ہر جنگ خوفناک ہوتی ہے مگر جنگ عظیم دوم اتنی خوفناک
تھی کہ عالمی رہنماؤں نے جنگ کا ادارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا
سوچا۔ تمام تر کمزوریوں کے باوجود اقوام متحدہ نوآبادکاری کا عہد ختم کرنے
میں کامیاب رہی لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خاتمہ رسمی ہی تھا۔ یہ بھی
کہنا پڑے گا کہ نو آبادکاری کے عمل نے فقط بھیس بدلا تھا۔ دوسری جنگ عظیم
کے بعد تقریباً سبھی نوآبادیوں کو باقاعدہ آزادی مل گئی لیکن اس میں بھی
کوئی شک وشبہ نہیں کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک پسماندہ ملکوں پر مسلط
رہے۔ ہاں البتہ براہ راست اقتدار کی جگہ بالواسطہ جدید نوآبادیاتی طریقوں
نے لے لی۔ دو عالمی جنگوں کے بعد امریکہ دنیا کے غالب سیاسی اقتصادی قوت کی
حیثیت سے ابھرا اور اس نے وہی مقام حاصل کر لیاجو انیسویں صدی میں برطانیہ
کو حاصل تھا۔ امریکہ نے قدرے تذبذب کے ساتھ آزاد دنیا کے رہنما کا اپنا نیا
کردار سنبھالا۔دنیا بھر میں نئی امریکی دلچسپی تیزی سے ترقی کرتی صنعتی
اقتصاد کی عکاس بھی اور نئی معاشی منڈیوں اور خام مال کی ضرورت بھی ہے لیکن
امریکی عوام کو تاثر دیا جاتا رہا کہ اصل مسئلہ کمیونزم کا خطرہ ہے۔ امریکی
جماعتوں نے اپنے اپنے ووٹروں کے سامنے جوازپیش کیا کہ وہ کمیونزم کے خطرے
کے پیش نظر دوسرے ملکوں کے اندونی معاملات میں مداخلت پر مجبور ہیں مگر آج
سرد جنگ کو ختم ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہے تو غیر ملکی مداخلت کا جواز فراہم
کرنے کے لئے کسی اور دلکش محرک کی ضرورت پیش آئی چنانچہ کمیونزم کے خلاف
مقدس جنگ کی جگہ دہشت گردی کے نعروں نے لے لی ہے۔ 1945ء سے لے کر اب تک
امریکہ بہت سے ممالک کے اندرونی معاملات میں ملوث ہوتا چلاآیاہے تازہ ترین
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سے پہلے دوسرے ممالک کے معاملات میں امریکی مداخلت
کی ایک مختصر فہرست پیش خدمت ہے۔1945ء سے 1949ء تک چین، 1947-48ء اٹلی،
1947-49ء یونان، 1946ء تا1953ء فلپائن، 1945ء تا 1953ء جنوبی کوریا،
1949تا1953ء البانیہ، پچاس کا عشرہ جرمنی، 1953ء ایران، 1953ء تا1990ء
گوئٹے مالا، 1956ء تا1958ء مشرق وسطیٰ، 1957-58ء انڈونیشیا، 1953-64ء برٹش
گیانا، 1950ء تا1973ء ویت نام، 1955-73ء کمبوڈیا، 1960ء تا 1965ء
کانگو-زائر،1961ء تا 1964ء برازیل، 1963ء تا1966ء ڈومینسکین ریپبلک، 1961ء
تا حال کیوبا، 1965ء انڈونیشیا، 1964ء تا1973ء چلی،1964ء تا 1974ء یونان،
1975ء تاحال مشرقی تیمور، 1978ء تا 1989ء نکاراگوا، 1979ء تا 1984ء
گرینیڈا،1981ء تا1989ء لیبیا، 1989ء پانامہ، 1990ء تا حال عراق، 1994ء
ہیٹی، 1999ء یوگوسلاویہ۔امریکہ کی ان مداخلتوں کے اصل محرکات ایسی حکومتوں
اور قوانین کی تشکیل اور استقرارتھا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے معاشی
مفادات کا تحفظ کر سکتے تھے۔امریکہ دنیا بھر کے پسماندہ ملکوں میں مداخلت
ہی نہیں کر تا بلکہ وہیں ان کی سرزمین پر اپنے فوجی اڈوں کا جال بھی بچھا
یا ہوا ہے۔دنیا کے کونے کونے میں ایسے امریکی فوجی اڈے پھیلے ہوئے ہیں، جو
امریکی مفادات کے تحفظ میں مصروف کار ہیں ساتھ ہی امریکی دبدبے کے لئے بھی
سرگرم رہتے ہیں۔ امریکہ نے اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک پر براہ راست
قبضہ نہ سہی مگر بالواسطہ قبضہ جمانے اور مداخلت کے لئے سات سے آٹھ سو سراغ
سرانی، جاسوسی اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں بھی امریکہ کا دخل انتہا پر ہے۔ دراصل سویت یونین کے
بکھرجانے کے بعد مشرق وسطیٰ میں طاقت کا جو خلا پیدا ہوا، اسے پر کرنے کے
لئے امریکہ آگے بڑھا تھا اور اب تک مشرق وسطیٰ اس کی گرفت میں جکڑا چلا
آرہا ہے۔ صرف ایران کے پڑوس اور قریبی ممالک میں کتنے امریکی فوجی اپنے
سازو سامان کے ساتھ تعینات ہیں، اس بارے میں تازہ ترین ’’نیویارک ٹائمز‘‘
کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں اس وقت امریکی
فوجیوں کی تعداد 54ہزارسے 65ہزار کے درمیان ہے۔ اس خطے میں جو امریکی عسکری
اثاثے موجود ہیں ان میں پیشگی وارننگ دینے والے جہاز، سمندری نگرانی کرنے
والے جہاز، پیٹریاٹ ائیراینڈمیزائل ڈیفنس بیٹریز، بی52بمبار طیارے، کیرئیر
اسٹرائیک گروپ، مسلح ریپرڈرون اور انجینئر و دیگر اہلکار شامل ہیں۔ اس کے
ساتھ ساتھ تقیریباً دو سے ڈھائی ہزار امریکی فوجی ترکی میں بھی موجود ہیں۔
جن میں زیادہ تر وہاں کی ۱انجیر لیک ائربیس پر تعینات ہیں۔ امریکہ اپنے
ناٹواتحادی ترکی سے کشیدہ تعلقات کے باوجود اس ائر اڈے کا استعمال کرتا رہا
ہے اور یہاں سے داعش کے خلاف سینکڑوں فضائی حملوں کے لئے طیاروں نے پروازیں
کیں۔ ـــ’’ـــــــافغانستان‘‘ میں امریکہ کے تقریباً 14ہزار فوجی جنگجو
موجود ہیں جو وہاں امریکہ کی اب تک کی طویل ترین جنگ کا حصہ ہیں۔ اس کے
علاوہ مغربی دفاعی اتحاد ناٹو میں شامل ممالک کے آٹھ ہزار فوجی افغانستان
میں موجود ہیں۔ــ’’ بحرین‘‘ خطہ کی صورتحال پر نظر رکھنے اور ذاتی مفادات
کے لئے امریکی نیوی کا پانچواں فلیٹ بحرین میں قائم امریکی فوجی اڈے پر
تعینات ہیں۔اس جزیرہ نما ریاست میں قائم اس اڈے پر سات ہزار، امریکی فوجی
تعینات ہیں۔ بحرین میں واقع شیخ عیسیٰ ائیر بیس بھی امریکی لڑاکا اور جاسوس
طیاروں کے زیر استعمال ہے۔ برطانیہ نے بھی 1971ء کے بعد حال ہی میں بحرین
میں نہر سوئز کے مشرقی کنارے پر اپنا اولین فوجی اڈہ قائم کیا ہے۔’’عراق‘‘
میں امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار کے قریب ہے۔’’کویت‘‘تیل کی
دولت سے مالا مال اس ریاست میں قائم امریکی فوج کے سنٹرل فارورڈ ہیڈ کواٹرز
میں تیرہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ بحرین کے دو فوجی اڈے اور ایک نیول
بیس امریکی افواج کے زیر استعمال ہیں، یہاں امریکی فوج کی 2200ایسی بکتر
بند گاڑیاں بھی موجود ہیں جن پر بارودی سرنگیں اثر نہیں کرتیں۔ ’’عمان‘‘میں
بھی چند سوامریکی فوجی تعینات ہیں۔ عمان نے امریکی فوجی طیاروں کو پرواز کے
لئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے اور بحری جنگی جہازوں کو اپنی بندرگاہوں
میں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے، برطانیہ نے بھی وہاں ایک نیا نیول بیس بنانے
کا معاہدہ کیا ہے۔ ’’قطر‘‘ میں امریکی فوج کے سنٹرل کمانڈ کا فارورڈ
ہیڈکواٹرز قطر کی العدید ائیربیس پر قائم ہے۔ یہاں تیرہ ہزار امریکی فوجی
موجود ہیں۔ایران کے ساتھ تناؤ میں اضافے کے بعد اس ائیربیس پر جوہری ہتھیار
لے جانے کی صلاحیت کے حامل بی- 52بمبار طیارے بھی تعینات کیے گئے
ہیں۔’’دبئی‘‘کے جبل علی پورٹ پر امریکی نیوی کا ایک بڑا اڈہ قائم
ہے۔’’متحدہ عرب امارات‘‘ میں تقریباً پانچ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں ان
میں کئی ابوظہبی کے الظفرۃ ائیربیس پر تعینات ہیں جہاں امریکی ڈرون اور
جدید ایف- 35طیاروں کو رکھا گیاہے۔ امریکی نیوی کا ایک چھوٹا اڈہ الفجیرہ
میں بھی قائم ہے۔ ’’سعودی عرب‘‘میں پہلے سے موجود 11ہزار بعد ازاں تین ہزار
کا اضافہ کرکے کل 14ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔امریکن سوسائٹی پراجیکٹ کی
رپورٹ کے مطابق ’’اردن‘‘میں تین ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ اردن کا موافق
سلطی ائیربیس بھی امریکی کے زیراستعمال ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایران کے
اطراف میں سمندر اور خشکی دونوں پر امریکی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے اور
جنگ کی صورت میں امریکہ مشرق وسطیٰ اور خطے میں موجود اپنی کئی تنصیبات کو
بروئے کار لا سکتا ہے۔امریکی افواج کی دیگر ممالک میں موجودگی کے
اعدادوشمار پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ــ’’امریکہ،
ایران تنازعہ ہے کیا؟‘‘امریکہ بہادر کو ایران سے یہ شکایت ہے کہ وہ اپنی
جوہری قوت میں اضافے کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک میں مداخلت کرتاہے۔ ایران
کو امریکہ سے یہ شکوہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خطے کے دیگر ممالک میں امریکی
فوج کی موجودگی کو بلاجوازقرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں
اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مذموم کاروائیں کرتا ہے جس کی اسے اجازت نہیں
دی جا سکتی۔ دنیا اچھی طرح جان لے کہ جنگیں بھی کاروبار ہیں، ہتھیار بھی
صنعت کا درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ جنگ کو معاشرتی،سیاسی ومعاشی ادارہ
کہنا چاہئیے۔ یہ سب چالیں معاشی منڈیوں پر قبضہ جمانے اور اپنی گرتی معیشت
کو سہارہ دینے کے لئے رچائی جاتی رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تیل ہمیشہ
تنازعات کا باعث رہا ہے،1963ء میں امریکی پشت پناہی سے آنے والے فوجی
انقلاب کے نتیجے میں صدام حسین کی بعث پارٹی برسر اقتدار آئی۔ 1979ء میں
شاہ ایران کی حکومت ختم ہوئی تو امریکہ کو فکر لاحق ہوئی کہ بنیاد پرست
شعیہ حکومت مشرق وسطیٰ کے تیل کی فراہمی میں رخنہ ڈال سکتی ہے۔ ان خطرات کے
تدارک کے لئے امریکہ نے صدام کو ایران کے خلاف استعمال کیاامریکہ، برطانیہ
عراق کو کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی میں ملوث تھے۔ آج ایران مشرق وسطیٰ میں
غیر معمولی تصادم کا ایک بنیادی فریق ہے ایک طرف ایران ہے اور دوسری طرف
پوری عرب دنیاہے۔ ایران کا کردار مشرق وسطیٰ میں جتنا بڑھتا ہے عرب دنیا کی
پریشانی بھی اتنی ہی بڑھتی ہے اس عالم میں عرب دنیا کو امریکہ سے معاملہ
کرناپڑتا ہے۔ امریکہ ایران کو ایک حد سے زیادہ طاقتور ہوتا برداشت نہیں کر
سکتا، اسے یہ ہرگز گوارا نہیں کہ ایران ایٹمی قوت بن جائے ا ور اسرائیل،
سعودی عرب کے لئے خطرہ بن جائے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ایران
کو دشمن سمجھنے کے باوجود اسے اس حد تک کمزور بھی نہیں کرنا چاہتا جہاں عرب
دنیا اس کے خوف کے اثرات سے نکل جائے۔ٹرمپ سعودی عرب کے اگلے دس سالوں میں
350ارب ڈالر کا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے، یادرہے کہ پچھلے سال دنیا بھر میں
بیچے جانے والے امریکی اسلحے کا 22فیصد صرف سعودی عرب نے خریدا تھا۔ 2013ء
سے 2017ء تک امریکی اسلحے کا سب سے بڑاخریدار سعودی عرب تھا۔ عرب دنیا کا
یہ خوف امریکہ کا بہت بڑا معاشی سہارا ہے۔ سعودی عرب، یواے ای اور دیگرعرب
ریاستیں اتنا بھاری اسلحہ کیونکر خرید رہی ہیں؟ انہیں فرانس، چین، روس یا
پاکستا ن سے خطرہ ہے؟ ایران، اسرائیل کے لئے چیلنج نہ بن سکے یہ امریکی
خارجہ پالیسی کا بنیادی جز ہے، ایران مشرق وسطیٰ میں ایک قوت کے طور پر
موجود رہے یہ شاید امریکی معاشی پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔
|