے اور شاعر کو
یہ کہنا پڑتا ہے
اب یہ معاشرہ کسی قابل نہیں رہا
منصف نہیں رہا کوئی عادل نہیں رہا
جو ظلم سہ رہا ہے وہ مظلوم اب نہیں
جو قتل کر رہا ہے وہ قاتل نہیں رہا
اس سنگین صورتحال کے باوجود انحراف کے قطعات میں نہ ہی خوف اور نہ مایوسی
نظر آتی ہے بلکہ اس کے برعکس امید اور حوصلہ کا ٹھاٹیں مارتا ہو سمندر
موجزن دکھلائی دیتا ہے۔اس لئے شاعرشکوہ شکایت کے چکر میں نہیں پڑتا ۔ اس کے
پاس غم دنیا کا ماتم کرنے کیلئے فرصت نہیں پائی جاتی بلکہ وہ اپنے قاری
کوفطرت کے مظاہر کی عکاسی کر کے روشن مستقبل کا یقین دلاتا ہے
آکے ہر صبح یہ دیتا ہے دلاسے سورج
ہے اندھیروں کے تعاقب میں سدا سے سورج
روشنی ہوگی ہر اک سمت یقیں ہے لیکن
سر نکالے ذرا بادل کی ردا سے سورج
یہی مثبت سوچ اور رجائیت پسندی انحراف کی روح ہے جسے الفاظ کے نہایت خوشنما
پیراہن میں یعقوب تصور صاحب نے پیش فرمایا ہے ۔ یہ ان کا اپنا حصہ بلکہ
خاصہ ہے ۔ میں امید کے ان روشن چراغوں کو سلام کرتا ہوں جو شریر ہوا کے
جھونکوں سے بر سرِ پیکار ہوتے ہیں اور جب ہوا ان کی جانب ہاتھ بڑھاتی ہے تو
روشنی تیزتر ہو جاتی ہے
آئینہ بر سر حیات رکھا
عکس مخفی درونِ ذات رکھا
روشنی اور بڑھ گئی اس کی
جب ہوا نے دئے پہ ہاتھ رکھا
ہم دعا کرتے ہیں کہ ان چراغوں کی روشنی سے ظلمات کے اندھیرے دور ہوں نیز
دربدرکی ٹھوکر کھانے والے انسانی قافلے کو اس کے ذریعہ راہ ِہدایت کا سراغ
ملے ۔ یعقوب تصور صاحب جس طرح اپنے آپ سے پر امید ہیں اسی طرح ہم بھی ان سے
مستقبل میں اسی طرح کی بہترین امکانات کی توقع رکھتے ہیں
مصائب جھیلنے میں نہیں ڈرتا محبت میں
جوان عزم مصمم ہے بدن میں جان باقی ہے
بہت کچھ کر چکا ہوں میں تصور زندگانی میں
بہت کچھ کرگزرنے کا ابھی امکان باقی ہے |