انگریز مسلمانوں کے دوست نہیں۔ یہودی بھی دوست
نہیں۔ مشرکین بھی دوست نہیں۔ان تینوں کے اتحاد و اشتراک نے مسلمانوں کو
ہمیشہ زخم دیا ہے۔یہ تاریخ رہی ہے۔ ہم نے اپنی تاریخ فراموش کر دی ہے۔
آنکھیں موند لیے ہیں۔ طوفاں سے بے خبر ہیں۔ زخموں کی ٹیس سے غافل ہیں۔
۱۹۱۹ء میں جب تحریک خلافت شباب پر تھی۔ انگریز کے ملک سے خارجہ کی کوششیں
تیز تھیں۔کام اچھا تھا لیکن اس آڑ میں نشانے پر مسلمان تھے۔ ہندومسلم
اتحاد کی لہریں چل رہی تھیں۔ اس وقت بھی خسارے میں مسلمان تھے۔ کیسے؟ یہ
سوال اہم ہے۔ اس وقت مدعا یہ تھا کہ ملک سے انگریز کو نکال باہر کرنا ہے۔
اس لیے قربانیوں کی بساط مسلمانوں نے آراستہ کی۔ مشرکین کی خوشی کے لیے؛
یہ نعرہ دیا گیا کہ: مسلمان گائے کا ذبیحہ ترک کر دیں۔ مسلمان گنگا و جمنا
کو مقدس مان لیں۔ قرآن و گیتا کو ایک ڈولے میں رکھا گیا۔ مسلمان؛ گاندھی
کو مذہبی پیشوا کی طرح مانیں یہ مطالبہ بھی ہوا۔ مسلمان ایسے شعار ترک کر
دیں جن سے ہندو کی ناراضی ہو۔ گاندھی کی رضا کے لیے مذہبی شخصیات نے جی
حضوری والا رویہ اپنایا۔ یہ فرقہ پرستوں کی پہلی کامیابی تھی۔ یہ
٢٠١٩-٢٠٢٠ء کی بات نہیں ہے؛ایک صدی قبل کا واقعہ ہے…ہاں یہی حالات تھے جن
کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
مشرکین سے اگر جمہوری و دستوری طور پر تعلق کی بات ہوتی تو معاملہ جدا تھا۔
لیکن ہم نے اپنے شرعی اُصولوں سے انحراف کیا۔ اپنے شرعی معاملات سے دست
بردار ہوتے گئے۔ مشرکین کی خوشی کے جتن کیے جاتے رہے۔ ان کے جذبات کی ہر ہر
جگہ قدر کی۔ حکمت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اپنے مذہبی شعائر و مراسم میں کسی
طرح کی مداہنت گوارہ نہ کی جاتی۔ کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کیا جاتا۔ لیکن ہر
ہر قربانی کے لیے ہم ہی پیش رہے۔ پھر کیا ہوا؟ نئی نئی سازشوں کی بساط
بچھی۔ تشدد اور اسلام میں رشتے تلاش کیے گئے۔ جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ تشدد
گجرات میں بھڑکا۔ مسلمان شکار بنے۔ دہشت گرد آزاد رہے اور مسلمان جیلوں
میں قیدوبند کے شکار ہوئے۔ڈرائے دھمکائے اور پریشان کیے گئے۔
مسلمانوں پر ستم کا انعام ملا۔ مودی آئیڈیل بنے۔ انھیں نوازا گیا۔ چینلوں
نے ان کے گن گائے۔ وہ ملکی سطح پر طاقت بن کر اُبھرے۔ سیکولر ووٹوں کو
تقسیم کیا گیا۔ غیر دانش مندانہ مسلم قیادت نے قوتوں کو مجتمع کرنے کی
بجائے بکھیر دیا۔ یوں ہی فرقہ پرستی غالب نہیں آئی۔ مکمل سازش تھی۔ منظم
طریقہ تھا۔ شکار ہم ہوئے۔ پھر بھی سوئے رہے۔ کسی نے مسجد گرائی۔ کسی اور نے
مسجد کی جگہ مندر بنانے کے نام پر ووٹ مانگی۔ یک طرفہ ووٹنگ اور فرقہ پرستی
کی یک جٹ طاقت نے ملک بھر میں راستہ صاف کیا۔ اقتدار ملا۔ ایسا کہ کایا ہی
پلٹنے پر تُل گئے۔ معاشی عدم استحکام کے باوجود سرمایہ دار طبقہ حکمرانوں
سے اس لیے راضی ہے کہ حکمراں کا نشانہ صرف مسلمان ہیں۔ ابھی درجنوں
وارداتیں جاری ہیں اسلام کے خلاف؛ مسلمانوں کے خلاف۔ سیکڑوں خرابیوں سے
مملو مشرک معاشرے کی اصلاح کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ منظم شرعی قوانین کے
ماننے والوں پر شرعی پابندیوں سے آزادی کی کوششیں سپریم کورٹ میں تیز ہیں۔
وہ بھی خاموش ہیں جنھوں نے مودی کی جے بولی تھی۔ اور مودی کے سائے میں تصوف
کی قدروں کو گروی رکھ دیا تھا۔
اقتدار کی آڑ میں ملک کی جمہوری قدروں کی پامالی تیزی سے جاری ہے۔ نوٹ
بندی سے ہونے والی افراتفری کو شریعت میں دخل اندازی کی فضا بنا کر قابو
کیا گیا۔ ازیں قبل گائے کی نسل کے جانوروں کے ذبح پر امتناع عائد کر کے
مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ محض شک کی بنیاد پر شدت پسندوں کو خونِ مسلم
سے ہولی کھیلنے کی غیر اعلانیہ آزادی کو کیا نام دیا جائے؟ فرقہ وارانہ
ذہنیت کی حوصلہ افزائی ہی ہے کہ اب تک قانون کو ہاتھ میں لینے والے جنونیوں
سے سختی سے نمٹا نہیں گیا۔ اگر ایسے ملزمین پر مقدمہ قائم کیا جاتا اور
انھیں عبرتناک سزا ملتی تو شاید کئی جانیں بچ جاتیں اور محض الزام کے تحت
تشدد کی ہولی کھیلنے والے باز آتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان کے حوصلے
ابھی بلند ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب ملک کا مزاج بدل گیا ہے۔ انگریز کے
دور میں بھی اس قدر کھل کر اور شدید مسلم دُشمنی کا مظاہرہ شاید ہوا ہو!
لیکن اب حالات نے کروٹ لی ہے۔ تمام دُشمن طاقتیں ایک ہیں اور اب لگتا ہے کہ
مودی کے سائے میں مزید شعبے مسلم دُشمنی میں قائم ہوں گے؛ جن کے ذریعے
مسلمانوں پر تازہ فکری، تہذیبی، لسانی و نسلی حملے کئے جائیں گے! شرعی
قوانین کی مذمت میں بھی سرگرمی دکھائی جا چکی۔ فرقہ پرست اپنے ہی معاشرے کی
اصلاح سے آنکھیں بند کر کے دنیا کی سب سے عظیم اسلامی تہذیب کے مقابل زبان
دراز کر رہے ہیں۔ یہ المیہ ہے۔ بلکہ اب شہریت ہی چھیننے کی تیاری ظاہر ہو
رہی ہے-
[۱] موجودہ وزیر اعظم کی اسرائیل سے دوستی سامراجی قوتوں کی حوصلہ افزائی
ہے اور فلسطینی مظلوموں کا مذاق ہے۔
[۲] اسرائیل میں قادیانی عناصر سے ساٹھ گانٹھ بھی ایک نئے محاذ کی تیاری
ہے۔ شاید فرقہ پرست یہ سوچ رہے ہوں کہ اب قادیانیوں کو مسلمانوں کی طرح اگر
حقوق عطا کئے گئے تو مسلمان سب کچھ جھیل لیں گے، لبرل دانش ور قادیانیوں کا
سہارا بنیں گے، لیکن ہماری تاریخ رہی ہے کہ ہم سب قربان کر دینے والے
ناموسِ رسالت میں بے ادبی ہرگز گوارا نہیں کر سکتے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ محمد
رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔ قادیانی شاتم؛ اسلام کے بنیادی عقیدہ ’’ختم
نبوت‘‘ کا منکر ہے۔ انھیں سامراجی ہمدردی حاصل ہو یا مودی کی پشت پناہی
مسلمان ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ قادیانیت کی تائید میں اٹھنے والی تمام
آوازوں کو یکسر مسترد کر دیا جائے گا اور عقیدہ ختم نبوت پر استقامت
اختیار کر کے ہر حملے کا دنداں شکن جواب دیا جائے گا۔
[۳] نصابی سرگرمیوں میں بھی بھگوا رنگ داخل کرنے کی کوششیں ہیں۔ اس ضمن میں
مسلمانوں کو چاہیے کہ نسلِ نو کی دینی تربیت سنجیدگی سے انجام دیں۔
[۴] ناموسِ رسالت میں توہین کی فضا کی ہمواری بھی فرقہ پرستوں کی سازشوں کا
پہلو ہے۔ اس لیے اپنے نبی ﷺ سے محبت کی فکر کیجئے اور عشق رسالت میں کسی
بھی طرح کی جرأت کو مسترد کر دیجئے۔
[٥] مذہب کے نام پر دستور سے متصادم قوانین کی تشکیل بھی در اصل بھارتی
مسلمانوں سے ان کی شہرت چھیننے کی سازش ہے- اور کم زور طبقوں کو غلام بنانے
کا آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے-
موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمان اسلامی احکام کا نفاذ عملی
زندگیوں میں کریں؛ جمہوری جدوجہد جاری رکھیں- تا کہ تمام سازشیں ناکام ہوں
اور مسلمان بحیثیت مسلمان عزت و وقار اور اپنی مکمل شناخت کے ساتھ جی سکیں۔
٭٭٭
*نوٹ:* یہ مضمون ایک سال قبل لکھا گیا... حال کے شامیانے میں بیٹھ کر جزوی
تبدیلی کی گئی... اب بزمِ مطالعہ میں پیش ہے-
٢٦ جنوری ٢٠٢٠ء
|