بچوں کی انسانی درندوں سے حفاظت ضروری

کبھی سنتے تھے کہ انڈیا میں خواتین کے ساتھ زیادتی،ریپ اور کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن اب تو ایسی خبریں پاکستان میں بھی روز سننے کو ملتی ہیں،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی افسوسناک خبر سامنے نہ آئے، اس ضمن میں والدین کی کوتاہیاں بھی ضرور ہوں گی لیکن حکومت نے بھی زینب الرٹ بل صرف اسلام آباد کے لئے لا کر ابھی تک اسے بھی منظور نہیں کروایا، پنجاب میں زینب الرٹ بل کے نفاذ ہونے کا امکان ہے لیکن اس بل کے آنے کے باوجود درندے بے خوف و خطر گناہ کبیرہ کر رہے ہیں،زیادتی، جنسی تشدد، ریپ اور قتل کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں۔ مانسہرہ میں کمسن بچے سے زیادتی کا واقعہ آجکل میڈیا پر چل رہا ہے،قصور اور چونیاں کے واقعات بھی سب کے سامنے ہیں، ننھی زینب بھی قصور میں درندگی کا شکار ہوئی۔گزشتہ دو تین برسوں سے کمسن بچوں سے زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس معاملے کو لے کر وزیراعظم عمران خان بھی پریشان ہیں انہوں نے منشیات اور بچوں سے زیادتی یہ دو بڑے مسئلے قرار دیئے ہیں جن کے تدارک کے لئے انہوں نے والدین سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اس ضمن میں کردار ادا کریں۔

بچوں سے زیادتی کے واقعات پر مبنی حکومت پنجاب کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ستمبر2019 تک بچوں سے زیادتی کے کل 1024 مقدمات رجسٹر ہوئے،1024 میں سے 856 مقدمات کی تفتیش مکمل کرکے چالان عدالت میں جمع کرائے جاچکے ہیں،لاہورمیں ستمبر 2018 سیمارچ 2019 تک بچوں سیزیادتی کے 152 مقدمات رجسٹرہوئے.پنجاب میں 905 بچے اور 411 بچیاں زیادتی کا نشانہ بنیں۔ ان میں سے 11 بچے اور 10 بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔پولیس ریکارڈ کے مطابق ضلع لاہور میں 105 بچوں سے بدفعلی 94 بچیوں سے زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ جبکہ 2 بچے اور 1 بچی کو قتل کر دیا گیا۔گوجرانوالہ میں 72 بچون سے بدفعلی، 50 بچیوں سے زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے، ایک بچی قتل ہوئی۔ فیصل آباد ریجن میں 60 بچوں سے بدفعلی 15 بچیوں سے زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ ایک بچی قتل ہوئی۔ ملتان ریجن میں 36 بچوں سے بدفعلی اور 13 بچیوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ بہاولپور ریجن میں 38 بچوں سے بدفعلی 20 بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوئے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق ایک ہزار انتالیس کیسز کو حل کر دیا گیا۔ جبکہ لاہور ضلع کے بچوں سے زیادتی کے 3 کیسز تا حال حل نہ ہو سکے۔جس خوفناک تعداد میں بچوں سے زیادتی کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، لگتا ہے جیسے ہمارا معاشرہ بچوں کی پرورش کیلئے سب سے بھیانک معاشرہ بن چکا ہے۔کوئی دن ایسا نہیں گذر رہا کہ جب کوئی واقعہ میڈیا پر رپورٹ نہ ہو۔

بچوں کی حفاظت کے لئے لائے گئے زینب الرٹ بل میں کم عمر بچوں سے زیادتی اور قتل کے جرم پر سزائے موت ختم کر دی گئی،بل میں 18سال سے کم عمربچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرم کے لیے 10سے 14 سال قید تجویز کی گئی ہے.اس سے قبل پیش ہونے والے بل میں بچوں سے زیادتی اور قتل پر سزائے موت تجویز کی گئی تھی،بل میں مجرم پر ایک سے 2 کروڑ روپے جرمانہ کی سزا بھی تجویز کی گئی تھی،قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے قتل اورزیادتی کے مجرموں کے لیے 10سے14سال قید کی سزا تجویز کی،قائمہ کمیٹی کی رپورٹ میں جرمانہ کی سزا بھی ختم کردی گئی۔زینب الرٹ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتہ اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔ بل کے مطابق اسلام آباد میں ’چلڈرن پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا جبکہ لاپتہ بچوں کی فوری بازیابی کیلئے ’زارا‘ یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔زیب الرٹ بل کے تحت بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویڑن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔اس بل کے تحت گمشدہ بچوں کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر پر سرکاری افسروں کو ایک سال تک قید کی سزا بھی ہو سکے گی۔زینب بل کے تحت زاراکے نام سے اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ بل کے متن میں لکھا گیا ہے کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندرہوگا۔ بچوں کے خلاف جرائم پر کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید سزا دی جاسکے گی اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوسکے گا۔گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔1099فری ہیلپ لائن قائم کی جائے گی جس پر بچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طور پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں، مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔قانون کے مطابق جو سرکاری افسر دو گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی۔لاپتہ یا اغواشدہ بچے کی بازیابی کے لئے ضابطے کے تحت عمل نہ کرنے والا پولیس افسر دفعہ 182 کا مرتکب قرار دیا جائے گا، 18سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے، گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ بچے کو منقولہ جائیداد ہتھیانے کے لئے اغوا پر چودہ سال قید دس لاکھ جرمانہ ہوسکے گا۔تاوان کے لئے اغوا کرنے والے کسی بھی شخص کو عمر قید اور دس سال جرمانہ ہوگا۔

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اطفال کا سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا جائزہ لیا گیا اور ان کے تدارک پر بات چیت کی گئی۔ارکان نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات صرف مدرسوں تک محدود نہیں۔ سینیٹر ثمینہ سعید نے تجویز دی کہ بچوں سے ذیادتی کے ملزمان کو سخت سزائیں دی جائیں۔جاوید عباسی نے کہا کہ ان واقعات میں 80 فی صد فیملی ،اساتذہ اور جاننے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں،لوگ عزت کی خاطر چپ کر جاتے ہیں، بچوں کے تحفظ کے حوالے سے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا جائے اور جامع رپورٹ تیار کر کے سینیٹ میں پیش کی جائے۔روبینہ خالد نے کہا کہ غریب والدین کو پیسے دے کر صلح کر لی جاتی ہے،زیادتی کے بعد بچے کی موت ہو جاتی ہے تو پولیس اورلوگ اصل واقعے کودبا دیتے ہیں، بچوں سے زیادتی کے خلاف قوانین بنانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ساتھ رکھا جائے۔ ڈی آئی جی ہزارہ نے مانسہرہ واقعہ پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لڑکوں سے زیادتی کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں، مانسہرہ کے مدرسے میں 120 بچے پڑھ رہے تھے، ملزم قاری شمس الدین اسکول ٹیچر بھی ہے اور باقاعدہ تنخواہ لیتا ہے، بچے کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ قید کر کے مارا بھی گیا، بچے کی حالت اتنی خراب تھی سوچا کہ کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے، مدرسے کو بند کر دیا گیا ہے اور منتظم کو گرفتار کر رہے ہیں۔ بریفنگ کے دوران ملک بھر میں بچوں سے زیادتی کی تفصیلات کمیٹی میں پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ 2018 میں خیبر پختونخوا میں بچوں سے زیادتی کے 143 کیسز، اسلام آباد میں 130، بلوچستان میں 98 اور سندھ میں 1016کیسز رجسٹرڈ ہوئے، خیبرپختونخوا میں 2019میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا، بچوں سے زیادتی کرنے والے لوگ زیادہ تر بچوں کو جاننے والے ہی ہوتے ہیں، جاننے والے، پڑوسی اور دکاندار بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔

ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ والدین اورخواتین اساتذہ بچوں سے دوستانہ رشتہ قائم کریں تاکہ وہ آپ سے بلا خوف اپنے دل کی بات کہہ سکیں، بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی روک تھام کے لیے معاشرے کے ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنی ہوگی کیونکہ درندہ صفت عناصر اپنی خواشات کی تکمیل کیلئے ہر گلی، محلے اور شہر میں موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں،بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین اور اساتذہ کا اہم کردار ہے انہیں اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیئے اور بلاوجہ گھر سے باہر نا جانے دیں،والدین بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں تا کہ وہ ایسے کسی واقعے کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔ انہیں ابتدائی تعلیم سے آگاہی دیں۔ انہیں حفاظتی تدابیر سے روشناس کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکیں۔ کیوں کہ اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے کا لالچ دے کر پھانسا جاتا ہے۔ آج اگر ہم اپنے معالج خود نہیں بنیں گے۔ تو بعد میں بغیر پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بقایا ہم تو صرف صبر کے گھونٹ ہی بھر کر آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 62905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.