علاماتِ نفاق -۲

(۵) دکھلاوے کی خاطر عبادت کرنا:
اول تو منافقین عبادت بہت کم کرتے ہیں اور اگر کبھی کر بھی لی تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے لوگوں کو دکھلانے کے لئے کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان منافقوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ”(یہ منافق لوگ )محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر( عبادت کرتے ہیں) اور اﷲ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔“(النسائ: ۲۴۱)

اسی سلسلے میں حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے:”جو آدمی شہرت کے لئے نیک کام کرے گا(روز قیامت سب کے سامنے) اﷲ تعالیٰ اس کو بدنام اور رسوا کریں گے اور جو آدمی دکھلاوے کے لئے نیک کام کرے گا(روز قیامت سب کے سامنے) اﷲ تعالیٰ اس کا پردہ فاش کردیں گے۔“(صحیح البخاری)

دکھلاوے یا ریاء کی کیا شکل ہوتی ہے؟ یہ کہ انسان لوگوں کے سامنے تو بڑے خشوع وخضوع اور عجز وتضرع کا مظاہرہ کرے اور تنہائی و خلوت کی نماز میں ٹھونگے مارے۔ اور جب لوگوں کے ساتھ بیٹھے تو اس پر زہد و عبادت کا رنگ نمایاں ہو مجلس کی گفتگو کے دوران اس کی باتوں میں ادب و احترام کا مظاہرہ ہو اور ادھر تنہائی میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حرام کردہ حدود کو پامال کر ڈالتا ہو۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے روز کچھ لوگ تہامہ کے پہاڑوں جیسی نیکیاں لے کر حاضر ہوں گے، اﷲ تعالیٰ انہیں راکھ بنا کر اڑا دے گا“ صحابہ کرام نے دریافت کیا: یا رسول اﷲﷺ! کیا وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں؟ فرمایا:” کیوں نہیں! جیسے تم نماز پڑھتے ہو ویسے ہی نماز پڑھتے ہیں اور جس طرح تم روزے رکھتے ہو ویسے ہی روزے رکھتے ہیں اور اپنے اضافی مالوں سے زکوٰة بھی ادا کرتے ہیں اور رات کو بھی اُٹھ اُٹھ کر عبادت کرتے ہیں(لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ سب کچھ دکھلاوے کے لئے کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ) جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو اﷲ کی مقرر کردہ حدود کو توڑ ڈالتے ہیں۔“(سنن ابن ماجہ)

اسی لئے نیک لوگ ریاء کے خوف سے بہت رویا کرتے تھے اور اﷲ کے حضور گریہ زاری کے ساتھ دعا کرتے تھے کہ وہ انہیں ریا سے محفوظ رکھے۔ اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے میں ریا آسکتا ہے، نماز میں ریا آسکتا ہے، ذکر الہیٰ اور روزے میں ریا ہوسکتا ہے۔ ریاء اور شہرت چاہنے کی بیماری سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو ہمیشہ ذہن میں تازہ رکھا جائے:(۱) تم یہ یقین کر لو کہ نفع نقصان صرف اﷲ کی طرف سے ہے اور اﷲ کے علاوہ نہ کوئی بیماری دے سکتا ہے، نہ شفا، نہ کوئی زندہ کر سکتا ہے نہ مار سکتا ہے، نہ کوئی رزق دے سکتا ہے اور نہ رزق روک سکتا ہے ، نہ کوئی جزا دے سکتا ہے اور نہ سزا۔ (۲)تمہیں مخلوق کی حیثیت کا علم رہنا چاہئے کہ وہ بہت کمزور اور لاچار ہے، نہ وہ کسی کے نفع و نقصان کی مالک ہے اور نہ موت و زندگی کی، اور نہ دوبارہ زندہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی وہ جزا و سزا کی مالک ہے، چنانچہ تم ہمیشہ چوکنے اور ہوشیار رہو۔ (۳)اہتمام اور پابندی سے مندرجہ ذیل دعا پڑھی جائے۔ حضور اکرمﷺ نے یہ عمدہ دعا اپنے صحابہ کو سکھائی تھی: ” اے اﷲ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ جانتے بوجھتے کسی چیز کو تیرا شریک ٹھہراؤں اور جس گناہ کا مجھے علم ہی نہیں اس کی بھی میں مغفرت چاہتا ہوں۔“

حضرت حسن بصریؒ اس خطرناک اور چیونٹی کی چال سے باریک بیماری سے نجات کے لئے اﷲ تعالیٰ سے یوں دعا کیا کرتے تھے:” اے اﷲ! میں ریاء اور شہرت کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“

(۶)ذکر الٰہی میں کوتاہی:
منافق لوگ اللہ کو یاد ضرور کرتے ہیں لیکن تھوڑا تھوڑا اور کبھی کبھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ” اور (یہ منافق )جب نماز کے لئے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے، محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔“

قرآن نے یہ نہیں کہا کہ وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتے، ذکر ضرور کرتے ہیں، لیکن بہت تھوڑا۔ اس لیے ایسا ہو سکتا ہے کہ منافق بھی اللہ کا ذکر کرے، اُس کے نام کی تسبیح و تہلیل کرے لیکن بہت ہی کم ، کیونکہ منافق کی زبان لذت ذکر سے محروم ہے اور اس کا دل بھی مردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت اس کی طبیعت مرجھا جاتی ہے اور اس کی روح میں چستی نہیں ہوتی۔ حضرت ابودرداء بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ” یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے۔ وہ سورج کو دیکھتا رہتا ہے جب غروب کے قریب ہو جاتا ہے( دوسری روایت میں ہے: جب پیلا ہو جاتا ہے) تو کھڑے ہو کر چار رکعت کے ٹھونگے مار لیتا ہے اور ان (چار رکعتوں )میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے۔“

سبحان اللہ! وہ نماز پڑھتا ہے، تھوڑا بہت اللہ کا ذکر بھی کرتا ہے، اس کے باوجود منافق قرار پاتا ہے ۔ اس کے برعکس ایمان کی نشانی کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ” الوابل الصیب“ میں فرماتے ہیں: ” ذکر کا اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ نہ بھی ہو یہی فائدہ بہت کافی ہے کہ ذکر کرنے والا نفاق سے بری ہے۔“اس لیے اس میں کثرت ضروری ہے۔معروف محدث علامہ ابن الصلاح سے دریافت کیا گیا:” اللہ کے زیادہ ذکر کی حد کیا ہے؟“ فرمایا:” جو آدمی حضور اکرمﷺ سے منقول اَذکار کی پابندی کرتا ہے اس نے اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کیا۔“ چنانچہ جو آدمی صبح و شام کے اوقات اور نماز کے بعد کے مسنون اَذکار پابندی سے پڑھے۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے، بجلی کے چمکنے، بادل کے گرجنے، بارش برسنے، مسجد میں داخل ہونے اور مسجد سے نکلنے وغیرہ حالات سے متعلق مسنون دعائیں پڑھے، تو یقین جانو اس نے اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا: ” جو آدمی اللہ تعالیٰ کو چلتے پھرتے، حالتِ قیام اور حالتِ سفر ، صحت و بیماری اور ہر وقت یاد کرتا رہے اس نے واقعتاً اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کیا“۔ کئی ایک سلف صالحین سے یہ قول مروی ہے کہ ” کثرتِ ذکر“ سے مراد ہے کہ مسلسل ذکر الٰہی سے تمہاری زبان تر رہے۔ حضرت عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ!دین کے اَحکام مجھے بہت زیادہ محسوس ہوتے ہیں بس مجھے کوئی ایک ایسی چیز بتا دیں جسے میں مضبوطی سے تھامے رکھوں۔ تو آپ نے فرمایا:” تیری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہے“۔

(۷)نماز میں ٹھونگے مارنا:
پچھلی حدیث میںبیان کیا گیاہے کہ” تلک صلاة المنافق.... ینقر اربع رکعات....( یہ منافق کی نماز ہے.... چار رکعتیں ٹھونگ لیتا ہے....) اس کا معنی یہ ہے کہ وہ جلدی جلدی ،فرائض وواجبات اور آداب ومستحبات کی تکمیل کیے بغیر نماز پڑھتا ہے اور اس میں خشوع نہیں ہوتا۔ نماز میں اطمینان و سکون سے محرومی ا ور قلتِ ذکر دلی اکتاہٹ کی نشانی ہے اوراللہ تعالیٰ کی عظمت، ہیبت اور مقام سے خالی دل منافقین کی نمایاں نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ” مدارج السالکین“ میں تحریر فرماتے ہیں: ایک نمازی دوسرے نمازی بھائی کے ساتھ ایک ہی امام اور ایک ہی صف میں کھڑا ہو کر نماز ادا کرتا ہے لیکن مقام و مرتبہ کے اعتبار سے دونوں کی نمازوں میں زمین و آسمان جتنا فرق ہوتا ہے کیونکہ ایک نمازی کے دل میں اِخلاص، محبت اور شوق کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف بھی ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے دل پر اُکتاہٹ، دوری، اور پژمردگی چھائی ہوئی ہوتی ہے( والعیاذ باللہ) اس لیے دورانِ نماز خشوع کے معاملے میں ہمیشہ ہوشیار اور چوکنے رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:” یقیناً کامیاب ہوئے ہیں وہ اہل ایمان جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔“

(۸)رضا کار انہ طورپر دینی خدمات انجام دینے والے
نیک اہل ایمان پر طعنہ زنی کرنا: قرآن حکیم میں منافقین کے اس وصف کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے: ”( اللہ تعالیٰ ان دولت مند مگر کنجوس منافقوں کو خوب جانتا ہے) جو برضا و رغبت دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں بناتے ہیں اور اِن لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں جن کے پاس ( اللہ کی راہ میں دینے کے لئے) اس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں۔ اللہ ان( مذاق اڑانے والوں) کواس کا بدلہ دے گا اور اِن کے لئے درد ناک سزا ہے۔“

اس موقع پر قرآن” لمز“ کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا مطلب ہے لوگوں کی عزت پر حملہ آور ہونا اور ان پر زبان طعن دراز کرنا،اورایک لفظ ” مُطّوّعین“ کا استعمال کیا گیا ہے جس کا اِطلاق ہر اُس شخص پر ہو گا جو اللہ اور رسول کی اطاعت میں رضا کارانہ طور پر دینی خدمات انجام دے اور نتیجتاً اللہ کے دین کی طرف دعوت و تبلیغ اور اعلائے کلمة اللہ میں مصروف رہے۔ اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ منافق جس محفل میں بھی ہو اس کو ایک ہی کام ہے کہ نیک لوگوں کی چغلیاں کرے اور ان پر آوازیں کسے ، یعنی رضا کارانہ جہاد میں شریک ہونے والوں، سنجیدہ اور باوقار لوگوں، شرفاء اور دھیمے مزاج کے مالک حضرات کے خلاف زبان درازی کرے۔ اسے یہودیوں، عیسائیوں، سوشلسٹوں اور ملحدوں کے بارے میں گفتگو کی توفیق نہیں ہوتی، بس صبح و شام اللہ والوں پر تیر چلانا اس کا کام ہے، چنانچہ وہ اللہ کے نیک بندوں کے بارے میں باتیں بناتا ہے، محفلوں میں ان کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کا مذاق اڑاتا ہے۔گویا نیک لوگوں کی عزت پر حملہ آور ہونا منافق کی نشانی ہے۔ اسی لیے یہ لوگ ہمیشہ اہل علم، دعوت و تبلیغ میں مصروف حضرات، طلبہ اور سیدھی راہ پر گامزن عبادت گزار اور مجاہدین حضرات کی ٹوہ میں رہتا ہے اور مذاق اُڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

چنانچہ جو آدمی نیک لوگوں پر کیچڑ اچھالے اور ان کی عزت پر حملہ آور ہو تو سمجھ لو کہ اس میں نفاق کی نشانی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔یہ مرض مسلمانوں میں عام ہوتا جا رہا ہے اور ہمیں خبر ہی نہیں ہو رہی کہ یہ بری خصلت ہمیں ایمان سے دور کر رہی ہے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372750 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.