پھول عبداللہ کا چمکا انوکھی شان سے
بت پگھل کر رہ گئے خاروں کو چکر آگئے
نبی اکرم ﷺ کی شخصیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں کے لیے مکمل
نمونہ ہے۔ عربی و عجمی ،شاہ و گدا ،مرد و عورت اورپیر و جوان سب اپنی زندگی
اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنے کے لئے آپ ﷺکی ذات والا فر ستودہ صفات کے
محتاج ہیں۔قرآن کریم نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے۔﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ
فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾۔یعنی تمہارے لیےرسول اللہ کی زندگی
میں بہترین نمونہ ہے۔
آپ ﷺکی ولادتِ مبارک عرب کے شہر مکہ میں ہوئی جو کہ اس زمانے میں دنیا کے
پسماندہ ترین علاقوں میں شامل تھا۔آپ ﷺ پرجب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس وقت
دنیا کی حالت یہ تھی کہ عرب وعجم مذہبی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی
قدروں میں زوال پذیر تھے۔آپ ﷺکی تربیت کا اثر یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی
مرتبہ تھوڑے سے عرصے کے دوران عرب کے بدو قبیلے آپ کی قیادت میں متحد ہوئے
اور اللہ کی وحدانیت کا پیغام لیے ایمان کے نشے میں سرشارپوری دنیا پر چھا
گئے۔ ان کی اصلاح کے لیے ہر موقع پر ،ہر طریقے سے، ہر ممکن کوشش فرمائی۔
موقع و محل کو دیکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو مؤثر سے مؤثر تر بنانے کے لیے
دن رات تگ و دو میں مصروف رہے اور ایسی اصلاحات نافذ فرمائیں جس سے عرب کا
سیاسی اور سماجی ماحول یکسر بدل گیا۔
بقول جگر مراد آبادی
وہ ادائے دلبر ی ہو یا نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہ ہی فاتح زمانہ
ہم یہاں مختصر طور پربیان کریں گے کہ کیسے آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں ایک
قائد کی حیثیت سے کردارادا کیا اور معاشرے میں سماجی اور سیاسی اصلاحات
نافذ فرمائیں۔
آپ ﷺنے اپنی چالیس سالہ قبل از نبوت اور پھر 23سالہ تبلیعی و دعوتی زندگی
میں ہر موقع پر قائدانہ صلاحیتوں اور کمال دانشمندی کا مظاہرہ فرمایا
اوردنیا کے عظیم ترین مذہب کے بانی کے ساتھ ساتھ ایک نہایت طاقتور اور
کامیاب لیڈر بن کر نمودار ہوئے۔۔ لال جواہر نہرو اپنی کتاب ’’تاریخ عالم کی
جھلکیاں“ میں لکھتے ہیں:
”چند دوسرے مذاہب کے بانیوں کی مانند، محمد (ﷺ) بھی اپنے وقت کے سماجی رسوم
و رواج کے باغی تھے۔ جس دین کی انہوں نے تبلیغ کی، وہ اپنی سادگی، سلاست،
صراحت اور مساوات و جمہوریت کی چاشنی کی بدولت، قرب و جوار کے ملکوں کے
عوام کے لئے بے پناہ کشش کا حامل تھا جو ایک عرصے سے مطلق العنان بادشاہوں
اور مطلق العنان مذہبی عمائدین کے ہاتھوں پستے چلے آ رہے تھے۔ وہ پرانے
نظام سے بیزار ہو چکے تھے اور تبدیلی کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ اسلام نے
ان کے سامنے یہ تبدیلی پیش کی اور لوگوں نے اسے بڑی خوشی سے قبول کر لیا،
کیونکہ اس تبدیلی نے ان کے طرزِ زندگی میں بہتری پیدا کی اور بہت سی
ناانصافیوں کو ختم کر دیا۔‘‘
شروع میں جب مکہ میں آپ کے پیروکار کمزور تھے اور اس پوزیشن میں نہیں تھے
کہ کھلم کھلا نئے دین کا پرچار کریں تو اس وقت خاموشی اور حکمت عملی کے
ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔کچھ عرصہ بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی
تعداد روز بروز بڑھنا شروع ہوئی تو اپنا ہیڈ کوارٹر وہاں منتقل فرمالیاتاکہ
وہاں پرامن فضا میں اسلام کی تعلیمات کو عملی شکل دے سکیں۔ یہ ایک حکمت
عملی تھی اور اس کا مقصد اپنے لیے بہترین متبادل تلاش کرنا تھا۔ آپ نے عظیم
قائد ہونے کے ناطے اپنی ترجیحات کا تعین فرمایا اور سب سے پہلے خالی ہاتھ
آنے والے مہاجرین کی رہائش کا انتظام کیا۔ اس مقصد کے لیے آپ نے مواخات
مدینہ کا دستور پیش کیا۔آپ نےمدینہ اور گردونواح میں رہنے والی دوسری اقوام
کے ساتھ معاہدے کیے تاکہ ہر مذہب و قوم کے لوگ پرامن رہ کر کام کریں اور
اسلامی فلاحی ریاست قائم ہوسکے۔آپ ﷺ نے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے اسلامی
ریاست کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی تھی۔
آپ ﷺ نے ایک مثالی قائد ہونے کے ناطے تجربہ کار ساتھیوں کے تجربات سے فائدہ
اٹھایا،چنانچہ غزوہ خندق کے موقع پرآپ ﷺنے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
جیسے بزرگ صحابی کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا اور عرب میں پہلی دفعہ خندق کھود
کر دشمن سے اپنا دفاع کیا اور شہرمدینہ کو دشمن سے محفوظ و مامون کردیا۔آپ
ﷺ نے نوجوانوں کے جوش و جذبے اور ولولے کو دیکھ کر کئی اہم ذمہ داریاں انکو
سونپیں۔
عرب لوگوں کی عادت تھی کہ وہ اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات جلدی مانتے
تھے۔اسلیےآپﷺ نے معززین اور سرداروں کے قبول اسلام کے لیے ترجیحی بنیادوں
پرکوششیں کیں تاکہ انکے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باقی لوگوں میں تبلیغ
دین آسان سے آسان تر ہوجائے۔ ایک اچھاقائد اپنے کارکنوں اور پیروکاروں کا
خیال رکھتا ہے اور انکی جان و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے یہ بات
اپنے عمل سے ثابت کی۔
بقول مولانا الطاف حسین حالی
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
آپﷺ نے دنیاوی بادشاہت کے برعکس حاکمیت اقتدار اعلیٰ کا ایک نیا تصور پیش
کیا جس کی بنیاد خدائے لم یزل کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت تھی۔ آپ کی
حیات مبارکہ میں معرکے برپا ہوئے، مذاکرات کیے ،سفارتی وفد روانہ کیے، فوجی
اقدامات کیے۔ اپنے و غیر سب تسلیم کرتے ہیں کہ آپ نے کبھی وعدہ خلافی نہیں
کی ۔غلط یقین دہانی نہ کرائی،کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ۔حلیفوں کا
بدترین حالات میں ساتھ نہ چھوڑا دشمنوں کے ساتھ بھی معاملہ کرنے میں انصاف
کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ مخالفین کی رکاوٹوں اور سازشوں کے خلاف
جارحانہ ردِّعمل اور انتقام کی بجائے اپنےمشن پر توجہ دی۔ اس سے آپکے
تدبر،فہم اور موقع شناسی کا کمال ظاہر ہو رہا ہے۔ اسی معیار سیاست کی بدولت
حضور کریم کو سیاست کے میدان میں کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
آپ ﷺ نے سماج کی اصلاح کرنے کے لئے بھی نہایت عمدہ اقدامات فرمائے۔ معاشرے
کے ہر فرد کو ذمہ دار بنایا۔ فرد کی اصلاح سے لے کر پورے معاشرے کی اصلاح
کے لئے والدین، زوجین، اہل و عیال، پڑوسیوں، مہمانوں اور ماتحت لوگوں میں
سے ہر ایک کے حقوق بیان فرمائے اور جامع قسم کی تعلیمات عطا فرمائیں نیز
زوال پذیر اخلاقی قدروں مثلا صلہ رحمی عفوودرگزر، صبروتحمل، بھائی چارہ،
اتحاد ،دیانت، مساوات، عدل و انصاف اور خدمت خلق کو نہ صرف رائج فرمایا
بلکہ خود کو بطور عملی نمونہ کے پیش کیا ۔ غزوہ خندق کے موقع پر آپﷺ نے
جانثار صحابہ کرام کے ساتھ مل کر حالات کی سختی اوربھوک پیاس برداشت کی اور
مساوات کی عملی تعلیم دی۔
آپ نے معاشرے میں مساوات قائم فرمانے کے لیے خطبہ حجۃ الوداع میں
فرمایا۔”لوگو! آگاہ ہو جاؤ‘ یقینا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک
ہے۔ خبردار! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی
عجمی کو کسی عربی پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے
اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر۔فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔‘‘
آپ ﷺکی قیادت میں ایسا نظام قائم ہوا جس کو دیکھ کرغیرمسلم مؤرخین بھی آپ
ﷺکو تاریخ عالم کے بااثر ترین لیڈرز میں شمار کرتے ہیں۔ آپ کی قائدانہ
جدوجہد کے نتیجے میں ریاست مدینہ مختصر سےعرصے میں ہر لحا ظ سے ایک ترقی
یافتہ ریاست ابھر کر سامنے آئی اور تمام عالم اسلام کے لیے ایک رول ماڈل کی
حیثیت کر لی۔ سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ کی شخصیت ان تمام
خصوصیات پر پوری اترتی ہے جو ایک کامیاب قائد میں ہونی چاہئیں۔ آپ ﷺ نے
رہنمائی کے جو اصول بیان فرمائے ہیں اس میں دنیا کے تمام ہی مسائل کا حل
موجود ہے خواہ وہ معاشی نوعیت کے مسائل ہوں یا معاشرتی نوعیت کے، انفرادی
سطح کے ہوں یا اجتماعی سطح کے، حاکم و محکوم، مرد و عورت، بچہ، جوان اور
بوڑھا الغرض ہر طبقے کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں۔
حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
|