کشمیری 2020میں بھی آزادی کے منتظر

سابق بھارتی آرمی چیف ،موجودہ چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت نے ایک تقریب میں مودی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیریوں خاص طورپر بچوں میں نام نہاد انتہاپسندی کے رحجانات کو ختم کرنے کیلئے عقوبت خانے قائم کرے۔بپن راوت کی طرف سے کشمیری نوجوانوں کے ذہن بدلنے کے لیے ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپ قائم کرنے کابیان انتہائی خطرناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ پانچ ماہ سے ایک قیامت برپا ہے جہاں عوام اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔بھارت نے تیرا سے اٹھارہ سال عمر کے بچوں کو گرفتار کر کے اْنہیں نظر بندی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے جن کے بارے میں بھارتی فوج کا چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوٹ یہ کہتا ہے کہ ان بچوں کی برین واشنگ کر کے انہیں ذہنی طور پر بھارت کا ہمنوا بنایا جا ئے گا۔اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم ان گرفتار بچوں کو قتل کر سکتی ہے لہٰذا اقوام متحدہ اور آزادی پسند ممالک اس کا نوٹس لیتے ہوئے ان کشمیری بچوں کی بحفاظت رہائی کو یقینی بنائیں ۔ کشمیریوں کے حقیقی لیڈر سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق ، یسین ملک ، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی اور وہ دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کی بے مثال قربانیاں دیں اور اپنی زندگیاں کشمیر کی آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لئے صرف کر دیں۔یہ وہ قائدین ہیں جنہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ان کے عزم و استقلال اور جرات و بہادری پر لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے کشمیری اور پاکستانی عوام ا نھیں سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا ہے قاتل اور مقتول اور ظالم اور مظلوم کو برابر کا درجہ دیکر ایک ساتھ بٹھا دیا جائے۔ یہ سید علی گیلانی اور ان جیسے دوسرے قائدین کی قیادت کا کرشمہ ہے کہ کشمیری قوم نے ایک لاکھ انسانوں کی قربانی دینے، اپنے مال و جائیداد کو تباہ کروانے اور اپنی عزت و حرمت کی قربانی دینے کے باوجود اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہتے ہونے کے باوجود بھارت کی نو لاکھ فوج کو نکیل ڈال رکھی ہے۔کشمیری عوام حق خودارادیت کے مطالبے کی پاداش میں بھارتی ظلم وجبر کا سامنا کررہے ہیں.گزشتہ 30 سالوں میں95 ہزار کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں بھارتی فورسز کی حراست میں10ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یعنی 5 اگست 2019 کے بعد تلاشی اور محاصرے اور کریک ڈاؤنز کی کارروائیو ں کے دوران بڑی تعداد میں کشمیریوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔بے شمار نوجوانو ں کوحراست میں لے کر گمنام مقامات پرمنتقل کیا گیا۔ بھارت کشمیری بچوں کو جسمانی اور ذہنی طورپر تشدد کا نشانہ بنانے کی مذموم پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اقوام متحدہ قید کشمیریوں اور نوجوانو ں کی دوران حراست گمشدگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ان کے بارے میں تحقیقات کرائے۔ نوجوانوں کو کالے قوانین کے تحت گرفتار کر کے نازی طرز کے ان عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔عالمی برادری مقبوضہ کشمیرکی بدترین صورتحال اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور طاقت کے وحشیانہ استعمال کی پالیسی کا سخت نوٹس لے۔

پانچ اگست کے بھارتی یکطرفہ اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ سے زائد کشمیری عملا قیدی ہیں،خطے کے امن کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ بھارت نے پوری کوشش کی کہ معاملہ سلامتی کونسل میں زیر بحث نہ لایا جا سکے لیکن پچاس سال بعد پاکستان اس مسئلے کو سلامتی کونسل لے گیا اور موجودہ حکومت کی کوششوں سے کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل میں دوسری بار اور امریکی کانگرس میں بھی دو بار زیر بحث آیا۔12دسمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سیکرٹری جنرل کو خط تحریر کیا اور پاکستان کی درخواست اور چین کی امداد سے یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں دوبارہ اٹھایا گیا۔سلامتی کونسل کے 15ارکان نے بحث میں حصہ لیا، اگر امریکہ سلامتی کونسل میں رکاوٹ بنناچاہتا تو وہ بن سکتا تھا لیکن امریکہ نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستان عالمی مبصرین کیساتھ بھر پور تعاون کر رہا ہے جبکہ بھارت کی جانب سے قدغنیں ہیں اور حال ہی میں چند غیر ملکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر میں مخصوص مقامات لے جا کر ناٹک رچایا گیا۔ جب سے بھارت میں ہندوتوا پالیسی پر گامزن حکومت سامنے آئی ہے انہوں نے مسئلے کھڑے کر دیئے ہیں اور پورے خطے کو بھارت نے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ بھارت خود اعتراف کر رہا ہے کہ یہ مسئلہ 1948 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں میں ڈیووس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کشمیر کا تنازعہ دوبارہ اٹھایا،وزیر اعظم نے سب سے پہلے مسئلہ کشمیر پر بات کی اور واضح کیا کہ جب دو نیوکلیئر پاورز آمنے سامنے ہوں گی تو اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی۔وزیر اعظم نے دوٹوک بات کی کہ دو جوہری طاقتوں کے مابین جنگ کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑیگا۔پاکستان کی پالیسی یہی ہے کہ ہم کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد جاری رکھیں گے جب تک مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہو جاتا۔حکومت نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پروگرام تشکیل دیئے ہیں اس حوالہ سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 25 جنوری سے انشاء اﷲ ہم ایک پوری مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں،یہ مہم الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر چلائی جائے گی۔اس سلسلے میں 27 جنوری کو اسلام آباد نیشنل کونسل آف آرٹس میں کلچرل شو منعقد ہو گا۔28 جنوری کو مظلوم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے تصویری نمائش ہو گی،30 جنوری کو اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد ہو گا۔پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین سید فخر امام اور ارکان بھی اس سیمینار میں شرکت کرینگے۔3 فروری کو اسلام آباد کنونشن سینٹر میں کشمیر کے حوالے سے خصوصی تقریب منعقد ہوگی جبکہ 4 فروری کو ایوان صدر میں کشمیر کے حوالے سے تقریب ہو گی جس میں پوری ڈپلومیٹک کور کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔صدر مملکت تقریب سے خطاب کرینگے۔5 فروری کو انسانی زنجیر بنائی جائے گی اور پورے ملک میں کشمیر ریلیاں نکالی جائیں گی چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کشمیر یکجہتی ریلیوں کی خود قیادت کریں گے جبکہ اسی روز وزیر اعظم آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ سے اور اسی روز وزیر اعظم عمران خان عوامی اجتماع سے بھی خطاب کریں گے۔وزارت خارجہ نے پاکستان کے تمام سفارتی مشنزکو ہدایات دے دی ہیں۔ہر سفارتی مشن 5 فروری کو کشمیر کے حوالے سے تقریب منعقد کرائے گا اور کشمیر کے حوالے سے حقائق سے آگاہ کرے گا۔

پاکستان کشمیریوں کے وکیل کے طور پر کشمیر کا کیس لڑ رہا ہے، اقوام عالم کی زمہ داری ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر یوں کوحق خود ارادیت دلوایا جائے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ کشمیری ایک طویل عرصے سے اپنے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں او انہیں اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے ، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے اور مسلسل محاصرے کے بعد کشمیریوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ بھارتی محاصرے سے مواصلاتی نظام درہم برہم ہے اورکشمیریوں کا رابطہ باقی دنیا سے منقطع ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر وپاکستان کا ہر فرد کشمیریوں کے دکھ درد کو محسوس کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق اپنے حصے کا کردار ادا کرے، بھارت اپنے تمام تر ظلم وجبر کے باوجود کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہا ہے مودی کے انتہا پسندانہ اقدامات سے خود بھارت کے اندر بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے، عالمی برادری نے بھارت انتہا پسندانہ اقدامات کا نوٹس لیا ہے چین کی طرف سے سلامتی کونسل کے اجلاس کا انعقاد بہت مثبت پیشرفت ہے اقوام متحدہ کوچاہیے کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ خطے میں امن کا قیام ممکن ہو ۔

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 63222 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.